جہیز۔۔معاشرے کا سماجی کینسر

نفسا نفسی کے اس دور میں بہت سے مسائل نے جہاں زندگیوں کو اجیرن کر رکھا ہے وہاں ایک اہم مسئلہ جہیز بھی ہے جو وبا کی طرح پھیل رہا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت دیتا ہے جس کی وجہ سے جہیز جیسی لعنت اور بھی بڑھ گئی ہے۔اسلام سادگی کا دین ہے اور اسلام کی نظر میں عورت کا بہترین جہیز اسکی بہترین تعلیم و تربیت ہے۔ معاشرے میں جہیز کی مکرو روایت کی وجہ سے بیٹیاں بیاہنا آج ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ جہیز کی رسم نے ان غریبوں کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے جو خود دو وقت کی روٹی کے متلاشی ہیں۔ ہمارے آس پاس بہت سی ایسی بچیاں ہیں جو جہیز نہ ہونے کے سبب گھر بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو رہی ہیں۔ کم جہیز کی وجہ سے بھی بچیوں کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ مار پیٹ کے علاوہ انہیں جلایا بھی جاتا ہے اور اب تو ان پہ تیزاب پھینکنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔سلیقہ مند،پڑھی لکھی،خوب رو اور خوب سیرت لڑکیاں بھی قیمتی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے آنکھوں میں دلہن بننے کے خواب سجائے والدین کی چوکھٹ پہ ساری عمر گزار دیتی ہیں اور پھر ایک خاص عمر کے بعد یہ خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیتی ہیں۔ جہیز کے بارے میں سب سے مضبوط دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بھی تو اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضہ اللہ عنہا کو جہیز دیا تھا ہم اس سنت پر عمل کر رہے ہیں۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ آئے جب آپ کا رشتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے طے ہوا تو اس وقت آپ کے پاس ایک تلوار،ایک گھوڑا اور ایک زرہ تھی ۔نبی ﷺ نے حکم دیا کہ وہ زرہ بیچ کر اس کی رقم لے آو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ زرہ خرید لی اور اس کے عوض ملنے والی رقم سے چند گھریلو استعمال کی بنیادی چیزیں جس میں سونے کیلئے بان کی ایک چارپائی،کھجور کی پتیوں سے بھرا ہو چمڑے کا گدا،پانی کا مشکیزہ، ایک چھاگل، مٹی کے دو گھڑ ے اور چکی کے دو پاٹ شامل تھے یعنی اگر جہیز دیا بھی گیا تو وہ شوہر یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زرہ بیچ کر حاصل ہونے والی رقم سے خریدا گیا۔
اگر زرہ نہ بھی بیچی جاتی تو پھر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ، نبی ﷺ کے زیرکفالت تھے یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جہیز کا سامان نبی ﷺ نے بجائے لڑکی کا باپ ہونے کے، لڑکے کا سرپرست ہونے کے ناطے دیا ہو آپ کسی بھی طرح سے اس معاملے کا جائزہ لے لیں، پنجاب اور سندھ میں رائج جہیز کی روایت سراسر غیراسلامی اور غیرشرعی ہے۔
اگر آپ والدین ہیں اللہ پاک نے آپ کو اولاد کی نعمت سے نوازا ہے اب اگر آپ بیٹوں کی شادی پہ جہیز کی تمنا کر رہے ہیں تو بدلے میں جب آپکی بیٹی کی شادی پہ جہیز کے نام پہ قیمتی سامان کی فہرست آپکو تھما دی جائے تو آپ کو کیسا لگے گا؟ آپ کے لیے کتنی مشکل ہو گی؟
چلیے مان لیتے ہیں بیٹی جیسی نعمت آپ کے گھر میں نہیں ہے۔ آپ صرف بیٹوں کے والدین ہیں لہذا ان کی شادی پہ آپ جہیز کی خواہش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف بیٹی کے باپ بھائی جہیز کی وجہ سے پریشان ہوں گے اور وہ بچی جس کی شادی ہے وہ اپنے باپ بھائی کو دیکھ کے پریشان ہوتی ہے۔ اب وہ اپنے ساتھ صرف جہیز نہیں لائے گی بلکہ جہیز کے ساتھ آپ کے لیے نفرت بھی لائے گی۔ آپ کے گھر کا سکون جاتا رہے گا اور وہ اس نفرت کو آپکی آنے والی نسل میں بھی منتقل کرے گی۔ اب آپ سوچیں گے ایسا ہر جگہ نہیں ہوتا مان لیتے ہیں ایسا صرف 5 فیصد لوگوں کے ساتھ ہوتا ہوگا لیکن کل کو آپ بھی تو ان 5 فیصد لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے جہیز کو فروغ دینے میں ان صاحب مال بیٹی والوں کا بھی ہاتھ ہے جو جہیز دیتے وقت کہتے ہیں کہ ہم اپنی خوشی سے دے رہے ہیں خالی ہاتھ تو نہیں بھیجیں گے بیٹی کو دنیا والے کیا کہیں گے بیٹیوں کو دو دو لاکھ کے تو صرف بیڈ دیے جاتے ہیں لیکن اگر ان ہی لوگوں سے مشکل کے وقت کوئی مدد مانگ لے، ان کے پاس پھوٹی کوڑی نہیں ملتی،دکھاوا کرنے کے لیے لاکھوں خرچ کر دیے جاتے ہیں جہیز کو خوشی کا نام دے کر اس لعنت کو فروغ دے رہے ہیں۔شاید انہیں کوئی خاص فرق نہ پڑتا ہو لیکن کسی غریب کی بیٹی اسی جہیز نہ ہونے کے سبب آنکھوں میں شادی کے خواب سجائے باپ کی چوکھٹ پہ دم توڑ دیتی ہے۔پاکستان کا شمار ان خوش نصیب ممالک میں ہوتا ہے جہاں اکثریت نوجوان نسل ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں اگر نوجوان نسل چاہے تو معاشرے سے اس کینسر کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے جسے جہیز کہا جاتا ہے۔
ایک لڑکا ہونے کے ناطے آپ اپنے گھر والوں سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ شادی پہ کوئی جہیز نہیں لیں گے اگر گھر والے آپ کے خیالات سے متفق نہ ہوئے تو صرف شور مچائیں گے لیکن کچھ کر نہ سکیں گے،اگر آپ اس سسٹم سے بغاوت کریں گے تو ہی اس لعنت سے نجات پائیں گے، اب سوال یہ ہے کہ بیٹا تو یہ سب کہہ سکتا ہے لیکن ایک بیٹی تو نہیں کہہ سکتی کہ وہ شادی وہاں کرے گی جو جہیز نہیں لے گا، جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں ایک بیٹی کا اپنے لیے ایسا کہنا کافی مشکل ہے لیکن اس کے گھر میں اس کے وہ رشتے بھی موجود ہیں جو اس سے محبت کرتے ہیں اس کی بات غور سے سنتے ہیں وہ اپنے بھائی،چچا اور ماموں کے لیے تو کہہ سکتی ہے کہ وہ بغیر جہیز کے شادی کریں ضروری نہیں ہر ایک کو اس میں کامیابی ملے لیکن اگر 5 فیصد بھی کامیابی ملے تو یہ ابتدا ہے۔اس تمام معاملے میں اس بیٹی کا بھی سوچیں جو آئے دن مہمانوں کی چبھتی نظروں کا سامنا کرتی ہے اور جہیز کے نام پہ بکنے والی لڑکی سسرال جا کے خوش رہے گی اس بات کی کیا گارنٹی ہے؟؟؟یقیناً ایسے لالچی لوگوں کا پیٹ کبھی نہیں بھر سکتا۔پاکستانی معاشرے میں تبدیلی آ سکتی ہے اگر نوجوان نسل اور انکے والدین چاہیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں اس سلسلے میں حکومت کوئی مدد نہیں کرے گی نہ ہی اس کو جہیز کی لعنت ختم کرنے میں کوئی دلچسپی ہے۔
تو آئیے! عہد کرتے ہیں جہاں تک ممکن ہو ہم معاشرے کو اس سماجی کینسر سے پاک کریں گے تا کہ ہم بھی ایسے معاشرے کا قیام عمل میں لا سکیں جس میں جہیز کی لعنت کا کوئی وجود نا ہو_!

حصہ

1 تبصرہ

  1. بہترین تحریر۔۔ یہ بات تو ہے کہ سب کو مل کر اس بیماری کے خلاف لڑنا ہے، جہاد کرنا ہے۔ قافلہ بنے گا توہی کچھ ہوگا۔۔ اِن شاء اللہ!!

    اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔۔

Leave a Reply to زارا رضوان