ملک کاتاریخی بجٹ۔۔؟

انصاف والوں کی حکمرانی میں دس گیارہ مہینوں کے اندرملک وقوم کاجوحشرہواوہ بیان سے بھی باہرہے۔ملک میں مہنگائی،غربت اوربیروزگاری کی شرح اس نہج تک پہنچ چکی ہے جہاں غریب توغریب اب کوئی امیربھی نہ جی سکتاہے اورنہ مرسکتاہے۔پرانے پاکستان سے نئے پاکستان میں منتقل ہونے والاہرشخص آج ایڑھیاں رگڑنے اوربھوک وافلاس سے بلک بلک کررلنے اورتڑپنے پرمجبورہے۔ڈی چوک میں کنٹینرپرکھڑے ہوکرجولوگ غریبوں وبیروزگاروں کوروزگاردینے کے وعدے اوربلندوبانگ دعوے کررہے تھے انہی لوگوں نے اقتدارمیں آنے کے بعدہزاروں لوگوں کوچندماہ میں روزگارسے ہی محروم کردیاہے۔محض چندمہینوں میں ملک کے اندربے شمارفیکٹریاں وکارخانے بنداورکئی بڑے بڑے کاروباری ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔کسی غریب اوربیروزگارکونیاروزگارملناتودورپی ٹی آئی حکومت کی برکت سے اب تک ہزاروں غریب لگی نوکریوں سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔کل تک جولوگ ڈالرکی قیمت بڑھنے پرن لیگ کی حکومت اورسابق وزیرخزانہ اسحاق ڈارکوطرح طرح کے طعنے دیتے تھے آج ان لوگوں کوڈالرکی قیمت میں مسلسل اضافے پرذرہ بھی شرم محسوس نہیں ہورہی۔ماضی میں جوبڑے بڑے ایماندارآئی ایم ایف پرایک سانس میں ہزاربارلعنت بھیجتے تھے آج وہ ایماندارآئی ایم ایف کی لونڈی بننے اورگوروں کے تلوے چاٹنے پرفخرمحسوس کررہے ہیں۔اقتدارمیں آنے سے پہلے جولوگ عوام عوام اورانصاف انصاف کی رٹ لگاکراپنے دبلے پتلے گلے پھاڑرہے تھے ان لوگوں نے اپنے پہلے ہی سالانہ بجٹ کے اندرعوامی امیدوں،خواہشات اورامنگوں کاخون کرکے انصاف کاجنازہ نکال دیاہے۔70سال سے چور،ڈاکواورلٹیرے جوبجٹ پیش کررہے تھے ان میں بھی اتناظلم وکفرکبھی نہیں ہواجوظلم وکفراس بجٹ میں کیاگیاہے۔جو لوگ پہلے سے ہی ماچس کی ڈبی،پیناڈول کی گولی اورموبائل کارڈپربھی حدسے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں ان کے لئے اس بجٹ میں ٹیکس کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں۔انصاف والوں کی انصاف کاعالم تودیکھیں۔ان کاپہلاتاریخی بجٹ ہی ٹیکس سے شروع کرٹیکس پرختم ہوتاہے۔اس ملک میں ایسی کوئی چیزبتائیں جس پرغریب عوام ٹیکس نہ دیتے ہوں۔غریبوں کی تواٹھتے اورسوتے ہی پہلی ملاقات ٹیکس سے ہوتی ہے۔آٹے پرٹیکس،چینی پرٹیکس،دال پرٹیکس،صابن پرٹیکس،سرف پرٹیکس،سی این جی وپٹرول پرٹیکس،جوتے پرٹیکس،کپڑوں پرٹیکس،پانی پرٹیکس،گھرپرٹیکس،دکان پرٹیکس،ایزی لوڈپرٹیکس،موبائل کارڈپرٹیکس،کال پرٹیکس،بجلی پرٹیکس،گیس پرٹیکس،ادویات پرٹیکس،سبزی پرٹیکس،فروٹ پرٹیکس،مرغ پرٹیکس،گوشت پرٹیکس،زمین پرٹیکس،مویشیوں پرٹیکس،کاعذپرٹیکس،قلم پرٹیکس،کتابوں پرٹیکس،شادی پرٹیکس،غمی پربھی ٹیکس۔اس ملک میں غریب توپہلے ہی سرسے پاؤں تک ٹیکس میں ڈوبے ہوئے ہیں۔غریبوں کاتونہ جیناٹیکس سے خالی ہے اورنہ ہی مرناٹیکس سے باہر۔کھانے پینے سے لیکررہن سہن اورزندگی گزارنے کے ہرنظام تک کوئی شئے ایسی نہیں جس پرغریب عوام ٹیکس نہ دیتے ہوں۔یاان سے ٹیکس نہ لیاجاتاہو۔اس کے باوجودپی ٹی آئی حکومت کابجٹ میں غریبوں کوکچھ دینے کی بجائے پورے بجٹ کوٹیکس تک محدودکرناسمجھ سے بالاترہے۔چاہیئے تویہ تھاکہ انصاف والے کم ازکم لفظ انصاف کاکچھ خیال ولحاظ کرکے بجٹ میں غریب عوام پرکچھ رحم کرتے۔مگرافسوس آئی ایم ایف کے ٹکروں پرپلنے والوں کوانصاف اورعوام سے کیاسروکار۔۔؟اس لئے بجٹ میں آٹا،چینی،دال،گھی،دودھ،چاول،گوشت،سبزی وفروٹ سمیت دیگراشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کرنے کی بجائے ٹیکسوں پرمزیدٹیکس لگائے گئے تاکہ اس ملک میں غریب عوام جی ہی نہ سکیں۔وزیراعظم عمران خان نے اقتدارمیں آکرغریب عوام کوواقعی رلادیادیاہے۔70سالوں سے ملک کودیمک کی طرح کاٹنے اورچاٹنے والے توآج بھی انصاف کی کشتی اورریسٹ ہاؤس نماجیلوں میں اے اوربی کلاس لیکرعیش وعشرت اورآرام وسکون کی زندگی گزاررہے ہیں لیکن سترسالوں سے اپناخون وپسینہ بہاکرٹیکسوں پرٹیکس دینے والے غریب عوام پرعرصہ حیات تنگ کردیاگیاہے۔ماضی میں جن سیاسی اژدھوں کے بڑے بڑے پیٹ پھاڑکران سے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لینے کے دعوے اوروعدے کئے جارہے تھے آج ان اژدھوں کواپنے ساتھ ملاکرایک بارپھرغریب عوام کے ٹیکسزسے ان کے جہنم بھرے جارہے ہیں۔دس گیارہ مہینوں کے اندرمہنگائی میں توسوفیصداضافہ ہوا۔گیس،بجلی اورادویات سمیت کئی اشیاء کی قیمتیں توڈیڑھ سوفیصدتک بڑھیں لیکن اس کے باوجودبجٹ کے اندرملازمت پیشہ طبقے کے ساتھ جوسلوک کیاگیاوہ بھی انصاف انصاف کی رٹ لگانے والوں کے منہ پرکسی طمانچے سے کم نہیں۔ جن کی اپنی حکومت میں مہنگائی سوفیصدبڑھی۔ان کی حکومت میں غریب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں محض دس فیصداضافہ کھوداپہاڑنکلاچوہانہیں تواورکیاہے۔۔؟آٹا،چینی اورگھی کے قیمتیں بڑھانے کی مدمیں ہی ایک غریب کی جیب سے ہزارسے دوہزارروپے اضافی نکالنے والوں کی جانب سے ایک غریب ملازم کی تنخواہ میں ہزارسے بارہ سوروپے اضافہ یہ انصاف انصاف کی راگ الاپنے والوں کے لئے چھلوبھرپانی میں ڈوب مرنے کامقام ہے۔چوروں،ڈاکوؤں اورلٹیروں کی حکمرانی میں بھی اتناظلم کبھی نہیں ہواجوظلم آج ایمانداروں اورانصاف کے نام نہادعلمبرداروں کی حکمرانی میں ہورہاہے۔ایساغریب کش بجٹ توکسی چوراورڈاکوحکمران نے بھی کبھی پیش نہیں کیاہوگاجوان ایمانداروں نے پیش کیاہے۔نئی کااستراجب سے بندرکے ہاتھ لگاہے امیرغریب سب کی جیبیں کٹنے لگی ہیں۔پچھلے دس گیارہ مہینوں میں کبھی یہ نہیں کہاگیاکہ فلاں چیزکی قیمت کم ہوئی ہے بلکہ بجلی،گیس،ادویات،آٹا،دال،چینی،سی این جی،پٹرول اورڈالرسمیت ہرچیزکے بارے میں ہرروزیہ سننے کومل رہاہے کہ فلاں چیزکی قیمت آج اتنی بڑھی فلاں کی اتنی بڑھی۔سی این جی اورپٹرول کی قیمت میں تین سے چارروپے اضافہ کرکے پھر77پیسے کمی کرنایہ ایمانداروں کاکام نہیں بلکہ چورحکمرانوں کی نشانی ہے۔ یہ توکپتان نے خود فرمایاتھاکہ جب ڈالر،پٹرول،گیس وبجلی کی قیمتیں اورمہنگائی بڑھیں توسمجھ لیناکہ وزیراعظم چورہے۔ہم تونہیں کہتے کہ آج ملک کاوزیراعظم چورہے لیکن ملک میں بڑھتی مہنگائی،ڈالرکابے قابوہونا،معیشت کاہچکولے کھانا،غریب عوام پرعرصہ حیات اورزمین تنگ ہونااورملک میں مایوسی،پریشانی اورحکمرانوں سے بیزاری کی بلندہوتی لہریں چیخ چیخ کراس بات کاپتہ اوراشارہ دے رہی ہیں کہ سابق چوراورڈاکوحکمرانوں کی طرح ملک کے موجودہ حکمران بھی ٹھیک نہیں۔وزیراعظم عمران خان نے ٹھیک فرمایاتھاملک کاوزیراعظم چورنہ ہوتو ملک میں نہ مہنگائی بڑھتی ہے،نہ ڈالربے قابوہوتاہے،نہ معیشت ہچکولے کھاتی ہے،نہ غریب عوام پرعرصہ حیات ہوتاہے اورنہ ہی ملک میں مایوسی،پریشانی اورحکمرانوں سے بیزاری کی لہریں بلندہوتی ہیں۔ملک آج کی طرح مہنگائی،غربت،بیروزگاری،معاشی بدحالی اورتباہ حالی کاتب شکارہوتاہے جب حکمران چورہوں۔ہم نے تووزیراعظم عمران خان کوکبھی چورنہیں کہالیکن ملک کے جوحالات چل رہے ہیں۔مہنگائی جس طرح عام اورخاص کواپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔غریبوں پرجس طرح عرصہ حیات تنگ کیاجارہاہے۔سی این جی،پٹرول،بجلی وگیس سمیت دیگراشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں جس رفتارسے مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ان حالات میں ہم وزیراعظم عمران خان کوایمانداربھی نہیں کہہ سکتے۔ وزیراعظم عمران خان واقعی چورنہیں ہوں گے لیکن ان کی سربراہی،حکمرانی اورکپتانی میں جوکام ہورہے ہیں وہ کسی ایماندارکی حکمرانی اورکپتانی میں ہرگزنہیں ہوسکتے۔عمران خان کی حکمرانی میں ملک کے 22کروڑعوام کوجس طرح خاک کھانے پرمجبورکیاجارہاہے اسے دیکھ کرہم وزیراعظم عمران خان کوایماندارکیسے مانیں یا کہیں۔۔؟ البتہ پی ٹی آئی حکومت کے بجٹ کوہم،،تاریخی بجٹ،،ضرورکہہ اورمان سکتے ہیں کیونکہ ٹیکس سے ٹیکس تک اس طرح کابجٹ اس سے پہلے اس ملک میں کبھی پیش نہیں ہوا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں