پرامید قوم کی نامکمل آرزوئیں

آج صبح ہی سے محلے میں کچھ خاموشی سی تھی عام طور پر اتوار کو ظہر تک لوگ  بیدار ہوتے ہیں اور پھر  آہستہ آہستہ رونق بڑھتے بڑھتےشا م تک خوب چہل پہل شروع ہو جاتی ہے، کچھ لوگ کہیں جارہے ہیں تو کچھ کے یہاں مہمانوں کی آمد و رفت ،ننھے منوں کی ہنسی اور کھیل اور نوجوانوں کا آوازیں لگا لگا کر اپنے دوستوں کو گھر سے بلانا پھر اکھٹا  ہو کر کسی چبوترے پر بیٹھ جانا اور پھر بات بے بات قہقہے لگانا۔ لیکن آ ج کچھ موسم بھی گرم تھا  اور اوپر سے انڈیا پاکستان کے میچ کا ا سٹیج بھی سجنے والاتھا اس لیے بھی محلے میں معمول کی چہل پہل نہیں تھی۔ کوئی تین بجے کے قریب پیچھے گیلری میں گئی تو کانو میں کرکٹ کی کمپیرنگ  کی آواز پڑی ، لگ رہا تھا کہ میچ بہت انہماک سے دیکھا جارہا ہے،  میں سوچنے  لگی کہ  بحیثیت قوم ہم ہر معاملے میں کتنے پر امید ہو جاتے ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو کرکٹ کا میچ  خاص طور پر انڈیا کے ساتھ تو ایک عرصے سے ہم نے جیتا ہی نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ  کرکٹ ٹیم اچھی کارکردگی کا  مظاہرہ ہی نہیں کرتی۔پھر بھی ہمیں امید ہوتی ہے کہ اس بار ضرور اچھا کھیلےگی۔ایک دن پہلے ہی سے ہم بھی کچھ جنون میں ہوتے ہیں  اور میڈیا اس جنون کو دوآتشہ کردیتا ہے۔ ہر بار ہارتے ہیں اور کئی سالوں سے ہار ہی رہے    ہیں مگر ہر بار پھر امید  کرتے ہیں کہ اس بار کپتان اچھا ہے، اس بار ٹیم بھی نئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ بالکل اسی طرح ہم ملک کے دیگر معاملات میں بھی پر امید ہوتے ہیں   اسٹیج پر کھڑے ہوکر   ہم سے کئی سو فٹ فاصلے اور اونچائی سے ہمارا لیڈرچیخ چیخ کر ہمیں باور کراتا ہے کہ میں آ پ کی    خاطر الیکشن لڑ رہا ہوں آپ کے لیے سیاست میں کود پڑا ہوں ، میں آپ کے سارے مسائل حل کردونگا آپ بس مجھے ایک بار موقع دیں اور ہم عوام پر امید ہوکر اس کو ووٹ دیکر کامیاب بناتے ہیں ۔ پھر  ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مسائل تو جوں کہ توں ہیں  بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ابتر ہو گئے ہیں ،ہاں البتہ جن لیڈران کو ہم نے ووٹ دیکر کامیاب بنایا ان کے اور انکے رشتہ دا روں کے بھی نہ صرف مسائل حل ہوئے   بلکہ ان کے اکاونٹس میں بھی دن دوگنی رات چوگنی اضافہ بھی ہوا ۔ہم پھر مایوس ہوگئے اور ارادہ کرلیا کہ آئندہ یہ میرا  لیڈر نہیں ہوگا ۔پھر پانچ سال گزر جاتے ہیں ہم بھول جاتے ہیں  اور پھر وہی چہرے ،نئے رنگ ڈھنگ کے ساتھ آتے ہیں   ویسی ہی اونچائی اور وہی سینکڑو فٹ کی دوری سے ہمیں مخاطب کرتے ہیں رونا روتے ہیں کہ میں نے تو بہت کوشش کی کہ آپ لوگوں کے لیے کچھ کروں مگر میں مجبور تھا نہ میرے پاس اختیارات تھے اور نہ ہی وسائل ۔لیکن اس بار میں سارے وعدے پورے کرونگا  آپ مجھے ایک موقع دیں۔ ایک بار پھر ہم اپنی نامکمل آرزووں کو مکمل کرنے کے لئے پر امید ہو جاتے ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں