تبدیلی کار اور پُرانی پالیسیاں

ایک مصورنے شخص کی خوبصورت تصویر بنائی اور اس کو چوراہے میں رکھ دیا اور سا تھ میں ایک بورڈ بھی رکھ دیا جس پر لکھا تھا کہ اس تصویرمیں جو کمی ہے وہ اس بورڈمیں لکھیں ایک آدمی آیا اس نے تصویر دیکھی اور بورڈ پر لکھا کہ اس تصویرمیں آنکھیں درست نہیں ہیں،دوسرا آیا اس نے لکھا کہ اس کے کان ٹھیک نہیں بنائے،اسی طرح کسی نے ہونٹوں پر اعتراض کیا کسی نے بالوں پر کسی نے ناک پر اور کسی نے ماتھے پر، ا گلے دن مصورنے اس تصویر اور بورڈ کے ساتھ ایک بورڈ اور پینٹنگ کا سارا ساما ن رکھا اور لکھا کہ جو چیز مجھ سے درست نہیں بناوہ مہربانی کرکے درست طریقے سے بنادیں اب صورت حال یہ تھی کہ جس نے لکھا تھاکہ آنکھیں درست نہیں ہیں مگر خود درست آنکھیں نہ بنا سکا اسی طر ح جس نے لکھا تھا کہ کان ٹھیک نہیں بنائے خود ٹھیک کان نہ بنا سکا حتیٰ کہ جس کا جس چیز پر اعتراض تھا وہ اس کو درست انداز میں نہ بنا سکا اور آخر میں سب یہ بات لکھنے پر مجبور ہو گئے کہ “تصویر میں جو چیز جس انداز میں بنی ہے وہ بالکل درست ہے” 2018میں پہلی بار دو جماعتی نظام کو شکست ہوئی اور ایک تیسری جماعت کو حکمرانی کا موقع ملا میر ی مراد پاکستان تحریک انصاف سے ہے الیکشن 2018سے پہلے اور الیکشن کے دوران پی ٹی آئی جماعت نے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی ہر ایک بات کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور ہر محاذپر کھل کر مخالفت بھی کی چاہے وہ ناجائز اثاثہ جات ہوں،چاہے بیرون ملک علاج کا مسئلہ ہو،چاہے تعلیم و صحت کی پالیسی ہو،کسی بھی محکمے کا احتجاج کیوں نہ ہوتا ہو پی ٹی آئی نے بھرپور انداز میں شرکت فرمائی مسئلہ چاہے ینگ ڈاکٹرز کا ہو چاہے اسٹیل ملز کا چاہے پی آئی اے کا اور چاہے ریلوے کا ہو،ملکی معیشت میں نقصانات کا بیان اور قرضوں کے حوالے سے جس انداز میں پی ٹی آئی اپنا موقف پیش کرتی رہی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو پی ٹی آئی کی جماعت نے بارہا مرتبہ کہا تھا کہ یہ اسکیم چوروں لیٹروں اور ڈاکوؤں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے متعارف کی گئی ہے کہ وہ اپنا کالا دھن سفید کرسکیں،مہنگائی کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کو دن رات طعنے دیے جاتے تھے،پولیس کے نظام کو کرپٹ اور کرپشن مافیا کہا جاتا رہا ہے اس کی اصلاحات کے بارے میں سینکڑوں مرتبہ دعویٰ کیا جاتارہا ہے عام آدمی کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے دعوے کیے جاتے رہے تھے لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال کو مثالی بنانے کی بات پر زور دیا جاتا رہا انصاف کی فراہمی کو بروقت اور تیزی سے لانے کے وعدے کئے جاتے رہے ہیں ملک میں گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کو غیر ضروری قرار دیا جاتا تھا،بیرون ملک امداد لینے کو بھیک مانگنے کے مترادف کہاجاتاتھا،آئی ایم ایف کے پاس کسی صورت نہ جانے کے دعوے کیے گئے،گم شدہ افرادکی بازیابی اولین ترجیح ہوگی اسٹریٹ کرائم اور دہشت گردی کو ختم کرنے جیسے دعوے سرفہرست ہیں یہ بات درست ہے کہ پی ٹی آئی نے اقتدار سے باہر رہ کربہت اچھے انداز میں تنقید کی اور احتجاج کیا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ موجود ہ پی ٹی آئی کی دور حکومت کی حالت اسی طرح کی ہے جس طرح مصور کی بنائی ہوئی تصویر میں نقص نکالنے والے خود سے کچھ بھی ٹھیک نہ بنا سکے اور آخر کار پہلے سے بنی ہوئی تصویر کو درست کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
قارئین کرام اگر آپ بغور حالات و واقعات کا جائزہ لیں تو محسوس ہو گا کہ موجودہ حکومت بھی وہی حربے استعمال کررہی ہے جو پچھلی حکومتیں کرتی آئی ہیں موجودہ حکومت بیرونی امداد بھی لے رہی ہے اور قرض بھی اور آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے بھی ٹیک رہی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ کڑی شرائط پر قرض مل رہا ہے مہنگائی کا جن بے قابو ہے عام آدمی کے لیے ضروریات زندگی کا حصول بھی انتہائی مشکل ہو رہا ہے،بجلی،گیس،پیٹرول،اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہوچکا ہے۔ہسپتالوں کی حالت ناقص ہے اور کوئی پرسان حال نہیں تعلیمی نظام بھی جوں کا توں ہے پولیس اور دیگر محکموں کے حالات میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی کسی بھی حکومتی ادارے میں کوئی بھی اصلاحات نہیں ہوئیں نو ما ہ کے درمیان کابینہ تبدیل ہو چکی ہے فنانس کے ماہر اسد عمربُری طرح فلاپ ہوچکے ہیں اور موجودہ مشیر خزانہ پیپلز پارٹی کی دور حکومت میں بھی وزیر تھے اور انہوں نے جب سے چارج لیا ہے اس وقت سے روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور ڈالر کی قدر میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے ایسے ماحول میں کو ئی بھی بزنس مین کاروبار کرنے سے کترا رہا ہے ملکی بیورو کریسی نیب کے خوف سے جائز کا م کرنے سے بھی ڈر رہی ہے موجودہ حکومت میں زیادہ تر ایسے ممبران ہیں جو سابقہ حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں ایسے عالم میں نئی تصویر بنا نا ممکن نہیں تو نیا پاکستان کیسے بنے گا؟
وزیراعظم پاکستان دن رات ملک کی بہتری کے لیے محنت کر رہے ہیں اور وہ بڑی حد تک پر امید ہیں کہ جلد ملک کو بحرانوں سے باہر نکال دیں گے خد ا کرے کہ ایسا ہی ہو مگر ان کے ساتھی جو بیان بازی کرتے ہیں اور جس طرح کا ماحول انہوں نے قومی اسمبلی میں بنا رکھا ہے ایسے ماحول میں کیسے قانون سازی ہوگی یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے سو ضرورت اس بات کی ہے کہ برداشت کے عمل کو فروغ دیا جائے اور ایسا ماحول پید ا کیا جائے کہ ملک کی بھلائی اور بہتری ہو ملک کی عوام خوش حال ہو عوام کی مشکلات کم ہوں اور سہولیات میں بہتری لائی جائے ذاتی رنجش کو بھلا کر ملک کے وقار کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے نئے تجربے کرکے مہنگائی اور معشیت کی تباہی سے اجتناب کریں اور اپنے وعدوں اور منشور پر توجہ مرکوز کریں اگر پی ٹی آئی کی حکومت ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنادیں تو یہ واقعی ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کر لیں گے ورنہ دوسری صورت میں یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گے کہ”تصویر میں جو چیز جس انداز میں بنی ہے وہ بالکل درست ہے “

حصہ

جواب چھوڑ دیں