لفظ سلیکٹڈ ہی حزف کیوں؟

ہماری اسمبلیاں قانون سازی کیلئے نہیں دلوں کا بخار نکالنے کیلئے بنائی جاتی رہی ہیں جس کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ کسی زمانے میں گلی گلی کوچے کوچے مذہبی جلسے ہوا کرتے تھے جن میں عید میلادالنبی کے جلسے اور جلوس بہت ہی زیادہ نمایاں ہوا کرتے تھے۔ ہماری مسجدوں یا گلی کوچوں میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر جلسے اور جلوسوں کا انعقاد ہو اور ان میں اختلافی باتوں کو نہ چھیڑا جائے، ایسا نہ پہلے ممکن ہو سکا ہے نہ قیامت سے ایک دن پہلے تک ایسا ممکن ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ میں نے اپنے علاقے کے امام مسجد سے ہمت کرکے سوال کر ہی لیا کہ آپ کی پوری تقریر بہت پُر مغز اور پُر اثر ہوتی ہے اور خاص طور سے وہ تقاریر جن میں آپ (ص) کی سیرت بیان کی جارہی ہو اس کا تو جواب ہی نہیں ہوتا لیکن خواہ آپ ممبر رسول پر ہوں یا جلسہ عام میں تقریر کر رہے ہوں، آپ (ص) سے متعلق وہ عقائد جو اختلافی ہوں، آپ ان کو کیوں بیان کرتے ہیں۔ کیونکہ میں ان کے مقتدیوں میں عرصہ دراز سے موجود دیکھا گیا تھا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ عقیدے کے لحاظ سے میں ان کے مکتبہ فکر سے تعلق نہیں رکھتا اس لئے وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور پھر خفا ہونے کی بجائے مجھ سے ہی سوال کر ڈالا کہ حضرت آپ مجھے یہ بتائیں کہ میری ساری تقریر میں پورا مجموعہ نہایت خاموشی کے ساتھ میری باتیں نہیں سن رہا ہوتا، میں نے کہا ایسا ہی ہے، کہنے لگے کہ جب میں اپنے عقیدے کے ساتھ دوسروں کی بخیہ ادھیڑ رہا ہوتا ہوں تو پورا پنڈال پُر جوش نہیں ہوجاتا؟، میں نے کہا ایسا ہی ہے۔ میری تائید سننے کے بعد انھوں نے کہا کہ یہ اختلافی باتیں “ہم” علما اس لئے بھی چھیڑنے پر مجبور ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہم ممبر رسول پر ہوں یا جلسہ گاہ میں، ہمیں بلایا ہی اسی لئے جاتا ہے ہم وہ باتیں لازماً بیان کریں گے جن کو حاضرین سننے کیلئے جمع ہوئے ہیں ورنہ مسجدوں اور جلسہ گاہوں میں ہمیں رکھنا یا بلایا جانا بھی چھوڑ دیا جائے۔ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ اتنا بڑا سچ وہ رواروی میں کہہ گئے یا واقعی انھیں کسی ہمدرد و غمگسار کی ضرورت تھی۔

یہی حال ہمارے سیاستدانوں کا ہے۔ وہ کسی بھی مقام پر ہوں، کوئی بھی جگہ ہو، خود ان کے پاس کوئی بھی عہدہ یا منصب ہو، جلسہ گاہ ہو یا پریس کانفرنس، گھر ہو یا اسمبلی ہال، وہ اختلافی باتیں کرنے اور مخالفین پر تبرے بازی کرنے سے کسی صورت باز نہیں آتے اور ایسا شاید اس لئے بھی ہوتا ہے کہ جو بھی لوگ ان کو سننے کیلئے آتے ہیں وہ سب کے سب اس وقت تک اپنے مزاج میں طمانیت محسوس ہی نہیں کر سکتے جب تک وہ اپنے مخالفین کے خلاف زہر نہ اگلیں۔

اس میں قصور صرف سنانے والوں کا ہی نہیں، سننے والوں کا بھی ہے۔ اگر سیاست دان اپنے مخالفین کو ہدف تنقید بنانا ترک کردیں یا کوئی مصلحت ان کی راہ میں مانع آرہی ہو تو پورا ماحول تشکیک کا شکار ہو جاتا ہے اور ہر لب ایک ہی شک کا اظہار کر رہا ہوتا ہے کہ شاید اب تمام کے درمیان کوئی “این آر او” ہونے والا ہے۔ یہ وہ طعنہ ہے جو حکومتی ہوں یا حزب اختلاف کے ممبران، دونوں پر جلتی پر تیل کا کام کر جاتا ہے اور پھر ایک ایک کے منھ سے ایسے ایسے موتی اور پھول جھڑنے لگتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔

اسمبلیاں اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ وہ قوم و ملت کیلئے قانون سازی کریں۔ عوام کے رستے زخموں کی مرہم پٹی کریں اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائیں لیکن جب جب اسمبلوں کا اجلاس بلایا جاتا ہے، وہاں مچھلی بازار کا سا ماحول گرم ہوجاتا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف دل کا بخار اتارا جارہا ہوتا ہے اور وہ کام جس کیلئے قوم کا سالانہ کھربوں روپیہ خرچ ہوتا ہے وہاں کان پڑی آواز تک کا سنائی دینا مشکل ہو جاتا ہے۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ جو کچھ اسمبلیوں میں تماشے ہوتے ہیں وہ ہونا بند ہو جائیں، ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنا بند ہوجائے، ایک دوسرے کے جسموں سے لباس اتارنے کا سلسلہ رک جائے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا سلسلہ منقطع ہو جائے تو پھر اسمبلیوں میں رہ ہی کیا جائے گا؟۔ وہ ٹی وی اینکرز کیا کریں گے جن کی ایسی ہی “ہر خبر پر نظر” ہوا کرتی ہے۔ وہ اخباری نمائندے کیا کریں گے جن کا مقصد ہی آپس کے اختلافات کو ابھارنا اور ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے خلاف ابھارنا ہوتا ہے اور ان عوام کا کیا بنے گا جو اپنے اپنے لیڈروں کا ایک دوسرے کے خلاف مغلظات بکنا بھلا لگتا ہے۔ پوری دنیا کتنی سونی سونی ہوجائے گی اور اسمبلیوں میں مکھیاں بھنبھنانے لگیں گی۔

کون سی اسمبلی ایسی ہے جس میں جو منھ میں آئے کہہ دیا جاتا ہے، ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوا جاتا ہے، لاتوں گھونسوں یہاں تک کہ کرسیوں کے آزادانہ استعمال پر پابندی رہی ہو۔ ایک دوسرے کے خلاف غیر پارلیمانی الفاظ کو حزف کرنے کے احکامات جاری نہ کئے جاتے ہوں اور بعض اوقات پوری پوری تقریر کو بھی اسمبلی کی کارروائی سے حزف بھی کر دیا جاتا ہو۔

چند روز سے موجودہ اسمبلی میں بھی ایک شور شرابہ دیکھنے میں آرہا ہے جبکہ اسمبلی کی موجودہ کارروائی کا اصل مقصد بجٹ تجاویز اور اس کی منظوری کیلئے بلایا گیا ہے۔ پوری کارروائی کے دوران شاید ہی کچھ وقت بجٹ کیلئے مختص کیا جاتا ہو، باقی سارا وقت ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے میں ہی گزر جاتا ہے۔ وہ کون سی نیچ سی نیچ زبان ہے جس کا استعمال نہ کیا جارہا ہو، وہ کون کون سے بیہودہ جملے ہیں جو ایک دوسرے پر نہ کسے جارہے ہوں اور کون سی بازاری زبان ہے جس کا کھلے عام استعمال نہ کیا جارہا ہو۔ وزیر اعظم کیلئے نالائق، نااہل، زانی، شرابی جیسے الفاظ استعمال کئے جارہے ہیں جس کے جواب میں گھر کی بہو بیٹیوں تک کی عزتیں نیلام کی جارہی ہیں۔ المختصر وہ کون کون سی بیہودگیاں ہیں جو اسلامی جمہویہ پاکستان کی “مدینہ یونیورسٹی” میں نہیں کی جارہیں۔ یہ تمام دشنام طرازایاں، الزام تراشیاں، گالم گلوچ، مغلظات کا طوفان اور مچھلی بازار کے مناظر اپنے جگہ جس پر اسمبلی کے اسپیکر کو کسی بھی قسم کا نہ تو کوئی منفی اثر ہے اور نہ ہی کوئی اعتراض لیکن حیرت ہے کہ مخالفین کی جانب سے وزیر اعظم کو “سلیکٹڈ” کہنا اتنا برا کیوں لگا کہ نہ صرف اس لفظ کو کارروائی سے حزف کر دیا گیا بلکہ سختی کے ساتھ پابندی لگا دی گئی کہ کوئی فرد بھی “الیکٹڈ” کو “سلیکٹڈ” نہیں کہے گا۔

ساری تبرے بازیاں ایک جانب، لیکن صرف “سلیکٹڈ” کہہ دینا اتنا غیر پارلیمانی کیوں؟۔ کیا یہ بھی ایسی بات ہے جو عام سمجھ رکھنے والے کی عقل میں نہ آ سکے؟۔ کیا یہ اس بات کی جانب اشارہ نہیں کہ پاکستان کی پوری منتخب اسمبلیاں، بشمول سینیٹ، صدر اور وزرائے اعلیٰ کسی اور کے رحم و کرم پر ہیں اور ان کی جانب جانے والا ہر لفظ لغت سے ہی نکال باہر کیا جاسکتا ہے۔

بات بھی یہی سچ ہے۔ اسمبلیوں کو چاہے الیکٹڈ کہا جائے خواہ سلیکٹڈ، وہ غیبی طاقتوں کے تسلط ہی میں رہی ہیں۔ پہلے مارشل لا میں کیا ہوا تھا؟، پھر شیخ مجیب کی اکثریت کے خلاف کیا ہوا تھا، پھر بھٹو کی حکومت کے خلاف کیا ہوا تھا، پھر پی پی پی، ن، پھر پی پی پی، پھر ن کے خلاف کیا ہوتا رہا تھا۔ پھر جونیجو کے خلاف کیا ہوا تھا، پھر زرداری کے دور میں کیا ہوتا رہا تھا، پھر نواز حکومت کیلئے کیا ہوا تھا۔ ان سارے ادوار پر غور کرتے جائیں تو ہر فرد اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ الیکٹڈ حکومتیں بھی “سلیکٹڈ” ہی رہی تھیں اور پاکستان میں جو بھی حکومت قائم ہوگی وہ خواہ الیکٹڈ ہی کیوں نہ ہو اسی “سلیکٹڈ” ہی بن کر رہنا ہوگا ورنہ اس کے وجود کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا جائے گا۔

دیوانے ہیں وہ عوام جو ہر “الیکشن” کے وقت اپنی جان و مال و عزت و آبرو کو خطرے میں ڈال کر اس فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں وہ ایک حکومت کی “الیکٹ” کرنے جارہے ہیں، ایک بہت بڑا دھوکا کھارہے ہوتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی رائے کی انکے اپنے جوتے کی نوک کے بربر بھی حیثیت نہیں کیونکہ جو بھی آئے گا وہ عالم غائب کی مرضی و منشا سے ایک انچ بھی دائیں بائیں نہیں ہو پائے گا۔

جس ملک کی صورت حال کا یہ عالم ہو کہ پیغمران کرام کی توہین اور صحابہ کرام کا مذاق اڑانا تو گناہ نہ سمجھا جائے لیکن ملک کے وزیر اعظم کی الیکٹڈ کی بجائے سلیکٹڈ کہہ دینا ممنوع ہو اس اسلامی ملک کا کیا انجام ہوگا یہ اللہ ہی بہترجانتا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں