معیشت کی تباہ کن صورتحال

ملک میں مہنگائی ان دنوں اپنے عروج پر ہے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ایک بار پھر ہوشربا اضافہ کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان سٹاک ایکسچینج مسلسل مندی کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً 38روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ روپے کی گرتی قدر اور ڈالر و سونے کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اوریہ صورتحال معیشت کے ساتھ ساتھ کاروبار کی تباہی اور عوام کے لیے انتہائی مایوسی کا باعث بن رہی ہے۔ ان گھمبیر حالات میں حکومت معاشی حالات بہتر کرنے کی سر توڑ کوششیں کررہی ہے، ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے نئی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اجراء کیا گیا ہے مگر ملکی معاشی حالات ہیں کہ سنبھل ہی نہیں رہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ وزیراعظم ایک نہیں تین بار براہ راست قوم سے خطاب، اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر اس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اُٹھانے کی ترغیب دے چکے ہیں اور بار بار کہہ چکے ہیں کہ لوگ اس اسکیم سے بھرپور فائدہ اٹھائیں کیونکہ آئندہ ایسی کوئی اسکیم نہیں لائی جائے گی،اور ٹیکس نیٹ میں آنے والوں کو کوئی ادارہ تنگ نہیں کرے گا، اگر ایسا ہو تو مجھ سے براہ راست شکایت کی جا سکتی ہے وغیرہ وغیرہ، مگر پھر بھی لوگ ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں اور میڈیا اطلاعات کے مطابق ابھی تک صرف 13 ہزار لوگوں نے بے نامی جائیدادیں اور بلیک منی ظاہر کر کے صرف 10ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا ہے، جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت اس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے 400ارب روپے کے محصولات جمع کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھی تھی۔ان سے پہلے ن لیگ کی حکومت نے جاتے جاتے ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تو سب کو معلوم تھا کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے اس کے تعلقات ٹھیک نہیں۔ یہ خدشات بھی موجود تھے مختلف اداروں کی دخل اندازی سے اس ایمنسٹی اسکیم سے مستفید ہونے والے کسی مشکل میں نہ پھنس جائیں۔ اور اپوزیشن لیڈر عمران خان بھی کہہ چکے تھے کہ ایسی اسکیمیں کرپٹ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے لائی جاتی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ اگر ان کی حکومت آئی تو نہ صرف اس اسکیم کو ختم کر دیں گے بلکہ جو لوگ اس اسکیم سے فائدہ اُٹھائیں گے ان کے خلاف تحقیقات بھی کروائیں گے، مگر اس کے باوجود ان گئے گزرے حالات میں بھی 84 ہزارپاکستانیوں نے اس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا اور قومی خزانے میں کم و بیش 124ارب روپے جمع کروائے۔ لیکن آج جب وزیر اعظم عمران خان اپنے نہ ختم ہونے والے یو ٹرنز کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں ان پر اعتبار کیا جائے تو دوسرے سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ایسے شخص پر کیسے اعتبار کیا جائے جو اپنی ہر بات سے پھر جاتاہو۔ آئی ایم ایف سے متعلق خان صاحب نے کہا تھا کہ وہ خودکشی کر لیں گے لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے لیکن وہ آئی ایم ایف کے پاس گئے بھی اور اس کی کڑی شرائط بھی تسلیم کیں۔ جب آپ روزانہ یو ٹرن لیں گے اور کہیں گے یو ٹرنز تو اچھے ہوتے ہیں تو ایسے میں کون حکومت اور اس کے وزیراعظم پر اعتبار کرے گا۔
بلاشبہ ٹیکس کے بغیر ملک نہیں چل سکتا دنیا کے ہر ملک نے ٹیکس جمع کرنے کے لئے اپنے اپنے قوانین بنا رکھے ہیں جن پر سختی سے عمل ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں عمومی تاثر یہ رہا ہے کہ حکمران ٹیکسوں کے پیسے کو کرپشن کے ذریعے اپنی عیاشیوں پر اڑا دیتے ہیں اس لئے ٹیکس دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے ملک قرضوں پر چلتا رہا ہے اور آج پاکستان کی70سالہ تاریخ میں ریاست معاشی لحاظ سے خطرناک دور سے گزر رہی ہے۔ اگرمعیشت کی گرتی ہوئی حالت کو جنگی بنیادوں پر بہتر کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو بقول مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے ہم ڈیفالٹ کی طرف جا سکتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے کرپشن پر قابو پانے کے لئے گزشتہ دس سالہ غیر ملکی قرضوں کی جانچ پڑتال کے لئے ایکٹ آف پاکستان 2017کے تحت ایک اعلیٰ سطحی کمیشن کے قیام کی منظوری دی ہے جو 2008ء سے 2018ء کے دوران لئے گئے 24ہزار ارب روپے کے قرضوں کی وجوہات اور ان کے استعمال کی جانچ پڑتال کرے گا۔ اس پر قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”وزیراعظم نے دس سالہ قرضوں کے سلسلے میں جو کمیشن بنایا ہے اس میں ہم بھی پیش ہوں گے اور عمران خان بھی پیش ہوں۔ ہم اپنے قرضوں کا حساب دیں گے وہ اپنے دس مہینوں میں لئے گئے قرضوں کا حساب دیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے پانچ سال کے دوران 10ہزار ارب روپے قرض لئے جبکہ موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کے پہلے دس مہینوں میں ہی پانچ ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت نے دس ہزار ارب روپے قرض لے کر یہ رقم دہشت گردی کے خلاف جنگ، موٹروے، میٹروبس منصوبہ، ریلوے کی بحالی، انفرااسٹرکچر اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے پر خرچ کی، 11ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی۔ جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے دس مہینے میں پانچ ہزار ارب روپے کا غیر ملکی قرضہ لیا اور بنایا کچھ بھی نہیں، اگر یہ حکومت پانچ سال رہے گی تو خود سوچیں کہ قرضہ کہاں تک پہنچ جائے گا“۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عوام ایک طرف بجٹ کی مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں تو دوسری جانب کہا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پٹرول بھی 150روپے لیٹرتک پہنچ جائے گا۔ اگرتیل مہنگا ہوگیا تو مہنگائی اپنی آخری حدوں کو چھو لے گی اور غریب عوام کا جینا ممکن نہیں رہے گا۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور ان کی حکومت کو چاہیے کہ ملک و قوم کو ترقی کی سمت گامزن کرنے کے لیے اپنے لہجے میں تبدیلی لائیں، یوٹرن کی بجائے صداقت و امانت کا پیکر بنیں تاکہ لوگ ان پر اعتبارو اعتماد کریں۔ معیشت کے استحکام اورمہنگائی کو کنٹرول کے لیے اپنی صلاحتیں و توانائیاں صرف کریں تاکہ بحرانوں و مسائل کے گرداب میں پھنسے اورغربت و مہنگائی کے بوجھ تلے دھنسے شہریوں کو سکھ کا سانس میسر آسکے۔

حصہ
mm
رانا اعجاز حسین ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں وہ مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں