دنیا کی پہلی یونیورسٹی

محمد عبداللہ الفھری مراکش کے ایک نیک دل تاجر تھے۔اللہ نے ان کو جتنا مال دیا تھا دل اس سے زیادہ بڑا عطا کیا تھا۔ یہ بھی قدرت کے فیصلے ہیں کہ اس مال کے ساتھ ان کا “بیٹا” کوئی نہیں تھا۔ اللہ نے اپنی رحمت سے نوازتے ہوئے دو بیٹیاں عطا کی تھیں۔ باپ کے انتقال کے بعد دونوں بیٹیوں کے ترکے میں باپ کی اتنی دولت آئی کہ وہ خودمختار ہوگئیں۔ اللہ جتنا بڑا دل عبداللہ الفھری کو نصیب کیا تھا، بیٹیوں کو اس سے بھی بڑا دل اور دردِ دل دونوں عطا کیے تھے۔

 مریم نےاپنی جائیداد کی رقم سے الاندلسیہ مسجد کی بنیاد رکھی تو دوسری جانب فاطمہ الفہری نے 859 عیسوی میں مراکش کے دریائے فاس کے قریب آباد  شہرِ فاس  میں جامع مسجد القرویین کی بنیاد رکھ دی۔ مسجد القرویین  میں 22 ہزار سے زیادہ نمازی بیک وقت نماز باجماعت ادا کر سکتے تھے، یہ لگ بھگ استنبول کی آیاصوفیہ کے برابر تھی۔ اللہ تعالی نے فاطمہ سے دنیا کی پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھوادی۔

859 عیسوی میں قائم ہونے والی  اس یونیورسٹی کی پوری تعمیر و توسیع  فاطمہ الفہری نے خود کھڑے ہوکر کروائی ۔ وہ خود بھی علم و ادب سے شغف رکھنے والی خاتون تھیں۔ انہوں نے ہر مرحلے پر پوری دلچسپی اور اپنی خاص نگرانی میں اس یونیورسٹی کو ترقی دی۔یہ یونیورسٹی  اس لحاظ سے بھی منفرد تھی کہ دنیا میں “ڈگری” کا تصور بھی اسی یونیورسٹی سے آیا تھا۔ 13 سے 30 سال تک کے بچے، جوان،  بوڑھے، مرد،  عورت،  مسلم اور غیر مسلم علم کی پیاس سے سرشار یہاں پہنچتے تھے، جامعۃ القرویین کے دروازے بلا رنگ و نسل اور مذہب دنیا کے ہر علم کے طالب کے لیے کھلے رہتے تھے۔ یونیورسٹی میں حلقے کی صورت میں کلاسیں لگتی تھی استاد کے چاروں طرف دائرے کی صورت میں طلبہ بیٹھ جاتے اور اپنے علم کی پیاس بجھاتے تھے۔

 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں اس وقت28077 یونیورسٹیز ہیں لیکن سب سے پہلی اور سب سے قدیم یونیورسٹی کا اعزاز جامعۃ القرویین کو حاصل ہے۔1963 میں مراکش حکومت نے اس یونیورسٹی کو باقاعدہ اپنی یونیورسٹیز کی فہرست میں شامل کرلیا۔

اس طرح یونیسکو کے ریکارڈ کے مطابق پچھلے 1160 سالوں میں کبھی ایک دن کے لئیے بھی  اس یونیورسٹی میں تعلیم کا ناغہ نہیں ہوا ہے اور اسی بنیاد پر اس جامعہ کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ بھی دے دیا گیا ہے۔ چودھویں صدی عیسوی یعنی 1349 میں یونیورسٹی میں سلطان ابو عنان فارس نے لائبریری کی بنیاد بھی رکھ دی۔ یہ دنیا  کی قدیم ترین لائبریری ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کا اعزاز بھی رکھتی ہے کہ جانوروں کی کھال پر لکھا گیا موطا امام مالک کا نسخہ اور علامہ ابن خلدون کی کتاب “العبار” کا اصل نسخہ  بھی اسی لائبریری میں موجود ہے۔

 عالم اسلام اور اس دنیا میں علم، تحقیق، جستجو اور تخلیق کے دروازے کھولنے والے کئی مسلم اور غیر مسلم اسکالرز بھی اسی جامعہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ بارہویں صدی عیسوی کے معروف جیوگرافر، نقشہ نگار اور تاریخِ مصر کے بڑے عالم محمدالادریسی، میٹا فزکس کے ماہر، مشہور و معروف شاعر و مصنف، تقابل ادیان کے عالم، صوفی اور امام غزالی کے شاگرد جناب ابن العربی بھی اسی یونیورسٹی کے “پاس آؤٹ” تھے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ابن العربی کے والد علامہ ابن حزم کے شاگرد تھے۔

 دنیا کے نامور تاریخ دان، ماہر معاشیات و عمرانیات اور ڈیموگرافی جیسے علم پر عبور رکھنے  والے علامہ ابن خلدون کا تعلق بھی اسی درسگاہ سے تھا۔ اپنے وقت کے عظیم شاعر، فلسفی اور سیاسیات کے عالم لسان الدین الخطیب اسی مدرسے کے فارغ التحصیل تھے جبکہ  نور الدین برطوجی جیسے ماہر فلکیات کا تعلق بھی جامعۃالقرویین سے ہی تھا۔

 کیونکہ یونیورسٹی امام مالک کے عقیدت مندوں نے بنائی تھی اور مراکش میں فقہ مالکی کو خاص عقیدت و اہمیت حاصل ہے اس لئے فقہ مالکی کے نامور علماء بھی اسی یونیورسٹی سے فراغت حاصل کرکے نکلے جو بعد ازاں بڑے بڑے قاضی اور قاضی القضاء کے عہدوں پر براجمان ہوئے۔ جن میں نے رشید السبطی، ابن الحاج العبدری العفسی جنہوں نے “المدخل” کتاب تصنیف کی۔ ابو عمران العفسی اور ابو الحسن محمد علی الفاسی شامل ہیں۔ جبکہ نامور یہودی فلاسفر Maimonides اور عیسائی عالم Pope Sylvester نے بھی جامعۃ القرویین  سے ہی اپنی ڈگریاں مکمل کی تھیں۔

اقبال  نے کہا تھا:

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

 اور؛

وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

 اللہ کی سنت ہے کہ جو قوم بگاڑ کے بجائے بناؤ  اور سنوار کے کاموں میں لگتی ہے، جو علم کے جھنڈے ساری دنیا میں گاڑتی ہے، جن قوموں کے پاس سب کچھ ان کا “علم” ہی ہوتا ہے۔ جن کے دن رات اس کائنات کے اسرار و رموز کو کھوجنے میں صرف ہوتے ہیں، جو اسی روز و شب میں الجھ کر نہیں رہ جا تے، جو آسمانوں سے آگے جہانوں کے متلاشی ہوتے ہیں اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا ہنر سیکھ لیتے ہیں پھر وہ چاہے خدا کے منکر ہی کیوں نہ ہوں، یہ کائنات اپنے راز ان پر افشاء کرنے شروع کردیتی ہے اور اللہ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔

 اس دنیا میں جتنی تحقیق، تخلیق اور علوم وجود میں آئے ہیں وہ مشاہدوں، تجربوں، وجدان اور اہل علم کی صحبت کے نتیجے میں آئے ہیں۔ میرے اور آپ کے اسلاف کیا چیز تھے کہ:

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں

مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا

اور؛

تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت وہ سیّارا

 اس علم ، جستجو اور عشق و مستی کا فیضان تھا کہ فارابی نے 100، امام رازی نے 125،  ابن حجر عسقلانی نے 150، امام غزالی نے 200، ابن العربی نے 250،  عبدالغنی النابلسی نے 300، ابن تیمیہ نے 500 علامہ جلال الدین سیوطی نے 550 اور ابن طولون دمشقی نے 75 سے زیادہ کتب تصنیف کرڈالیں۔

علامہ امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ جو قلم تراشتے تو اس تراشے ہوئے برادے کو جمع کرتے رہتے اور انتقال کے وقت وصیت کی کہ میری میت کے غسل کا پانی اسی برادے سے گرم کرنا۔ ان کی وصیت پر عمل کیا گیا، کیونکہ تراشے ہوئے اقلام  کا برادہ اتنا تھا کہ پانی گرم کرنے کے لئے آگ بآسانی لگ گئی۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ پر بلوغت کے بعد سے کوئی رات ایسی نہیں گزری جب انہوں نے رات کو کم از کم ایک صفحہ نہ لکھا ہو۔

آج یہ ساری  خوبیاں جن لوگوں کے پاس ہیں دنیا کی امامت اور اقتدار بھی ان ہی کے پاس ہے۔ امام مسلم کا انتقال جس بیماری میں ہوا وہ یہ تھی کہ  وہ کتابیں پڑھنے میں اتنے محو ہوئے کہ ساتھ رکھے کھجور کے ٹوکرے  میں سے ساری کھجوریں کھا لیں اور ان کو معلوم تک نہ ہوسکا، جو بعد ازاں ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔

 یہ نام نہاد “تعلیم” دکھاوے کی “ڈگریاں” اور غلامی کی تیاریاں۔ گریڈز، نمبرز، جی- پی – ایز اور عزت نفس گروی رکھنے والی ڈگریاں اگر علم ہے تو پھر اس “علم” کو دیوار پر مار دینا چاہئے اور اس “علم” کو تلاش کرنا  چاہیے جو انسانوں، معاشروں اور قوموں کو سدھارتی ہے۔ کوشش کریں کہ اپنی نئی نسل کو ڈگری دلوائیں نہ دلوائیں “علم” ضرور حاصل کروائیں، انسانیت ضرور سکھادیں۔ مشاہدے، تحقیق جستجو اور وجدان کے دروازے ان پر کھولنے کی کوشش کریں اقبال  نے کہا تھا:

تجھے کتاب سے ممکن نہیں  فراغ کہ تو

کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں