تکلیف دہ بات۔۔۔۔۔؟

بجٹ منظور ہو چکا،اِس بجٹ کی منظوری کے دوران پارلیمنٹ کا جو حال تھا،سب نے دیکھا،پرکھا،جانا۔کوئی بجٹ کو ٹھیک،کوئی غلط کہہ رہا،کوئی بجٹ کو سخت مگر ملک و عوام دوست بتا رہا اور کوئی ملک وعوام دشمن قرار دے رہا،کوئی اِسے مہنگائی کے طوفان سے تعبیر کررہا تو کوئی اِسے ملک کے لیے آئندہ کتنا بہتر ہوگا،ثابت کرنے کی کوشش کررہا۔سیاست کے اِس پتلی تماشے میں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہورہااورکیا بننے والا،کون صحیح،کون غلط،کون رہنماء،کون راہزن،کون سچا،کون جھوٹا،کون کیا رول ادا کرنے والا،کون حمایتی،کون مخالف،کس کی گرپ مضبوط،کس کی کمزور۔حکومتی و اپوزیشن دنگل میں کون جیت پائے گا اور کس کو ہوگا شکست وریخت کا سامنا،کون بازی سمیٹے گا،کون بازی ہارے گا،ایک میچ پڑا ہوا ہے حکومتی واپوزیشن پارٹیوں کے درمیان۔بیان بازی کاایک بازار گرم ہے،ایک دوسرے پر سنگ باری بھی کی جارہی ہے،ایک دوسرے کے خلاف اخلاقیات سے عاری الفاظ بڑے دھڑلے سے بولے جارہے ہیں،دونوں اطراف سے ”سلیکٹڈ“اور”چور ڈاکو“ کی صدائیں عام سننے کو مل رہی ہیں،پارلیمنٹ کی حالت ایک جنگی میدان کی سی ہے،
جس میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے،ہر کوئی ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کیے اُسے گہنگار ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے اور خود معصوم بننے کا ناٹک رچا رہا ہے،ہر کوئی خود کوایماندار جانے دوسرے کو ”کرپٹ،بے ایمان،چور کہہ رہااور ملک و قوم کی بربادی کا ذمہ دار قرار دے رہا۔پارلیمنٹ اور اِس کے باہر ”چور سپاہی“ کا کھیل اِس خوبصورت اداؤں کے ساتھ اتنے انوکھے اور نرالے انداز سے کھیلا جارہا ہے کہ سب سمجھتے،جانتے ہوئے بھی اِس کھیل میں پتا نہیں چل رہا کہ کون چور،کون سپاہی۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں حکومتی افراد ہویا اپوزیشن کے لوگ،سبھی الاماشااللہ،چند ایک کو چھوڑکر سب ہی کرپشن و لوٹ مار کے حمام میں بُری طرح ننگے ہیں اور کسی طرح بھی چاہ کربھی سراہے جانے کے قابل نہیں، سب کے ہاتھ کسی نہ کسی طریقے سے کرپشن،لوٹ مار اور فراڈ سے لتھڑے ہوئے ہیں،جس کا اظہار گاہے بگاہے،گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے،یہ خود ہی کرتے رہتے ہیں،کسی کو اِس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں۔اِس ملک کی یہ بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ اِسے جو بھی ملا،چور،ڈاکو،لٹیرا ہی ملا۔افسوس کے ساتھ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں کے احتساب کرنے والے اِن سے بھی بڑے چور ڈاکو،لٹیرے نکلتے اور چور بھی کہے،چور چور والی بات ہے۔ اِس ملک میں احتساب کے نام پر کبھی کچھ بھی نہیں ہوا اورنہ ہی اِس حوالے سے کوئی اچھی خبر دیکھنے کو ملتی،
پہلی بات کہ احتساب ہوتا ہی نہیں،اگر ہوتا بھی ہے تو احتساب کے نام پراحتساب سے کھلواڑ ہی کیا جاتا،یہاں اگراحتساب ہوتا بھی تو بس ایک ڈھکوسلا اور فریب ہوتا،ملزم چھوٹ جاتے،احتساب کا عمل مشکوک اور مبنی برانتقام ٹھہرتا۔ایک ہی واقعہ میں کوئی معروف سیاستدان نااہل قرار پاکر گھر چلا جاتااور کوئی مقبول لیڈر ایسے ہی واقعے میں نااہل ہوکر جیل کی کال کوٹھریوں کا حصہ بنتا۔مخالفین پر ستم ڈھائے جاتے اور منظور ِنظر افراد خصوصی شفقت کے حقدار ٹھہرتے۔کیا کیا بتاؤں،کچھ بھی تو ڈھکا چھپا نہیں،سب کچھ تو سب پر عیاں ہے،کیا ہورہا،کیا ہونے والا،کیا ہوگا،کیا نہیں ہوگا،سبھی تو جانتے،بس سبھی نے جانتے ہوئے بھی نہ جاننے کا ڈرامہ اور سوانک رچا رکھا ہے۔اِن کرتا دھرتا افراد نے،جو عوام کو بے وقوف و احمق بنانے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔حکومت نے ”سب اچھا“ کی اُمید دلاکر،جھوٹی طفل تسلیاں،دلاسوں،
لاروں کی آڑ میں ”اچھے دن بھی آئیں گے“ کی اُمید پر عوام کوٹرک کی بتی پیچھے لگا رکھا ہے،نہ کسی سمت کا تعین،نہ کسی راستے کا پتا،نجانے کس اُمید،یقین دہانی،بات پر نئے پاکستان پر”شمع اساں ایسے لئی جگائی ہوئی اے“کا اراگ الاپ رہے،اندھیرے بھی وہی ہیں اور جگمگا بھی کوئی نہیں رہا،نجانے وہ کون سی صورتحال کا سامنا عوام کو ہے،جس کی کرنیں بھولے سے بھی ابھی تک عوام پر کوشش کے باوجود پڑنے والی نہیں۔مہنگائی،بے روزگاری پر کنٹرول نہیں ہوپا رہا،وسائل کی بندربانٹ اور لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ ابھی بھی تھما یا رکا نہیں،حکومت واداروں میں ظالم وکرپٹ عناصر کی موجودگی اب بھی ہے، کرپشن و رشوت پر اب بھی کوئی روک تھام نہیں،کا سلسلہ رکا نہیں،عوام پہلے کی طرح اب بھی چوکیوں،تھانوں،دفاتر میں ذلیل ورسوا ہورہے اور مسیحا کوئی نہیں۔روپوں کی چمک دھمک اور پیسوں کی جھنکار میں صرف ”سب اچھا“
کی رپورٹیں ہیں،حالات پہلے سے بھی بدتر ہیں،ٹھیک ہوا کچھ بھی نہیں۔موجودہ حکومت یہ سب کچھ سابق حکومتوں کا کیا دھرا بتا رہی اور اُنہیں اِن سب کا ذمہ دار ٹھہرا رہی،جبکہ اپوزیشن والے کہتے کہ ”ہمارا دور ٹھیک تھا،موجودہ حکومت انتہائی نالائق ہے،اِس کے بس میں مُلک چلانانہیں،وہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا بھی ارادہ رکھتی،نئے مڈٹرم انتخاب کے مطالبے کی طرف بھی جاسکتی،سڑکوں پر آنے کا بھی سوچ سکتی“۔اپوزیشن ابھی تک حکومت کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ نہیں لے پارہی،اگر مگر کی صورتحال کا سا شکار ہوئے مختلف مصلحتوں کی ماری ہوئی ہے،حکومت کے خلاف اگرایک قدم آگے بڑھتی ہے تو دو قدم پیچھے چلی جاتی ہے،یہ اُس کے کمزو اور متزلزل فیصلوں کے باعث ہورہا،اپنی کرپشن و لوٹ مار کے سبب نیب کے شکنجوں میں بُری طرح جکڑی،ہانپتی اورکانپتی اپنی بکھری سوچ اور اِدھراُدھر ہوئے لوگوں کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ایسے میں مختلف غموں سے نڈھال،حال و بے حال،اپنا سب کچھ چھوڑ بیٹھے،میاں شہباز شریف کی نجانے کون سی دکھتی رگ پر کسی نے اپنا ہاتھ رکھ دیا کہ اُن کو چارو ناچار کہنا پڑاکہ”تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان کے تین مرتبہ کے وزیر اعظم نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا گیا“۔کیا ہی اچھا ہوتا،باقی ملکی معاملات بتانے کی طرح شہبازشریف یہ بھی بتا دیتے کہ تین مرتبہ کے وزیر اعظم کیوں اور کس جرم کی وجہ سے جیل میں ہیں؟ اوروہ کون سے کارنامے ہیں کہ جیل سے بارہا متعدد کوششوں کے باوجود باہر نہیں نکل پارہے؟ بہتر ہوتا کہ یہ سب بتا دیتے کہ قوم کی اِس حوالے سے تشنگی ختم ہوجاتی،
جو خود اور اُس کا بچہ بچہ جانتا کہ نوازشریف آمدن سے زید اثاثوں اور یہ دولت کیسے کمائی؟،نہ بتا سکنے کے باعث جیل میں ہیں۔ نجانے شہباز شریف کو کیا سوجھی کہ کہہ بیٹھے کہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مُلک کے تین مرتبہ کے وزیر اعظم نواز شریف جیل میں ہیں۔قوم بھی کہتی ہے کہ کاش!تین مرتبہ کے وزیراعظم جیل میں نہ ہوتے۔مگر کیا کریں،یہ پیسہ چیز ہی ایسی ہے کہ اِسے پانے کے بعد انسان کو کچھ سمجھ اور کچھ نظر، آتا ہی نہیں ہے۔تین مرتبہ کے وزیر اعظم جیل میں ہیں،یہ ایک تکلیف دہ بات ہے مگر اِس سے بھی بڑی تکلیف دہ بات اُن کے چاہنے والوں کے لیے یہ ہے کہ وہ کس ”کارنامے“میں جیل میں ہیں۔ یقینا یہ ایک تکلیف دہ بات ہے مگر اب اِس کا ازالہ آپ کے ہاتھوں اِ س قوم کی لٹی ہوئی دولت واپس کردینے میں ہے،اگر ایسا ہوا تو تکلیف دہ بات بھی ختم ہوجائے گی اور مُلک کا خسارا بھی کم ہوگااور سب سے بڑھ کر آپ اور آپ کی فیملی کا غم بھی جاتا رہے گا،بس اپنے منہ سے پہلے بار کی طرح اب کے بار بھی ”این آر او“یا ”پلی بارگین“کابولے تو سہی، بس اب توآپ کی اِس حوالے سے لب کشائی کا انتظار ہے،ورنہ فیصلہ تو آیا ہی چاہتا ہے اور اُس میں دیر،آپ بھی جانتے ہیں کہ قطعی نہ ہے۔#

حصہ

جواب چھوڑ دیں