مدارس میں نئے تعلیمی سال کا آغاز

دینی مدارس کا نیا تعلیمی سال 1440/41 ؁ھ شروع ہوچکا ہے۔قمری ماہ شوال کے پہلے ہفتے سے مدارس میں طلباء کے داخلوں کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے مدارس میں دوماہ سے چھائی ویرانی ختم ہونے لگتی ہے۔ طلباء دوردراز کا سفر طے کرکے حصول علم کی خاطر جمع ہوکرمدارس کی رونقوں کو بحال کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیے صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔ اپنے وطن کی شب و روز کی سہولتوں کو ترک کرتے ہیں۔ مشفق والدین، اعزہ اقربا کی جدائی سہتے ہیں۔ آبائی وطن سے دوری کا پتھر سینے پہ رکھ کر مدارس کو اپنا وطن اوراساتذہ کرام کو والدین کا درجہ دیتے ہیں۔ اس طبقے کی قربانیاں یقینابے مثال ہیں۔ ان کے ساتھ اُن کی قربانیوں کو بھی پسِ پشت نہیں ڈالا جا سکتا جن پیاروں کو یہ چھوڑ کر آئے ہوتے ہیں اور جن کا مقصد صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ ہمارے بچے دین کا علم حاصل کریں۔ اس کے علاوہ ان کے دلوں میں حب دنیا و حب جاہ ذرہ بھر بھی نہیں ہوتا۔
ملک بھر کے چھوٹے بڑے مدارس میں داخلوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ابتدائی درجات سے تخصص تک کے طلباء کرام مدارس میں پہنچ چکے ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں قال اللہ وقال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر طرف گونج ہوگی۔بڑے درجات کے طلبہ جن کا تعلیمی سفرکا یہ الوداعی سال ہے انہیں چند باتوں کا خیال رکھنا ہے۔ تصحیح نیت کے بعد اب تک جو علمی استعداد میں کمال حاصل کیا ہے،اس میں مزید اضافے کے لیے کمر کس لیں۔ کیوں کہ یہ سیکھنے کا آخری سال ہے، لہذا اپنے آپ کو اتنا علمی بنانے کوشش کریں، جب مدرسے کی چاردیواری کے باہر قدم رکھیں تو کسی بھی مضمون میں کمزوری باقی نہ ہو۔ صرف و نحو ہو یا منطق، علم الکلام ہو یا فلسفہ و بلاغت، اصول فقہ یا فقہ، اصول تفسیر ہو یا تفسیر، اصول حدیث ہو یا حدیث تمام علوم میں کہیں بھی نظر نہ آئے۔ تا کہ آپ علم وفن میں ملکہ حاصل کرکے کسی بھی اہل علم سے نظر ملا پائیں۔ حضرت تھانوی ؒ فرماتے تھے کہ طالب علم تین کام اپنے اوپر لازم کرلے۔ مطالعہ، سبق میں حاضری، تکرار۔ کچھ طلبہ جب کسی مضمون میں بوریت محسوس کرتے ہیں تو اس مضمون کو نہ پڑھتے ہیں نہ سنتے ہیں اور نہ تکرار کرتے ہیں۔ یہ بہت نقصان دینے والا عمل ہے اور یہ علم کو دیمک کی طرح چاٹتا رہتاہے، جس کا پچھتاوا فراغت کے بعد ہوتاہے۔
اگر کوئی طالب علم ذی استعداد ہے، ساتھ ہی وہ کسی فن میں مہارت بھی رکھتاہے تو پھروہ دین کی خدمت بہتر انداز سے کر سکتا ہے۔ خوشخطی اور عمدہ تحریر ایک عالم دین کے لیے ناگزیرفن ہے۔ وفاق المدارس بھی اس صلاحیت پہ امتحانات میں اضافی نمبرات کی صورت میں طلبہ کی بھر پور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ مدارس میں کئی اساتذہ موجود ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی فن کے ماہر ہوتے ہیں۔ ان کو عرضی دیں اور ان سے وہ فن شوق و ذوق سے سیکھیں۔ خوشخطی پر ہر طالب علم کو ملکہ حاصل کرنا چاہیے اور اس کے لیے تعلیمی سال کے پہلے دن سے محنت کرنا شروع کردیں۔ حروف تہجی کی صورتوں کو قواعد کے مطابق ذہن میں محفوظ کریں۔ اس کے بعد مرکبات کی مشق کریں۔ کسی بھی حرف کی تین صورتیں ہوتی ہیں۔ وہ حرف شروع میں ہوگا،درمیان میں ہوگا یا آخر میں ہوگا۔ تینوں حالتوں میں اس کی شکل بناوٹ مختلف ہوتی ہے۔ کم سے کم تین حروف کے مرکبات کی پہچان لازمی آنی چاہیے۔ دور جدید میں ہر چیز کا سمجھنا جدید ٹیکنا لوجی کی مدد سے آسان ہوگیاہے۔ کتابت بھی سوفٹ ویئر کی مدد سے کی جارہی ہے۔اگر ہاتھ سے خوشخطی مشکل لگے تو سوفٹ ویئر پروگرام سیکھنے کی کوشش کریں۔جہاں بھی کسی کاتب کی کتابت دیکھیں اس کی نقل کریں۔ اس طریقے سے بھی عمدہ خوشخطی سیکھی جا سکتی ہے۔
مدارس کے طلبہ میں خارجی مطالعہ کی عادت بہت کم ہوتی ہے۔ مدارس میں اوقات تعلیم کی طوالت کی وجہ سے طلبہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ غیر نصابی مطالعہ کیسے کریں۔ کیا سوشل میڈیا،انٹرنیٹ پر وقت صرف نہیں ہوتا؟ چوبیس گھنٹوں میں تین سے چار گھنٹے فیس بک، واٹس ایپ،ٹویٹر،انسٹاگرام کو دیے جا سکتے ہیں تو پھر غیر نصابی مطالعہ کے لیے ایک گھنٹہ کیوں نہیں نکالا جا سکتا ہے؟ غور کیا جائے تو اس میں وقت کی بے ترتیبی کا بڑا دخل ہے۔ اگر وقت منظم کر لیا جائے تو تمام امور کی انجام دہی کے بعد غیر معمولی وقت بچ جائے گا۔ غیر نصابی مطالعہ ذہن کو کھولتا ہے۔ نصابی کتب کے ساتھ خارجی کتب کامطالعہ بھی از حد ضروری ہے۔ مدارس کے طلباء کا دور حاضر کے حالات سے واقف رہنا چاہیے۔خاص طور پر اسلامی تاریخ پر گہری نگاہ ہو۔پھرخارجی مطالعہ کی وساطت سے ملکی وعالمی صورت حال پر نظر رکھتے ہوئے اسلامی اصولوں کو مد نظر رکھ معروضی انداز میں آپس میں حالات وواقعات کا تجزیہ کریں۔ یہ تجزیہ کسی بھی مسلکی، مذہبی،سیاسی، لسانی، فرقہ واریت سے ہٹ کر ہو۔فکری انقلاب کے لیے اس طرح کے مباحثے بہت اہم ہیں۔ مدارس میں بزم کا نظم ہوتا ہے۔ اس میں ہر موضوع پر طلباء تقاریر یں کریں۔ لیکن ان سب کا اثر نصابی سرگرمیوں پر نہ آئے۔کیوں کہ یہی مقصد اصلی ہے۔ خارجی مطالعہ بھی تعلیمی اوقات میں نہ کریں۔
سالہاسال کی یہ تعلیمی محنت جب سو فیصد اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے ہے تو اصلاح ظاہر و باطن پر بھی توجہ ہو۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی کامل اتباع کی عملی کوشش،بلکہ مشق کریں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پیروی کریں۔ یا درکھیں مدرسہ اور مدرسے کی باہر کی زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے،لہذا مدرسہ کے اندر رہتے ہوئے خود کوباہر کے لیے مثالی بنا ئیں، تاکہ جب باہر آئیں تو معاشرے کو ایک حقیقی عالم دین میسر ہو۔ سنت مبارکہ کا کوئی گوشہ عالم سے مخفی نہیں۔ حقوق، معاملات، معاشرت، اخلاق، عبادات میں خاص انفرادیت چھلکتی ہو۔ علمی ترقی کے جس معیار کی طرف مدرسے کا طالب عالم گامزن ہوتا ہے،اس سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ اس کے اپنے اسے باصلاحیت عالم، مفتی دیکھنا چاہتے ہیں۔جب یہ خوبیاں ہوں گی تب ہی تو اساتذہ فراغت کے بعد دینی ذمہ داریاں تفویض کریں گے۔ اگر علمی صلاحیت ہے تو یہ بوجھ سہل محسوس ہوگا،ورنہ یہ وزن کاندھے اٹھانے سے قاصر ہوں گے۔اس لیے نئے تعلیمی سال میں ماضی کی غلطیوں کو بھول کر آگے بڑھیں۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں