پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں

ہم جس انتشار وخلفشار کا شکار ہیں،اُس کے ظاہری اسباب حکمرانوں کی سیاہ کاریاں،سیاست دانوں کی بداعمالیاں،سرمایہ کاروں کی لوٹ ماراور نوکر شاہی کی بدعنوانیاں ہیں،اِس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی روایات اور اسلاف سے کٹ چکے ہیں،بدنظمی،رشوت،ذخیرہ اندوزی اور بے راہ روی جیسی برائیوں نے جنم لیا ہے،خود غرضی اورخودفراموشی جیسی لعنتیں پروان چڑھی ہیں اور بدترین جمہوری نظام مسلط ہے۔
تخریب کا یہ سلسلہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی وفات سے شروع ہوا اور سقوط ڈھاکہ پر منتج ہوا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہمیں سنبھلنے کا موقع ملا،لیکن اِس ذلت وشکست کے باوجود ہم حسبِ ِسابق تباہی کی راہوں پر گامزن رہے،اِس افسوس ناک سانحہ کی وجوہات ہمارا بیمار ادب،شرمناک صحافت،فلم،ریڈیو،ٹی وی کے ناخدا بھی ہیں،بے مغز ادیبوں،آوارہ مزاج شاعروں،ضمیر فروش صحافیوں،
تنگ نظر علماء،تن آسان اساتذہ،نفع خور ناشروں اور ذرائع ابلاغ ِعامہ کے کاسہ لیسان ازلی نے وہ کام کر دکھایا جو دشمن کی پروپیگنڈہ مشینری اور بیرونی سازش بھی نہ کرپائی،یہ مُلک دشمن کی بدترین مثال ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں جو مُلک کی اب تک کی تعمیرو ترقی کو بریک لگائے ہوئے اِس کی جڑوں میں بیٹھے اِس کی تنزلی کا باعث ہیں،ہمیں اِن تمام محاذوں پر کام کرنا ہوگااور ہر ایک ادارے،شعبے پر پوری نظریں جمانا ہوگی،ہمیں مُلکی سسٹم میں بہتری لانے کے لیے اِن تمام شعبوں پر کام کرتے ہوئے ایسے تمام افراد کا محاسبہ کرتے،کو نکال باہر کرنا ہوگا،جو مُلکی مفادات کے خلاف کام کر رہے،مُلک کے خلاف بول رہے،اِس کی سلامتی کے اداروں کیخلاف گلا پھاڑ دینے کی حد تک چنگھاڑ رہے،اِس مُلک کی معیشت کو تباہی کے دھانے پر پہنچانے کے اصل ذمہ دار،اپنی کرپشن و لوٹ مار کے سبب اِس مُلک کو دیوالیہ کے قریب پہنچانے والے،گذشتہ 40 سالوں سے اِس مُلک کے”مسیحا“بنے،اِس کی جڑوں میں بیٹھے،اِسے کھوکھلا اور برباد کیے ہوئے ہے،اِن تمام کرداروں پر بھی نگاہ رکھنا ہوگی اور اداروں کی بہتری کے لیے مثبت،تعمیری اور کرپشن فری اقدامات کرنا ہونگے،تبھی جاکر ہی ہم وہ تمام مطلوبہ اہداف حکومتی سطح پر حاصل کرسکتے،جس کے ہم متمنی و خواہشمند ہیں،اِس لیے کہ کسی بھی مُلک کی ترقی وخوشحالی اور مضبوط معیشت میں اُس کے افراد اور محکمے اہم کردار ادا کرتے ہیں،اگر افراد اور ادارے اپنا کام ٹھیک اور ایمانداری سے کریں گے تو مُلک ترقی کرے گا اور معیشت مستحکم ہوگی مگراِس کے لیے کرپٹ ٹولے کے احتساب کے ساتھ سب سے اہم کام اداروں اور اُن میں موجودافسران و عملے کو ٹھیک کرنا اور درست طور پر چلانا بے حد ضروری ہے،(جو کہ نئے پاکستان میں اپنے آفس ٹیبل پر اب ایسے دیدہ دلیری سے رشوت وصول کرتے ہیں،جیسے انہیں اب کسی کا ڈر وخوف ہی نہ ہو) جس کے بغیر مُلک کی تعمیرو ترقی کا خواب ادھور ا ہے،اِن اداروں کو بہتر اور کرپشن فری کیے بغیر ہم کوئی بھی منزل نہیں پاسکتے،کسی کا احتساب بھی ٹھوس اور پائیدار بنیادوں پر نہیں کر سکتے،اگر ہم حقیقی معنوں میں چاہتے ہیں کہ مُلک ترقی کی جانب بڑھے تو ہمیں سب سے پہلے حکومتی شخصیات و اُس کے اداروں میں بہتری اور نکھار لانا ہوگا،مُلکی سسٹم کو صاف شفاف بنانا ہوگا، کرپشن کا قلع قمع کرنا ہوگا،اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ٹھیک ورنہ سسٹم و ادارے پہلے جیسے،پہلے کی ہی طرح چلے اور کرپٹ افراد کا احتساب بھی ممکن ہوتو،یہ نہیں ہوسکتا، کرپٹ نظام کی موجودگی میں،اِسے سدھارے بغیر، احتساب کا نعرہ لگانا یا شور مچانا عوام کو دھوکا دینے کے ساتھ ساتھ محض اپنے آپ کو بھی ایک دھوکے اور سراب میں ڈالنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔مُلکی سسٹم میں بہتری لانے کے لیے کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے،اِس کے بغیر مُلک کا نظام ٹھیک ہوسکتا ہے اور نہ ہی معیشت، چاہے جتنی مرضی باتیں کرلو،عزم کا اظہار کرلو،جتنا مرضی زور لگالو۔اگر مُلکی سسٹم اور معیشت کو ٹھیک کرنا ہے تو اِس کے لیے نہ توکسی ماہر معاشیات کی ضرورت ہے اور نہ کوئی گیڈرسینگی درکار،صرف اور صرف کرپشن ختم کرنے کی طرف جانا ہوگا،سب سے اہم بات،ریاستِ مدینہ کے دعویداروں سے۔۔۔۔۔اگر آپ واقعی ریاست ِمدینہ کے قیام کے خواہشمند ہیں تو پھر اِن تمام بیماریوں پر کام کریں،ایک ماہر سرجن ڈاکٹرکی طرح۔پھر دیکھنا کہ مُلک کیسے ترقی کرتا اور خوشحالی کی کرنیں کیسے پھوٹتی،اگر آپ اِس کے بعد بھی ایسانہیں کرتے تو سمجھنا ہوگا کہ ریاست ِمدینہ کے قیام کا اعلان آپ کی طرف سے محض ایک سیاسی نعرہ ہے اور کچھ نہیں۔اب تک کی جو صورتحال اِس مُلک میں آپ کی جانب سے دیکھی یا دیکھ رہا ہوں،نظر تو نہیں آتا کہ آپ بحثیت وزیراعظم اِس میں سنجیدہ ہیں مگر پھر بھی اُمید اور یقین پر دنیا قائم،جھوٹ اور فریب کے اِس پُر فتن دور میں شاید اب کے بار آپ کا کہا ہی سچ ہوجائے،آپ کے ساتھ چل رہا ہوں،تمام تر لٹیروں،چوراچکوں،مکاروں،بے ایمانوں سے کنارہ کش ہوئے اِس ارادے اور خیال سے کہ نظام بدلے گا،پاکستان ترقی کرے گا۔
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اِک تیزرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں

حصہ

جواب چھوڑ دیں