کیا آپ کراچی کے حالات سے مطمئن ہیں ؟؟

احسن پچھلے پندرہ منٹ سے ایک ایک بوتل فریج سے نکال کر بالٹی بھرنے میں مصروف تھا۔ وہ ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالتا اسے بالٹی میں انڈھیلتا اور پھر بھر کر واپس فریج میں رکھتا۔ گرمی کی شدت کم کرنے کے لیے اس نے نہانے کا سوچا تھا اور چونکہ اس نے سردیوں میں جو دل لگاکر نل سے گرم پانی آنے کی دعائیں مانگی تھی وہ گرمیوں میں پوری ہورہی تھی۔ وہ نہادھو کر نکلا تو تو گہری سانسیں لیتے ہوئے اے سی والے والے کمرے میں چلا گیا ۔ اس نے اپنے “آرام” کا مکمل بندوبست کررکھا تھا ۔ وہ جیسے ہی بستر پر لیٹا ایک دم سے لائٹ چلی گئی ۔

“افففف ابے یارررررررر۔” احسن نے غصے اور مارے بےبسی کے ہاتھوں کا مکا بنایا اور پوری قوت سے تکیہ پہ مارا۔

“بس اتنا سا تھا غصہ ۔۔؟؟؟” اچانک ہی کہیں سے علی بھیا نمودار ہوگئے۔ احسن نے ڈر کر چاروں جانب دیکھا۔ اندر آنے کا تمام راستہ تو بند تھا ۔ علی بھیا اس کی حیرت کو نظر انداز کرتے ہوئے بولے ۔

“کیا آپ لوڈشیڈینگ سے پریشان ہیں ۔۔؟؟”

احسن نے بےچارگی سے سر کو ہاں میں ہلایا ۔ علی بھیا نے ہاتھ بڑھا کر ایک پمفلٹ احسن کی جانب بڑھایا۔ احسن نے اسے پڑھا اور ایک دم سے اس کا چہرہ مارے خوشی کے چمکنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اسد جمعہ پڑھنے گھر سے نکلا ۔ ابھی اس نے گلی کا موڑ ہی کاٹا تھا جب ایک تیز رفتار موٹر سائیکل گٹر سے نکلے پانی پر چڑھتی اسد کے قریب سے گزری ۔ ایک جانب اسد کی جان بچی اور دوسری جانب گٹر کا پانی اس کے سفید کرتے پاجامے کو پھول بوٹوں سے سجاگیا۔ اسد نے بے بسی سے اپنے کپڑے کو دیکھا۔ اور جھنجھلا کر بولا

“چچ ۔۔۔ ابےےے یاررررر ۔۔”

اسی وقت علی بھیا احسن کے ساتھ نمودار ہوئے۔ احسن ہکا بکا گلی کو تک رہا تھا اور علی بھیا اپنے مخصوص انداز میں بولے

“کیا آپ جگہ جگہ ابلتے گٹر سے پریشان ہیں ۔۔ ؟؟

اسد نے رونی صورت بنا کر سر کو ہاں میں ہلایا اور علی بھیا نے ایک کاغذ اس کے سامنے لہرادیا۔ اسد کا منہ خوشی سے کھل اٹھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فراز نے بینک سے پیسہ نکلوایا اور اپنی دھن میں آکر گاڑی میں بیٹھ گیا ۔

“سلام جناب۔” اسے اپنے برابر سے آواز سنائی دی اور اس نے چونک کر پلٹ کر دیکھا۔ فرنٹ سیٹ پر ایک ڈاکو نما آدمی پستول سے اپنی تھوڑی کو کھجارہا تھا۔

“سلام کا جواب تو دے دو بھائی ، مسلمان ہوں کافر نہیں۔”

“وو ۔۔۔ وعلیکم  سس سلام ۔” فراز نے غیر ارادی طور پر اپنی جیب پر ہاتھ رکھا۔

“ہاں ہاں ہاں ۔۔۔۔۔ یہی چاہیے مجھے ۔۔ لاؤ شاباش۔” ڈاکو نے فراز کی جیب سے جھلکتے نوٹوں کو دیکھا اور فراز نے اس کی پستول کو ۔ نظروں کا تبادلہ ہوا اور ڈاکو نوٹ ، موبائل اور گاڑی کی چابی لیکر چلتا بنا۔

“ابےے یاررر” فراز دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام کر بولا۔ اسی وقت علی بھیا نمودار ہوئے۔

“کیا آپ لوٹ مار سے پریشان ہیں۔” فراز ایک دم سے اچھل پڑا اور اس کا سر گاڑی کی چھت سے ٹکرایا۔

پھر اس نے ڈرتے ڈرتے پلٹ کر دیکھا ۔ ایک بار پھر اسکی فرنٹ سیٹ پر ایک آدمی بیٹھا تھا۔ لیکن اس بار اس کے پاس پستول نہیں تھی بلکہ وہ ایک کاغذتھامے اسے تھوڑی پر رگڑ رہا تھا۔

“جج جی ” فراز کے منہ سے بس اتنا ہی نکل سکا۔ علی بھیا نے اسے کاغذ پکڑایا۔ اس نے کاغذ تھاما اور اسے پڑھا۔ اور ایک دم سے وہ خوش اور پرجوش نظرآنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مفرح نے سبزی والے سے لیموں کی قیمت پوچھی۔

“تین سو روپے کلو۔”

“کیااااااا تین سو روپے کلو ۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟” مفرح کا بیگ میں جاتا ہاتھ ایک دم سے رک گیا۔ اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دکاندار کی جانب دیکھا۔اس نے کمال بےنیازی سے کندھے اچکا دیے۔

“باجی ہم کیا کریں آگے اسی دام سے خریدتے ہیں۔”

مفرح حسرت بھری نگاہوں سے لیموں کو دیکھ کر خاموشی سے پلٹ گئی۔ اب اس کا اپنے ماسک میں لیموں ڈالنے کا ارادہ ختم ہوچکا تھا۔ اور بالوں میں بھی لیموں لگانے سے خوبصورتی آتی ہے ۔ وہ افسردگی سے سوچتی آگے بڑھ رہی تھی ، جب علی بھیا اس کے سامنے نمودار ہوئے۔

“کیا آپ بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہیں ۔؟”

مفرح نے پہلے حیرت سے علی بھیا کو دیکھا پھر بولی۔

“ہاں ہوں پریشان لیکن آپ کیا کرلیں گے ۔۔؟؟” وہ اپنے ادھورے ماسک کی وجہ کر کافی پریشان تھی۔

” ہم لوگ بدل سکتے ہیں حالات کا دھارا۔” علی بھیا اپنے فلسفی انداز میں بولے۔ اس سے قبل کے مفرح انہیں کچھ پھینک کر مارتی وہ جلدی سے بولے ۔

” قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ اگر آپ اپنے حقوق کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گی تو آپ کو کبھی عزت نہیں ملے گی ۔۔۔ مم میرا مطلب ہے حق ۔۔ ماسک بنانے کا بھرپور حق۔۔۔” (علی بھیا مفرح کے خطرناک حد تک بدلتے تیور دیکھ کر جلدی سے بولے)

“اور آواز کس طرح بلند کی جائے۔؟” مفرح نے حیرت سے پوچھا۔ جوابا ًعلی بھیا نے ایک پمفلٹ مفرح کی جانب بڑھایا اور بولے ۔

“کراچی عوامی مارچ میں اپنی شرکت یقینی بنائیں اور کراچی کی شہری ہونے کے ناطے کراچی کے حق میں آواز بلند کریں۔”

“کراچی عوامی مارچ ؟” مفرح نے حیرت سے پمفلٹ پکڑا جس پر تحریر تھا۔

” جماعت اسلامی کے تحت’’ کراچی عوامی مارچ‘‘ کی تیاریوں کا آغاز ہو گیا ہے ۔کراچی کو عزت دو مطلب  کراچی کے شہریوں کو اپنے انتظامی معاملات خود چلانے کا حق دو۔ساتھ ہی ساتھ، کراچی کے شہریوں کو باعزت زندگی گزارنے کیلئے ضروری سہولیات فراہم کرو۔” نیچے تفصیل میں لکھا تھا۔

“مارچ کا سلوگن ’’کراچی کو عزت دو، کراچی کو حق دو ‘‘رکھا گیا ہے ۔ مارچ کا انعقاد کراچی کو حقوق و اختیارات کی فراہمی ، شہریوں کو درپیش بے شمار مسائل کے حل اور بڑھتی ہوئی مہنگائی و بے روز گاری اور آئی ایم ایف کی غلامی کے خلاف عوامی احساسات و جذبات کی ترجمانی کے لیے کیا جا رہا ہے ۔ مارچ سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق خصوصی خطاب کریں گے مارچ سہراب گوٹھ سے کریم آباد ، غریب آباد ، حسن اسکوائر سے ہو تا ہوا نیو ایم اے جناح روڈ سے مزار قائد پر اختتام پذیر ہو گا ۔ شہر بھرسے ہزاروں افراد ریلیوں اور جلوسوں کی صورت میں مارچ میں شرکت کریں گے ، اگر آپ کراچی کے حالات سے ، لوڈ شیڈینگ اور مہنگائی سے مطمئن نہیں تو عوامی مارچ کا حصہ بنیے۔”

“کیا اس سے فرق پڑے گا ۔؟” مفرح نے حیرت سے پوچھا۔

“بلکل فرق پڑے گا۔ جب عوام اپنے حق کے لیے کھڑی ہوگی تو طاقتوروں کو کمزوروں کی طاقت کا اندازہ ہوگا۔ آپ میں سے جو جو کراچی کے حالات سے مطمئن نہیں وہ اس مارچ کا حصہ بنے۔ ” علی بھیا نے سمجھایا تو مفرح نے بھی احسن ، فراز اور اسد کی طرح علی بھیا سے کئی پمفلٹ لے لیے ، اسے بھی آگے لوگوں تک اپنی بات پھیلانی تھی اور کراچی کی عوام کو متحد کرکے کراچی کو عزت دلانی تھی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں