راز سکون کیا ہے؟

اس دنیا میں ہر شخص سکون کی تلاش میں ہے۔ بندے کے پاس ہر چیز ہوتی ہے۔ مکان، دکان، گاڑی، بیوی بچے، روزگار، صحت، اچھے دوست احباب رشتہ دار پھر بھی انسان بے سکون رہتا ہے اور تلاش رہتی ہے۔ واقعی ایسا ہی ہے جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی؟ تو اچانک مجھے کچھ اشعار پڑھنے کو ملے تھوڑی تسلی ہوئی سوچا آپ سے بھی شیئر کر لوں اور عملی طور پر سکون حا صل کرنے کی تادم حیات کوشش کرتی رہوں۔ لکھا تھا
کہا مشکل میں رہتا ہوں
کہا آسان کر ڈالو
کہ جس کی چاہ زیادہ ہو
وہی قربا ن کر ڈالو
کہا قلب سکون کیا ہے؟
کہا اس سے تڑپ مانگو!
اٹھو تاریکیئ شب میں
ذرا خون جگر کر ڈالو
کہا راز سکوں کیا ہے؟
کہا لوگوں کے دکھ بانٹو
واہ کیا بات ہے ہم ذرا سی بات پر لوگوں کی ایسی کی تیسی کر ڈالتے ہیں۔ گھر سے لیکر مکان، دکان، بازار، راستہ، ٹریفک جہاں بھی دیکھو بے صبری، بدتمیزی، تیری میری ذرا صبر برداشت نہیں کیا عورت لڑکی، لڑکا، بچہ بوڑھا سب منفی رویوں کے شکار ایک دوسرے کی اتار نے کے چکر میں ہوتے ہیں خود کو ترم خان سمجھتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر کسی کو جھڑک دیا۔ میرا خود روز کا معمول ہے باوجود غلطی کا احساس ہونے توبہ معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ گھر کے کسی بوڑھے بندے کے دو سے چار مرتبہ تکرار کے ساتھ، پانی مانگا یا کسی دوسرے معاملے میں ہا تھ دھونے میں یا کوئی اور چائے یا غیر معمولی باتوں پر اپنی کمزوری ضعیفی کے سبب تکرار کی پارہ چڑھا اور شیطان کے ہاتھوں چڑھ گئے۔
نہ چاہتے ہوئے الٹی پلٹی سنادی۔ یقین جانئے بس ذرا سی دیر تحمل کی بات تھی مگر نہ کیا لہٰذا خود اذیت کا شکار رہے اور اس کی وجہ سے دوسرے کاموں کا خلل مزید ہمیں رسوا کرتا رہا کیونکہ یہی رویے کبھی بڑے بہن بھائی چھوٹوں کے ساتھ کبھی بچے والدین کے ساتھ کرتے ہیں اور یوں اپنے ہی سکون کو اپنے ہی ہاتھوں تباہ کر دیتے ہیں۔لین دین میں معمولی چیزیں لیتے ہوئے دوسروں کے جذبات کا احساس نہ کرنا گناہ کے مترادف ہوتا ہے کبھی بلاوجہ تھکے ماندے لوگوں سے چیزیں خرید لیا کریں کہ یہ لوگ بھیک نہیں مانگتے۔ بلا ضرورت یا زیادہ قیمت میں تو کتنا سکون ملتا ہے برکت ہوتی ہے۔ واقعی دیکھا جائے تو ہم سب ایسے ہی ہیں کہنے کے سہنے کے نہیں کیونکہ نفس کے غلام ہیں۔ ہمارے اپنے نخرے بڑے ہیں۔ ارمان بڑے ہیں مطلب محتاجوں سے مہنگا مال خریدنا احسان ہے بعض کی زبانیں خاموش ہوتی ہیں مگر چہرے سوال کر رہے ہوتے ہیں مگر ہم سمجھنا نہیں چاہتے۔ انسان کے انجام کی خبر تو صرف اللہ ہی کو معلوم ہے مگر انسان کو اپنا کیا ہوا ہر عمل خوب معلوم ہو تا ہے۔
” چھوٹی سی زندگی میں ارمان بہت ہیں
ہمدرد نہ تھا کوئی مگر انسان بہت ہیں ” کیونکہ
پڑھنا ہے انسان کو پڑھنے کا ہنر سیکھ
ہر چہرے پہ لکھا ہے کتابوں سے زیادہ
ہم سارا دن بہت مصروف رہتے ہیں کہ اپنوں کو اپنانا تو دور کی بات ہے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے دنیا میں نامور اور گھر میں خاندان میں ناکام صفر یہ انسانیت کا حق ادا کرنا نہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعد سب سے پہلا حق رشتے داروں کا رکھا ہے۔ پھر مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب بھائی بھائی ہیں تو ایک دوسرے کو مرتے دم تک سکھ دیں اس کے دکھ بانٹیں اور اپنی خوشیاں شیئر کریں تو بھی سکون کا راز پائے گے۔ ہم اتنے چالاک ہیں سب کچھ خود کرسکتے ہیں۔تمام چالاکیاں دکھا کر دنیا کا حسین گھر تعمیر کر لیتے ہیں۔ فخر کرتے ہیں اترا جاتے ہیں کبھی آخرت کی سنجیدگی سے فکر کی؟ اس گھر کو بھی تو ہم نے خود ہی بنانا ہے۔
اپنی جنت یا جہنم خود کرو تیار تم
جو بناؤ گے اسی میں تم بسائے جاؤ گے
خالق سے اچھا تعلق اور مخلوق سے اچھا برتاؤ ہمارا شیوہ ہونا چاہئے۔ دوسروں سے امیدیں رکھنے کے بجائے دوسروں کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کرنا ہی میری زندگی کا مقصد ہونا چاہئے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے اس کو بے کار لغو کاموں اور بے مقصد مشغلوں میں گزار کر ہم خود کو بیمار اور بے سکون بنا لیتے ہیں لہٰذا ہمیشہ اچھا نیک کام، خوبصورتی اور دل کی چاہ کے ساتھ رضائے الٰہی کیلئے کیا جائے تو دلوں کی فتح ہوتی ہے جو آخرت کی فتح بنے گی یہ ہے سکون کا راز۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں