کھیل یا جنگ

بعض مقام پر کھیل اور جنگ دونوں میں ’توانا دماغ‘ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔مگر اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ کھیل اور جنگ ملتے جلتے ’الفاظ‘یا ’عمل‘ہیں۔میرے نزدیک تو’شطرنج‘ کو بھی مختلف فورمز پر بدنام کیا گیا ہے۔یہ ایک قسم کا کھیل ہے، جس میں دماغ کا بے جا استعمال ہوتا ہے۔اس کھیل کا کسی بھی لحاظ سے دشمنی، تناؤ یا بدلوں کی چال سے کوئی تعلق نہیں۔کھیل تو محض تفریح کے لئے کھیلے جاتے ہیں۔جبکہ جنگ ذاتی دشمنی،مفادات اور بدلے سے جڑی ہوتی ہے۔کھیل کا مقابلہ،امن اوربھائی چارے کو فروغ دیتا ہے۔جنگ کا مقابلہ غصے،جبر اور تناؤ کی علامت ہے۔جنگ ہمیشہ تباہی کو فروغ دیتی ہے۔چلو مانتے ہیں کہ، جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔مگر جنگ میں ہمیشہ قوانین کی دھجیاں ہی اڑتے دیکھی ہیں۔جنگ کسی قانون کی محتاج نہیں۔جنگ میں قوانین کی پاسداری صرف کمزور پر لازم ہوتی ہے۔جبکہ کھیل کے قوانین ہر گروہ و ٹیم کے لئے یکساں ہیں۔کھیل انسانی زہن کی نشونما کا باعث بنتا ہے۔بلکہ جسمانی نشونما میں بھی اہم کردار نبھاتا ہے۔دوسری طرف جنگ ہمیشہ انسانی جانوں کے ضیاع کا ہی باعث بنی ہے۔کھیل زہنی کنٹرول اور جنگ بد حواسی کی علامت ہے۔ ایسے مزیدفرق ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ، کھیل کسی لحاظ سے بھی جنگ سا نہیں۔
’فٹ بال‘ کے بعد’کرکٹ‘ دنیا میں دوسرا بڑا دیکھا اور کھیلا جانے والا کھیل ہے۔اس کے مداحوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔کھیل میں غم و غصہ تو عام سی بات ہے۔تاہم بات ہاتھا پائی تک پہنچ جائے تو یہ کھیل کے اصولوں کے منافی ہے۔حد سے زیادہ تنقیدا ور غم وغصہ کھیل کے شوق کی نفی کرتا ہے۔سیاست کے حریف پاکستان اور بھارت کرکٹ میں بھی روایتی حریف ہی کہلاتے ہیں۔پوری دنیا میں موجود دونوں ٹیموں کے شائقین کے دل اپنی ٹیم کے لئے دھڑکتے ہیں۔دوسری ٹیموں کے مقابلے،ان روایتی حریفوں کے کرکٹ مقابلے میں شائقین کی امیدیں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہیں۔تاریخ اور سیاست کی دھاک کھیلوں پر بھی بیٹھ چکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دونوں طرف کے شائقین کرکٹ میچ کو کسی صورت جنگ سے کم نہیں سمھتے۔اب کھیل میں کسی ایک ٹیم کی ہار تو ضروری ہوتی ہے۔جنگ میں شاید ہارنے والوں سے اتنا برا برتاؤ نہ کیا گیا ہو جتنا کرکٹ میچ میں ہارنے کی صورت میں، کھلاڑیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔تنقید،طعنوں اور گالیوں سے جی نہ بھرے تو; ٹماٹروں، انڈوں اور چپلوں سے بھی تواضح کی جاتی ہے۔جو کھلاڑیوں کے لئے زہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔مانتے ہیں کہ، اس خطے کے لوگ جنونی ہیں۔مگر کھیل میں بھی انتہا پسندی!جذبات پر کوئی کنٹرول ہی نہیں۔تحمل و بردباری معاشرے کو تشکیل دیتی ہے،اور بے جا انتہا پسندی معاشرے کو افراتفری کی آگ میں دھکیل دیتی ہے۔کھیل میں ہار کو ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔چیزوں کی توڑ پھوڑ اورکھلاڑیوں پر ذاتی حملے، نفسیاتی مریضوں کو عیاں کر دیتے ہیں۔
پاکستان کی بنگلہ دیش اور افغانستان سے خراب تعلقات کی چھاپ بھی کرکٹ جیسے کھیل پر چھپ رہی ہے۔پاکستان سے کرکٹ میچ کی صورت میں افغانیوں اور بنگالیوں کا رویہ بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا پاک بھارت شائقین کا۔
گزشتہ روز پاکستان کے مخالف میچ کو افغانیوں نے ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔یہاں تک کہ’، افغانستان کرکٹ بورڈ‘ کی طرف سے ’پاکستان کرکٹ بورڈ‘کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔میچ سے قبل افغانی شائقین نے گراؤنڈ کے باہر تصادم برپا کر دیا۔سیاسی چھاپ کا اندازہ لگانے کی لئے افغان شائقین کے بھارت سے ہارنے کے بعد کے پیغامات کا جائزہ لیں،جو بھائی چارے کی علامت ہیں۔جبکہ پاکستان سے ہارنے کے بعد افغان شائقین کی جانب سے گراؤنڈ میں موجود پاکستانی کھلاڑیوں پر حملے کی کوشش جسے سیکیورٹی اہلکاروں نے ناکام بنادیا تھا کا جائزہ لیں۔ افغانستان کے کپتان گلبدین نائب کی خراب کارکردگی کے باعث،اسے صرف افغانیوں کی طرف سے پاکستانی ایجنٹ کا خطاب نہیں دیا گیا بلکہ بھارتی شائقین نے بھی اس الزام میں پیش پیش رہے۔
کھیل کو ذاتی انا کا مسئلہ اور جنگ سمجھنے والے کبھی بھی کھیل کے مداح نہیں ہو سکتے۔کھیل پر تنقید ضروری ہے،لیکن مثبت تنقید!اور کسی حد تک۔حدودکو تجاوز کرنے والے انتہا پسند لوگ صرف زہنی مریض ہو سکتے ہیں،کھیل کے مداح کسی صورت نہیں۔ایسے لوگ پاکستان میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔جبکہ بھارت اور افغانستان تو ایسے لوگوں کا گڑھ بن چکا ہے۔اس کی مثال بھارت کے طرف سے ’آرمی کیپ‘ کا استعمال اور افغانی انتہا پسندوں کے کرکٹ پر گزشتہ حملوں سے باخوبی ہوتا ہے۔
جیسے پانچ انگلیاں برابر نہیں،اسی طرح کھیل کے کچھ حقیقی مداح بھی موجود ہیں۔جو کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں،نہ کہ اسے جنگ سمجھتے ہیں۔تنقید کرتے ہیں لیکن مثبت انداز میں۔کھیل ان کے لئے تفریح سے بڑھ کر کچھ نہیں۔کھیل کو کھیل سمجھ کر جیو نہ کہ جنگ۔اگر ایسا ممکن نہیں تو براہ کرم نفسیاتی ماہروں ملئے۔

حصہ
mm
لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، وائس آف سوسائٹی کے سی ای او اور مکینیکل انجینئر ہیں۔

جواب چھوڑ دیں