میرے استادِ محترم شفیع صاحب اکثر نالائق بچوں کو کام نہ کرنے پر سزا دیتے ہوئے اپنی گھنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ایک موٹا ڈنڈا ہاتھ میں گھماتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ
”وگڑیاں تِگڑیاں دا ڈنڈا پیر“اور پھر اسی ڈنڈے سے بچوں کے وہ کس اور ”بل“ نکالتے تھے کہ جسم کے ایک ایک انگ سے ”پیڑاں“نکلنی شروع ہو جاتی،یا پھر کہا کرتے تھے کہ ”آسمان سے چار کتابیں اور ایک ڈنڈا نازل ہوا ہے“پہلی بات تو سیدھی سادھی سی تھی اس لئے سمجھ آگئی کہ جو نالائق ہیں ان کے بستے بھاری اور ذہن خالی ہوتے ہیں اس لئے ان کا علاج ڈنڈا ہی ہو سکتا ہے جبکہ دوسری ضرب المثل کبھی کھاتے نہیں پڑی کہ جب زمین جنگلات سے بھری ہوئی ہے تو پھر ڈنڈے کو فلک سے نیچے کیوں اتارا گیا،ذرا ہوش سنبھالا تو خود ہی اندازہ لگایا کہ ہو سکتا ہے جو لوگ الہامی کتابوں پر عمل پیرا نہیں ہونگے ان پر سختی برتنے کے لئے ڈنڈے کا نزول بھی کر دیا گیا ہو۔بروزن ”ڈبہ پیر“ایک عرصہ تک”ڈنڈا پیر“کو بھی کسی آستانہ عالیہ و درگاہ شریف کا گدی نشین ہی خیال کرتا رہا کہ ہو سکتا ہے یہ کوئی ایسا پیر ہو جو مریدوں کا علاج ڈنڈے سے کرتے ہوں جس کی نسبت سے ڈنڈا پیر معروف ہو گیا ہو وہ تو اس وقت سمجھ آئی جب شریف صاحب نے ہماری تشریف پر ایک دن گھر کا کام نہ کرنے پر ڈنڈوں کی ایسی برسات کی کہ خدا پناہ۔
عصرالاقدام میں ڈنڈے سے وہی کام لیا جاتا تھا جو آج کل کلاشنکوف یا پسٹل سے لیا جاتا ہے۔یقین کے لئے اپنے پٹھان بھائیوں کی پرانی تصاویر پر غور فرمائیے گا تو ہر بزرگ کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا دکھائی دے گا جبکہ آج کے دور کی تصویر ملاحظہ فرمائیں تو ڈنڈے کا نعم البدل کلاشنکوف ہو گی۔برصغیر پاک و ہند کی روائت بھی رہی ہے کہ پرانے بزرگ دوران سفر اپنے ساتھ دو چیزوں کو ضرور ساتھ رکھتے تھے،کتا اور ڈنڈا۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں کے بے شمار فائدے ہیں،مثلاً دشمن اگر ڈنڈے سے نہ مرے تو یہ کام کتے سے لیا جا سکتا ہے اور کتا اپنے فرائض آوری سے کوتاہی برتے تو ڈنڈا کام دکھا سکتا ہے۔ان دنوں ڈنڈا چلانے میں مشاقی حاصل کرنے کے لئے نوجوانوں کو باقاعدہ ”گتکا“(ایک گیم) سکھایا جاتا تھا اور پولیس میں بھرتی کرتے ہوئے مختلف سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی کیا جاتا تھا کہ کیا تمہیں گتکا کھیلنا آتا ہے۔ممکن ہے یہ ڈنڈا بردارپولیس اسی دور سے چلی آرہی ہو۔پا کستان میں تو خیراس پولیس کی اتنی اہمیت نہیں اکثر اس پولیس کو جلسے جلوسوں،میلوں،یا قبضہ لینے کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے ہاں البتہ ایک بار سعادت عمرہ کے دوران جنت البقیع کے باہر موجود تھا کہ ایک دم لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا،ایسے میں کسی نے آواز لگائی کہ ڈنڈا بردار پولیس آگئی بھاگو،اگرچہ ان کے پاس جو ڈنڈے تھے وہ ہمارے پولیس والوں کے مقابلہ میں عشر عشیر بھی نہیں تھے تاہم ان کا رعب و دبدبہ ایسا تھا کہ سب دیکھتے ہی دیکھتے تتر بتر ہو گئے۔اس دن پتہ چلا کہ ڈنڈا بردار پولیس کا کتنا رعب ہے اگر وہ سعودی عرب میں ہو،ہمارے ہاں تو پولیس کو ڈنڈا اس لئے تھما یا جاتا ہے کہ بوقت ضرورت وہ اس کا سہارا لے کر استراحت فرماسکیں،یا اگر پیٹ قابو میں نہ آرہا ہو تو اسے ڈنڈے کے سہارے سے ایک جگہ ٹکایا جا سکے،اور کچھ بھی نہ ہو تو اگر رات کے کسی وقت کوئی پولیس مین گھپ اندھیرے میں ڈیوٹی پر موجود ہو اور کہیں کسی پتلی گلی سے اچانک سے ایک عدد کتا آٹپکے تو اس سے جان چھڑانے کے لئے ڈنڈے کا استعمال کیا جا سکے۔اور کچھ نہیں تو کبھی طلبا سے مڈھ بھیڑ میں کوئی پولیس مین زخمی ہو جائے تو اسی ڈنڈے کا سہارا ہی راہ فرار اختیار کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے،عالمگیر نہ سہی ملک گیر ڈنڈے کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہمارے تمام صوبوں میں ڈنڈے کو اتنا ہی احترام حاصل ہے جتنا کہ ہمارے بزرگوں کا،وہ الگ بات ہے کہ اب ڈنڈے کی اہمیت اور بزرگوں کا احترام کم ہوتا جا رہا ہے۔پنجاب میں ڈنڈا بزرگوں کا سہارا،سندھ میں بکریاں چرانے اور چُرانے،بلوچستان میں سفر اور سردار کا ساتھی جبکہ کے پی کے میں ”چوکیداری“کے لئے ساتھ رکھا جاتا ہے۔خیال یہ ہے کہ جب ڈنڈا ساتھ ہو تو ”ساتھی“کے ساتھ ہونے کا خیال لگتا ہے۔اور یہی ڈنڈا اگر چورکے پاس ہو توچوکیدار تلملا اٹھتا ہے کہ”چور تے ڈنڈا دو اور میں اکیلا“۔ویسے کسی زمانے میں چوکیدار کے پاس بھی دو ہی اشیا ہوتی تھیں لالٹین اور ڈنڈا،مگر مجال ہے ڈنڈے سے کسی چور کو کبھی مارا ہو،تو پھر ڈنڈا ساتھ رکھنا چہ معنی،ایسا نہیں چوکیدار کے پاس اگر ڈنڈا نہ ہو تو لالٹین کہاں لٹکائے،کتوں کو کیسے بھگائے،خود کو کیسے محفوظ رکھے،اور سوتے وقت سہارا کس سے لے؟ویسے چور اور ڈنڈے کا ہمیشہ سے ہی چولی دامن کا ساتھ رہا ہے،اسی لئے ضرب المثل مشہور ہے کہ ”چوراں دے کپڑے ڈانگاں دے گز“یعنی مال ِمفت دل بے رحم۔
گلی ڈنڈے سے لے کر ”ڈولی ڈنڈا“تک اور پولیس سے آرمی چیف تک جس کے ہاتھ میں بھی ڈنڈا ہوتا ہے زمانہ بھی اسی کا ہوتا ہے۔اور تو اور ڈنڈا اگر کسی جھنڈے میں دے دیا جائے تو وہ بلندی و سرفرازی کی علامت بن جاتا ہے یہ سب تو گوشت پوست کے انسان ہیں ان کے دماغ کیوں نہ آسمانوں کو جا لگیں۔علاوہ ازیں بندر نچانے والے قلندروں سے خاوند نچانے والی بیویوں تک اسی ڈنڈے سے فیض یاب ہیں۔تماشہ گر ڈنڈے کے اشاروں سے بندریا کو نچا کر تماشہ بین کو محظوظ کرتا ہے جبکہ بیوی اسی قسم کے بیلنہ نما ڈنڈے سے۔۔۔۔۔۔باقی آپ بھی خاوند ہیں سمجھ تو گئے ہونگے۔خدا محفوظ رکھے ہر خاوند کو۔۔۔۔سمجھ تو گئے ہونگے۔چلیں جو جو سمجھ گئے ہیں ہاتھ اٹھا کر بیک آواز صدا بلند کریں،آمین۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں