مہمان کا اکرام

مہمان نوازی انبیاء علیہم السلام کا شیوہ ہے، اسلام میں مہمان نوازی کو اخلاق ِ حسنہ میں شمار کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مہمان کا اکرام کرنے کی خاص تاکید فرمائی ہے۔
۱: قد قال النبی ﷺ: (من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ) رواہ البخاری: ۸۱۰۶، ومسلم،:۲۸۱
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے مہمان کی تکریم کرنی چاہئے۔
۲: وقال: (من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ؛ جائزتہ۔ قال: وما جائزتہ؟ قال: یومہ ولیلتہ، والضیافۃ ثلاثۃ ایام، فما کان وراء ذلک فھو صدقۃ علیہ۔) رواہ البخاری: ۵۳۶۱، مسلم، ۰۱۶۴۔
اور آپؐ نے فرمایا: ”جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتا ہے، اسے مہمان کی تکریم کرنی چاہئے اور اس کا حق ادا کرنا چاہئے۔ پوچھا گیا: اور اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا: ایک دن اور ایک رات، اور ضیافت تین دن کے لئے ہے، اس کے بعد صدقہ و خیرات ہے“۔(متفق علیہ) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے:
”لا یحلّ لمسلمٍ أن یقیم عند اخیہ حتی یؤثمہ۔ قالوا: یا رسول اللہ! کیف یؤثمہ؟ قال: یقیم عندہ ولا شیء لہ یقریہ بہ“۔
(کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کے پاس (اتنا زیادہ) ٹھہرے حتی کہ اسے گنہگار کر دے۔ صحابہؓ نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! اس کو گنہگار کیسے کرے گا؟ آپ نے فرمایا: اس کے پاس ٹھہرا رہے اور اس کے پاس کوئی چیز نہ رہے جس کے ساتھ وہ اس کی مہمان نوازی کرے“۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے روز مہمان کو پرتکلف کھانا کھلایا جائے، میزبان اپنے معمول کے کھانے سے زیادہ اچھا کھانا پیش کرے، اسکے بعد دو دن تک اسے اپنے جیسا کھانا کھلائے، اور اگر مہمان اس سے زیادہ قیام کرے گا تو وہ خرچ اس کے حق میں صدقہ شمار ہو گا۔
ابن قیمؒ زاد المعاد میں اس کی درجہ بندی یوں کرتے ہیں: مہمان کا حق تین مرتب پر ہے، ۱۔ واجب (ایک دن اور ایک رات)، ۲۔مستحب (دوسرا اور تیسرا دن)، ۳۔صدقہ(اگر مہمان اس کے بعد مزید رکے)۔
المغنی اللبیب (۱۹۔۱۱) میں ہے کہ یہ حقوق اس مہمان کے ہیں جو مسافر ہو، اور دوسرے شہر سے آیا ہو، رہا اپنے علاقے کا مہمان تو اسکی مہمانی کرنا میزبان کا اختیار ہے، چاہے تو اسے کھلائے اور چاہے تو میزبانی قبول نہ کرے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
(وان قیل لکم ارجعوا فارجعواھو ازکی لکم، واللہ بما تعملون علیم) (النور، ۸۲)
(اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔) یعنی کسی شخص سے نہ ملنا یا ملنے سے انکار کرنا میزبان کا حق ہے، اور اس پر برا نہ ماننا چاہئے، اگر مشغولیت ملاقات میں مانع ہو تو بھی انکار کیا جا سکتا ہے، کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کو ملاقات پر مجبور کرے یا اس کے دروازے پر کھڑا ہو کر اسے تنگ کرنے کی کوشش کرو۔ (دیکھئے، تفہیم القرآن، جلد ۳، ص۹۷۳)
اس حق کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ہاں میزبان نہ ملنے پر جھوٹ کی آڑ لیتا ہے، کبھی گھر میں نہ ہونے اور کبھی نیند اور طبیعت کی خرابی کا عذر تراشا جاتا ہے، اور یہ کہنا دشوار محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ملاقات ممکن نہیں۔
رواہ عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ، قال علیہ الصلوۃ والسلام: ”انّ لزورک علیک حقاًّ وانّ لزوجک علیک حقّاً“۔ (البخاری،حدیث نمبر ۸۱۸۳)
(بلا شبہ تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے۔)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”لا تزال الملائکۃ تصلّی علی احدکم ما دامت مائدتہ موضوعۃ بین یدیہ حتی یرفع۔“ (الطبرانی فی الاوسط)
(جب تک دستر خوان سامنے چنا رہتا ہے فرشتے میزبان کے لئے رعائے رحمت کرتے ہیں۔)
حضرت علیؓ نے فرمایا: ”بھائیوں کو عمدہ کھانے پر مدعو کرنا مجھے ایک غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسند ہے“۔
صحابہ ؓ کہا کرتے تھے:”الاجتماع علی الطعام من مکارم الاخلاق“۔ (الاحیاء، الغزالی)
(کھانے کی دعوت اعلی اخلاق میں سے ہے۔)
ضیافت کا اصل مقصد پیٹ بھرنا نہیں بلکہ ایک دوسرے سے انسیت پیدا کرنا ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے شریعت میں نماز با جماعت کو اکیلے شخص کی نماز پر فضیلت دی گئی ہے۔ ضیافت کا دوسرا فائدہ اسلامی آداب سیکھنے کا نادر موقع ہے، جو میزبان اور مہمان دونوں سے متعلق ہیں۔
ضیافت کے آداب کا خیال رکھا جائے تو وہ میزبان پر بوجھل نہیں ہوتی، سورہ الاحزاب میں بھی کچھ آداب سکھائے گئے، ارشاد ہے:
(یایّھا الذین آمنوا لا تدخلوا بیوت النبیّ الّا ان یّوذن لکم الی طعام غیر ناظرین اناہ، ولکن اذا دعیتم فادخلوا فاذا طعمتم فانتشروا ولا مستانسین لحدیثط) (الاحزاب، ۳۵)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو۔ نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرورآؤ۔ مگر جب کھانا کھا لو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو۔)
کھانے کا وقت تاک کر کسی دوست یا ملاقاتی کے گھر پہنچ جانا غیر مہذب عادت ہے، یا کسی کے گھر اتنی دیر بیٹھے رہنا کہ کھانے کا وقت ہو جائے، کہ اس حرکت سے صاحب ِ خانہ مشکل میں پڑ سکتا ہے، نہ مہمانوں کی موجودگی میں خود کھا سکتا ہے کہ یہ بے مروتی ہے، اور ہر آدمی کے بس میں نہیں ہوتا کہ جب جتنے آدمی بھی اس کے ہاں آجائیں، ان کے کھانے کا فوراً انتظام کر لے۔ اللہ تعالی نے اس بے ہودہ عادت سے منع فرمایا اور حکم دے دیا کہ کسی شخص کے گھر کھانے کے لئے اس وقت جانا چاہئے جب کہ گھر والا کھانے کی دعوت دے۔ اور مسلمانوں کے ہاں اس عام تہذیبی ضابطے کو اختیار کیا جانا چاہئے۔ (دیکھئے: تفہیم القرآن، جلد چہارم، ص۰۲۱)
دوسری عادت ِ بد کھانا کھانے کے بعد دھرنا مار کر بیٹھ جانے کی ہے، کھانا کھانے کے بعد گفتگو کا سلسلہ دراز نہیں ہونا چاہئے، اور صاحب ِ خانہ اور گھر کے لوگوں کو زحمت دینا شایستگی اور اعلی اخلاق کے خلاف ہے۔
بن بلائے مہمان کی حیثیت:
حضرت ابو مسعود بدریؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے کی دعوت دی، جو اس نے آپؐ کے لئے تیار کیا تھا، آپؐ پانچ لوگ تھے، جب وہ چلے تو ایک شخص اور بھی انکے پیچھے آ گیا، جب آپؐ اس (میزبان) کے دروازے پر پہنچے تو نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا: یہ شخص ہمارے ساتھ آ گیا ہے، اگر تم چاہو تو اس کو اجازت دے دو اور اگر چاہو تو واپس چلا جائے، اس نے کہا (نہیں) یا رسول اللہ! بلکہ میں اسے اجازت دیتا ہوں۔ (بخاری و مسلم)
برتن تاکتے ہوئے دوسروں کے گھروں میں داخل ہونا ناپسندیدہ ہے۔
مہمان کی تکریم:
مہمان کی تکریم کرنے کے حوالے سے انبیاء علیہم السلام کا نمونہ قرآن کریم بیان کرتا ہے، ارشاد ہے:
(ھل اتاک ضیف ابراہیم المکرمین۰ اذ دخلوا علیہ فقالوا سلماًصلے قال سلم قوم منکرون۰ فراغ الی اھلہ فجاء بعجلٍ سمین۰ فقرّبہ الیھم قال الا تاکلون) الذاریات، ۴۲۔۷۲
”کیا تیرے پاس ابراہیمؑ کے معزز مہمانوں کی بات پہنچی ہے، جب وہ ان کے پاس گئے تو انہیں سلام کیا، ابراہیمؑ نے بھی جواب میں کہا، سلام (اور کہا) انجانے لوگ ہیں۔ پھر اپنے گھر کی طرف چلے اور ایک پلا ہوا بچھڑا (بھون کر) لائے اور ان کے قریب کیا، فرمایا تم کھاتے کیوں نہیں؟“۔
ان آیات میں مہمان داری کے بہت اعلی اصول ہیں:
۔مہمان اور میزبان کا پہلا کلام سلامتی کی دعا پر مبنی ہونا
۔ نا شناسا ہونے کے باوجود مہمانوں کا اکرام کرنا
۔ مہمان داری کے لئے بہترین کھانے (موٹے تازے بھنے ہوئے بچھڑے کا) اہتمام کرنا
۔ مہمان داری میں دیر نہ کرنا
۔ کھانے کو مہمانوں کے قریب رکھنا شایستگی کی علامت ہے۔
قرآن کریم میں حضرت لوطؑ کی مہمان نوازی کا بھی ذکر ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
(ولمّا جاء ت رسلنا لوطاً سیء بھم وضاق بھم ذرعاً وّ قال ھذا یوم عصیب۰ وجاء ہ قومہ یھرعون الیہط ومن قبل کانوا یعملون السیئاتط قال یقوم ھؤلاء بناتی ھنّ اطھر لکم فاتّقوا اللہ ولا تخزون فی ضیفیط الیس منکم رجل رشید) ھود، ۷۷۔۸۷
”اور جب ہمارے فرشتے لوط کے ہاں پہنچے تو وہ ان کی آمد سے سخت دل تنگ ہوا، اور بولا، یہ بڑا کٹھن دن ہے۔ اور اس کی قوم دوڑتی ہوئی اس کے پاس آئی، اور اس سے پہلے بھی وہ برائیوں کا ارتکاب کرتے تھے۔ حضرت لوطؑ بولے، اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ ہیں، پس اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں کے بارے میں مجھے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی بھی سمجھ دار آدمی نہیں ہے۔“

حضرت لوط ؑ کے ہاں مہمانوں (نوجوان لڑکوں) کی آمد سے ان کو سخت پریشانی اور دل تنگی ہوئی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کی قوم کیسی بد کردار اوربے حیا ہو چکی ہے۔ ادھر خوبصورت لڑکوں کی لوطؑ کے گھر آمدکی خبر سنتے ہی شہر کے اطراف سے ہجوم پل پڑا، تو انہوں نے سب سے پہلے مہمانوں کے اکرام اور حفاظت کی بات کی، اور اللہ کا خوف دلا کر انہیں برے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔
حضرت ابراہیمؑ کو خلیل اللہ کا لقب ملااورجب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو اللہ تعالی نے اپنا خلیل کیوں بنایا تو انہوں نے جواب دیا: کیونکہ میں نے جب بھی دو کاموں میں سے کسی ایک کو اختیار کیا تو اسے اللہ کے لئے اختیار کیا، اور میں نے جس چیز کا سب سے بڑھ کر اہتمام کیا وہ یہ کہ میں نے صبح یا رات کو کھانا کبھی مہمان کے بغیر نہیں کھایا“۔ (الامتاع والموانسہ، ابو حیان التوحیدی، ج۳، ص۴۰۳)
حضرت یوسف ؑ کے ہاں ان کے بھائی عراق سے مصر آئے تو انہوں نے ان کی خوب تکریم کی، اور ان سے کہا:
(الا ترون انّی اوفی الکیل وانا خیر المنزلین) (یوسف، ۹۵)
”تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں“۔
انہوں نے نہ صرف پیمانہ بھر کر دیا بلکہ غلّے کی قیمت بھی واپس انہیں کے سامان میں رکھ دی،جو باپ کو قائل کرنے کا سبب بنی کہ ہم بھائی کو ضرور ساتھ لے کر جائیں گے۔
اگلی مرتبہ جب ان بھائیوں نے انکے منہ در منہ ان پر چوری کا الزام لگایا تو حضرت یوسف اسے بھی پی گئے اور انہیں کچھ نہ جتلایا۔بس زیر ِ لب اتنا ہی کہا: ”کتنے برے ہو تم، اور اللہ اسے خوب جانتا ہے جو تم بیان کر رہے ہو“۔(سورۃ یوسف، ۳۷)
مہمان کی سخت بات کو پی جانا بھی اکرام ہی ہے۔
رسول اللہ ﷺ بعثت سے پہلے بھی مہمان نواز تھے:
رسول اللہ ﷺ پر جب حرا میں وحی نازل ہوئی، تو آپ ﷺ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی، آپؐ گھر آئے، اور فرمایا: زمّلونی، زمّلونی، (مجھے اوڑھا دو، مجھے اوڑھا دو) پھر جب آپ اٹھے اور حضرت خدیجہؓ کو ساری بات بتائی (ای خدیجہ ما لی، لقد خشیتُ علی نفسی؟) اے خدیجہ مجھے کیا ہوا؟ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، تو آپؓ نے ان الفاظ سے آپؐ کو تسلی دی: (کلّا، فابشر، فواللہ لا یخزیک اللہ ابداً، فواللہ فانّک لتصل الرّحم، وتصدّق الحدیث، وتحمل الکل، وتکسب المعدوم، وتقری الضیف) ہرگز نہیں، آپؐ خوش ہو جائیے، بخدا اللہ آپؐ کو کبھی رسوا نہ کرے گا، اللہ کی قسم آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، اور سچ بولتے ہیں، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، حاجت مندوں کی مدد کرتے ہیں، اور مہمان نواز ہیں۔ (البخاری)
افلاس میں مہمان نوازی:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں بھوک اور فاقے سے بے چین ہوں، تو آپؐ نے ایک آدمی کو اپنی کسی بیوی کے پاس بھیجا کہ اگر کچھ ہو تو لے آؤ۔ انہوں نے جواب دیاکہ پانی کے سوا اس وقت کچھ نہیں ہے۔ پھر دوسری بیوی کے پاس بھیجا تو وہاں سے بھی یہی جواب ملا۔ یہاں تک کہ تمام بیویوں نے یہی کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپؐ کو حق دے کر بھیجا ہے، ہمارے ہاں اس وقت پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
تب آپؐ نے لوگوں سے کہا کہ آج رات کون اس مہمان کو کھانا کھلاتا ہے؟ انصار میں سے ایک آدمی نے (اور ایک روایت کے مطابق ثابت بن قیس انصاری نے) کہا: اے اللہ کے رسول! میں کھلاؤں گا، تو وہ مہمان کو لئے اپنے گھر گئے اور بیوی سے کہا کہ یہ نبی ﷺ کے مہمان ہیں، ان کی خاطر کرو۔ ایک اور روایت میں ہے انہوں نے کہا: کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ بیوی نے جواب دیا: نہیں! صرف بچوں کے لئے کھانا موجود ہے اور انہوں نے کھایا نہیں ہے۔ انصاری نے کہا: انہیں کچھ دے کر بہلا دو اور جب وہ کھانا مانگیں تو انہیں تھپک کر سلا دو، اور جب مہمان کھانا کھانے اندر آئے تو چراغ بجھا دینا اور کچھ ایسا کرنا کہ مہمان یہ سمجھے کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں۔
چناچہ سب لوگ کھانے بیٹھے اور مہمان آسودہ ہو کر اٹھا لیکن ان دونوں نے بھوکے رہ کر رات گزاری۔ جب وہ صبح کو حضور ﷺ کے پاس پہنچے تو آپؐ نے فرمایا: تم دونوں نے مہمان کے ساتھ رات جو سلوک کیا، اس سے اللہ تعالی بہت خوش ہوا ہے (ایک روایت میں ہے کہ اللہ رات کو اس فلان اور فلانی پر بہت ہنسا)۔ اور قرآن کی آیت نازل ہوئی:
(ویوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ) (الحشر، ۹)
”وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں“۔
یہ واقعہ میزبان کے ایثار کی بہترین مثال ہے جہاں اپنی اور اپنے بچوں کی بھوک پر بھوکے مہمان کو سیر ہو کر کھلانا اللہ کے ہاں مقبول اور اس کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بنا۔
مہمان کو بلانا:
مہمان کی ضیافت رسول اللہ ﷺ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے، ضیافت میں متقی اور صالح لوگوں کو بلانا چاہئے، فاسق و فجار اور اللہ کے مجرموں کو نہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
”لا تصاحب الّا مؤمناً، ولا یأکل طعامک الّا تقیّ“۔ (مسند احمد، سنن الترمذی)
(ایماندار کے ساتھ رہ اور تیرا کھانا متقی ہی کھائے)۔
جب کھانے کی دعوت دے تو اسے امراء اور صاحب ِ حیثیت لوگوں کے ساتھ خاص نہ کرے بلکہ فقراء اور کم آمدنی والوں کو بھی بلائے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
”شرّ الطّعام طعام الولیمہ یدعی الیھا الاغنیاء دون الفقراء“۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
(بدترین کھانا اس تقریب کا کھانا ہے جس میں دولت مند بلائے جائیں اور فقراء کو چھوڑ دیا جائے۔)
ضیافت اور مہمان نوازی کا مقصد محض ناموری اور دولت اور حیثیت کی دھاک بٹھانا نہ ہو، بلکہ اس کا مقصد خوشی اور سرور ہو۔جسے دعوت دی جائے وہ اسے قبول کر لے اور بلا سبب اپنے میزبان کو تکلیف نہ دے، اسی طرح ایسی دعوت کو قبول کرنے پر اصرار نہ کرنا چاہئے جہاں دوسرے کا شریک ہونا مشکل ہو۔مہمان کو بلا عذر معذرت نہ کرنی چاہئے اور میزبان کو عذر قبول کر لینا چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
”من دعی فلیجب“۔(صحیح مسلم)
(جسے کھانے کے لئے بلایا جائے، وہ قبول کرے۔)
مزید فرمایا:
”لو دعیت الی کراع شاۃ لأجبت، ولو اھدی الی ذراع لقبلت“ (صحیح بخاری فی کتاب الھبۃ)
(مجھے اگر بکری کے پائے کے لئے بلایا جائے تو میں ضرور قبول کروں گا اور اگر مجھے دستی کا تحفہ دیا جائے تو میں قبول کروں گا۔)
مہمان کا دعوت قبول کرنابھی مسلمان بھائی کی عزت وتوقیر کی علامت ہے۔
مہمان کی تواضع:
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ رات کو لکھ رہے تھے کہ ان کے پاس ایک مہمان آ گیا۔ چراغ بجھ رہا تھا، مہمان چراغ درست کرنے کے لئے اٹھنے لگاتو عمر بن عبد العزیزؒ نے کہا: ”مہمان سے خدمت لینا کرم و شرف کے خلاف ہے“۔ مہمان نے کہا: ”خادم کو جگا دیتا ہوں“، عمرؒ نے فرمایا: ”وہ ابھی ابھی سویا ہے، اسے اٹھانا مناسب نہیں“، چناچہ خود اٹھے اور تیل کی بوتل سے چراغ بھر کر روشن کر دیا، جب مہمان نے کہا کہ”آپ نے خود ہی یہ کام کر لیا ہے؟“ تو فرمایا: ”میں پہلے بھی عمر تھا اور اب بھی وہی ہوں، میرے اندر کوئی بھی کمی نہیں ہوئی، اور انسانوں میں اچھا وہ ہے جو اللہ کے ہاں متواضع ہے“۔ (منھاج المسلم، ص۷۷۲)
مہمان نوازی کے آداب:
علماء نے مہمان نوازی کے چند آداب بیان کئے ہیں:
۔ مہمان سے خندہ روئی سے ملے، اس کی آمد پر خوشی کا اظہار کرے،اور اسکی راحت اور آرام کا خیال رکھے۔اس کے لئے گرمی اور سردی سے بچاؤ کا اہتمام کرے، اگر مہمان نے قیام کرنا ہے تو اس کے لئے بہتر بستر کا انتظام کرے، ضرورت کی چیزوں کو اس کی پہنچ میں رکھے، تاکہ مہمان کو پریشانی نہ ہو۔
۔ مہمان کو جو جگہ پیش کی جائے، خوش دلی سے وہیں بیٹھ جائے، اور بے جا مطالبات کر کے میزبان پر بار نہ بنے۔
۔ مہمان نوازی میں جلدی کرے، مہمان کو بہت انتظار نہ کروائے، مہمان کو محبت سے کھلائے، اس کے ذوق کو سامنے رکھ کر کھانا پیش کرنے کے سعی کرے۔ حاتم الاصم کا قول ہے: ”العجلۃ من الشیطان الا خمسۃ“
(جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے، سوائے پانچ چیزوں کے جو سنت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں: ۱، مہمان کا کھانا، میت کا جنازہ، نوجوان کی شادی، قرض کی ادائیگی، اور گناہ سے توبہ۔)
۔ اس کے پاس جو عمدہ کھانا ہو اس کو اچھے طریقے سے اس کے سامنے پیش کرے، اور اتنی مقدار اس کے سامنے رکھے کہ وہ سیر ہو کر کھالے۔ اس معاملے میں تھوڑی چیز پیش کرنا بے مروتی اور بہت زیادہ پیش کرنا تصنع اور بناوٹ کی علامت ہے، اور دونوں ہی قابل ِ مذمت ہیں۔
اگر مہمان کے سامنے کوئی چیز پیش کی تو اس کے انکار پر فوراً ہی کھانے کو اٹھا لینا بخل اور بے مروتی کی علامت ہے، مہمان سے یوں نہیں پوچھنا چاہئے کہ آپ کچھ کھائیں گے؟ یا کیا میں آپ کو کھانا کھلاؤں؟ بلکہ مہمان کے سامنے کھانا پیش کرنا چاہئے۔
۔ مہمان پر نظریں نہ گاڑ دے، کہ وہ شرم سے کھا ہی نہ سکے، بلکہ اسے سیر ہو کر کھانے کا موقع دے۔
۔ کھانا ختم کر دینے تک مہمان کے آگے سے کھانے کا برتن نہ اٹھائے، بلکہ اس کے سامنے پیش کرے، اگرچہ وہ کھا چکا ہو۔
۔ اور مہمان نوازی کا اعلی درجہ یہ ہے کہ آگے بڑھ کر اسے کھلائے۔ (یعنی ڈش اٹھا کر اسے دینا) اور اس معاملے میں بھی بخل سے کام نہ لے۔
۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ اگر میزبان صاحب ِ حیثیت ہے تو پہلے مہمان کے سامنے پھل پیش کرے، تاکہ وہ معدے کے نچلے حصّے میں جائے، اور یہ طب کے مطابق بھی ہے، پھر گوشت کی کوئی قسم پیش کرے۔ اور یہ قرآن میں جنتیوں کی ضیافت سے بھی مطابقت رکھتا ہے: (وفاکھۃ مما یتخیّرون۔ ولحم طیر ممّا یشتھون) (الواقعہ، ۰۲۔۱۲)
(اور وہ ان کے سامنے طرح طرح کے لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چن لیں، اور پرندوں کا گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کا چاہیں استعمال کریں۔)
۔ جب مہمان کھانے سے الگ ہو جائے تو برتن سمیٹ لے۔
۔ مہمان سے اچھی گفتگو کرے، اسے اپنی تکلیفوں کا حال سنا کر پریشان نہ کرے، امام اوزاعی سے پوچھا گیا کہ مہمان کا اکرام کیا ہے؟ وہ بولے: ۱۔ خندہ پیشانی اور۲۔ عمدہ کلام
۔ مہمان کی موجودگی میں اپنے آپ کو اس کے ساتھ مشغول رکھے، اگر اسے کھانے کی ضرورت نہیں تو بھی اس کے ساتھ بیٹھ کچھ کھا لے، یا اسے ساتھ ہونے کا احساس دلائے، اگر مہمان نے رات قیام کرنا ہے تو اس سے پہلے بستر پر نہ جائے۔
۔ مہمان کو میزبان کے گھر میں آکر چیزوں پر تنقید اور طرح طرح کے سوالات نہیں کرنے چاہئے، اہل ِ علم کے مطابق اسے قبلہ رخ اور رفع حاجت کے مقام کے سوا کچھ نہ سوال کرنا چاہئے۔ خود اپنے لئے کسی چیز یا جگہ کا انتخاب نہیں کرنا چاہئے بلکہ میزبان جہاں بٹھائے اور جو کچھ دے اسے لے لینا چاہئے، الا کہ اسے بیماری یا معذوری ہو۔
۔ مہمان رخصت ہونے لگے تو اسے دروازے تک چھوڑنے جائے، اور اچھے کلمات سے الوداع کہے، یہ سلف صالحین کا طریقہ ہے، اور مہمان کی تکریم اور توقیر میں داخل ہے، اور عنداللہ اسکا اجر ہے۔
۔ مہمان رخصت ہوتے ہوئے مہمان کو اچھی دعا دے کر رخصت ہو، مثلاً:
”اکل طعامک الابرار، وافطر عندکم الصائمون،وصلت علیکم الملائکۃ الاخیار، وذکرکم اللہ فیمن عندہ“۔
(نیک لوگ تمہارے مہمان بنیں، روزہ دار تمہارے ہاں افطار کریں، اور اچھے فرشتے تمہارے لئے رحمت کی دعا مانگیں، اور اللہ اپنی مجلس میں تمہارا ذکر کرے۔ آمین)
اے اللہ، ہمیں مہمان کا اکرام کرنے کی توفیق عطا فرما تاکہ ہم ایمان کی اس شاخ سے خوب حصّہ پائیں۔ آمین

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں