جناب اوریا مقبول جان صاحب!

میں کچھ عرصہ پہلے تک أپ کی تحریروں کی بڑی ” فین“ تھی اورآپ کو دینِ محمدﷺ کا ایک جانثار سپاہی سمجھتی تھی۔مگر اب آپ کے تیزی بدلتےہوے رویوں نے مجھے کنفیوز کردیا ہے۔

کبھی آپ مذہبی طبقےسے ناراض نظر آتے ہیں کبھی دینی جماعتوں کےافرادکو انکے قائدین کے خلاف بدظن کرتے ہیں۔

آپ اپنے آپ کوسیدالانبیا ء حضرت محمد ﷺ کاجانثار اور پیروکار کہتے ہیں لیکن اب آپ ان ہی کی امت کی صفوں میں شگاف ڈالنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔

کیسے مزے سے آپ نےکہہ دیا کہ اقامتِ دین کا کام کوٸی بھی دینی جماعت نہیں کررہی ہے۔ صرف ووٹ مانگنے پہ مامور ہیں۔ دینی جماعتیں ووٹ بھی اقامتِ دین اور ملک کی ترقی ہی کے لیے مانگتی ہیں ۔آج تک کسی دینی جماعت کے ممبرِ اسمبلی پہ کرپشن کاکوٸی الزام ثابت نہیں ہوابلکہ لگایا تک نہیں جاسکا۔!!!!!

مدرسے کےمہتمم کے لیے طلبہ ووٹنگ کروانے والی مثال بالکل غیر مناسب ہے۔ مدرسے کا مہتمم صلاحیتوں کے آئینے میں مقرر کیا جاتا ہے۔یہ انتظام ابھی اپنی اصلی شکل میں موجود ہے۔ کاش کہ حکومتوں کی تشکیل کا طریقہ بھی ابھی اصل اسلامی شکل میں رائج ہوتا۔۔۔ !

خاص طور سے آپ نےجماعت اسلامی پہ کرم فرماٸی کی ، خیر یہ کام تو دوسرے لوگ بھی کرتے رہتے ہیں جس کوبھی ذراسا دانشوری کا بخار چڑھتا ہے وہ جماعت اسلامی کےاوپر پھاند پڑتا ہے۔

لیکن آپ نے تواس سے بھی آگے بڑھ کر تمام ہی دینی جماعتوں سے عوام کو بدظن کرنا شروع کردیا ۔یعنی کہ اس کوشش سےآپ عوام میں ایک عمومی اور دیرپا مایوسی پھیلانا چاہتے ہیں!!!!! تاکہ اسلام کا نام لیوا دین و مذہب پسندطبقہ خواہ کسی بھی مسلک یاجماعت سے تعلق رکھتا ہو۔۔۔۔ پژ مردہ اور مایوس ہوجائے اور اپنی قیادت سے بدگمان و بدظن بھی۔۔۔

اس مایوسی کے پرچار سے آپ کو کیا ملے گا یہ تو آپ ہی جانتے ہونگے مگرہماری نظرمیں تو آپ اس جتھہ کا حصہ نظر آرہےہیں جو عوام کی رہنماٸی منزل کے بجاۓ مقتل کی طرف کررہاہے۔۔۔۔

آپ فرماتے ہیں کہ تمام جماعتیں صرف ووٹ مانگ رہی ہیں۔ یہ ووٹ نہیں مانگ رہیں انسان کو اپنے حقوق و مسائل کا دراک دیتی ہیں۔ اور اہل امانت افراد قوم کے سامنے پیش کرتی ہیں تاکہ وہ اپنےدینی اور دنیاوی حقوق حاصل کرسکیں ۔اور جب جب قوم نے انکی خدمات حاصل کی ہیں انھوں نے کبھی عوام کو مایوس نہیں کیا۔ اب اگر قوم عیسیٰ کو سولی اور برّابا کو آزادی دے دی تو آپ اس بات کو اس طرح بیان فرمائیں گے کہ عیسیٰ علیہ السلام نعوذباللہ بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ اور کامیابی کا استعارہ برّابا ڈاکو ٹھہرا۔۔۔!

اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکست کے اسباب میں ان کی پاکدامنی حق گوٸی اور امن پسندی کو شمار کیا جائے گا۔

یہی تو آپ کہہ رہے ہیں کہ ووٹ نہ ملنا شکست ہے توپھر فتح مند جماعتیں مثلاً (پیپلز پارٹی پھر ایم کیوایم پھر ن لیگ اور پی ٹی آٸی ) آپ کے آئیڈیلز قرار پاٸیںگے۔۔۔ باعثِ ”فتح مندی“ اور انکے رویّے یعنی جھوٹے وعدےکرنا اور وعدوں سےمکرنا یہ راستہ بچے گا جس کی طرف آپ عوام کو ہانک کر لیجانا چاہ رہے ہیں!!!!!

دینی جماعتیں اقامتِ دین کا کام نہیں کررہیں تو کیا آپ کے پسندیدہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کررہی ہے جو قادیانیوں کو ہر جگہ حتیٰ کہ تعلیم میں اور خصوصاً دینیات کی تعلیم میں دخول ونفوذ دےرہی ہے۔ اور احکاماتِ دین کامذاق اڑانا تو اب معمولی سی بات ہو گئی ہے۔ پہلے مغربی آقاوں کے ۔اشارے پر قرآنی سورتیں اور جہادی آیات نصابِ تعلیم سےنکالی گئیں ۔اور اب قادیانی تحریفات پرمبنی نصاب مرزائی اساتذہ مسلمان بچوں کو پڑھائیں گے۔۔۔ اس کے خلاف آپ نے کبھی آواز اٹھاٸی؟؟؟ اس وقت کبھی آپ کے دل میں ”اقامتِ دین“ کا درد اٹھا؟؟؟

کیا یہی وہ ” اقامتِ دین “ ہے جس کے آپ علمبردار ہیں !!!!!!

حصہ

جواب چھوڑ دیں