مولانا طارق جمیل، ریاست مدینہ اور عمران خان

اسلام کی تہذیبی کائنات میں علما کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علما انبیا کے وارث ہیں۔ اس بات کو مزید توسیع دی جائے تو کہا جائے گا کہ اسلامی معاشرہ اپنی اصل میں علم مرکز معاشرہ ہے۔ چناں چہ اس معاشرے میں علما کو لازماً محوری حیثیت حاصل ہوگی۔ مگر غلامی کے طویل تجربے نے مسلم دنیا میں علما کی مرکزیت کو بری طرح متاثر کیا۔ اس مرکزیت کے متاثر ہونے سے جو تجربہ خلق ہوا اس میں علم اور سیاست کے مابین جدائی ہوگئی۔ سیاست جدید تعلیم یافتہ طبقے کے ہاتھ میں آگئی اور علما مدارس اور مذہبی زندگی تک محدود ہوگئے۔ المناک بات یہ ہوئی کہ علما نے قوم کی سیاسی زندگی میں اپنی مرکزیت پر اصرار ترک کردیا اور اپنے ثانوی کردار پر قناعت کرلی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہماری سیاست اخلاقیات ہی سے نہیں علم سے بھی بے نیاز ہوگئی ہے۔ اب اس کے تن میں صرف طاقت اور سرمائے کا خون دوڑ رہا ہے۔ عہد حاضر میں مولانا مودودی وہ پہلے بڑے عالم ہیں جنہوں نے ایک جانب اسلام کو مکمل ضابطہ حیات قرار دیا اور دوسری جانب اقتدار پر اخلاق و کردار اور علم کے غلبے کو ممکن بنانے کے لیے جماعت اسلامی قائم کی۔ خوش قسمتی سے مسلم دنیا کے عوام اور پڑھے لکھے طبقات پر مولانا کی فکر اور جدوجہد کا گہرا اثر مرتب ہوا ہے مگر بدقسمتی سے علما کی عظیم اکثریت ابھی تک سیاست کی جانب پیٹھ کیے کھڑی ہے۔

اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بعض علما سیاست پر کلام کرتے بھی ہیں تو ان کا مرکز نگاہ ایسا شخص ہوتا ہے جس کا اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور علم کی روایت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کی تازہ ترین مثال معروف مبلغ مولانا طارق جمیل ہیں۔ انہوں نے جیو کے پروگرام جرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے ایک جانب یہ فرمایا کہ وہ نہ ’’سیاسی‘‘ ہیں اور نہ ان کا سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ ہے۔ دوسری جانب انہوں نے فرمایا کہ عمران خان سے مایوس نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ عمران میں خلوص بھی پایا جاتا ہے اور ان میں محنت کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان پہلا شخص ہے جس نے ریاست مدینہ کا نام لیا ہے۔ چناں چہ ہم اس کا ساتھ دیں گے۔ مولانا نے کہا کہ نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی نے تو کبھی ریاست مدینہ کا نام نہیں لیا۔ (جنگ کراچی۔ 19 مئی 2019ء)

دین اور دنیا کی تفریق سیکولر ازم کا نعرہ ہے اور مولانا طارق جمیل سیکولر نہیں ہیں مگر اس کے باوجود بھی وہ فرمارہے ہیں کہ میرا سیاست سے کوئی تعلق ہے اور نہ میں سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہوں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دوسری جانب وہ عمران خان کی پشت پناہی یہ کہہ کر کررہے ہیں کہ وہ ریاست مدینہ کا ذکر کرنے والے پہلے سیاست دان ہیں۔ ریاست مدینہ رسول اکرمؐ کی قائم کردہ ریاست تھی اور اس سے ثابت ہے کہ اسلام میں دین اور سیاست کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ ہوتی تو رسول اکرمؐ ریاست مدینہ کیوں قائم کرتے؟۔ چوں کہ رسول اکرمؐ نے ریاست مدینہ قائم کردی اس لیے اب قیامت تک ہر مسلمان بالخصوص علما پر فرض ہوگیا کہ وہ قیامت تک ریاست مدینہ کے ماڈل کو اپنانے اور اسے حقیقت بنانے کی جدوجہد کریں۔ مگر مولانا طارق جمیل سیاست سے اس طرح اجتناب فرما رہے ہیں جیسے معاذ اللہ سیاست کوئی بہت ہی گھٹیا کام ہو۔ تو کیا یہ کہہ کر مولانا طارق جمیل رسول اکرمؐ کی سنت اور سیرت کی تحقیر کے مرتکب نہیں ہورہے کہ میں نہ سیاسی ہوں نہ میرا سیاست میں آنے کا ارادہ ہے؟۔ ارے صاحب جو کام رسول اکرمؐ نے کیا ہو وہ معمولی کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ کیا بات ہے کہ مولانا طارق جمیل ڈاڑھی رکھنے میں تو سنت کا اتباع کرتے ہیں مگر ریاست اور سیاست کے سلسلے میں رسول اکرمؐ کی عظیم الشان سنت کا اتباع نہیں کرنا چاہتے۔ کیا یہ بات کسی مبلغ اور عالم دین کے شایان شان ہے؟۔

کتنی عجیب بات ہے کہ مولانا مبلغ اور عالم دین ہیں اور عمران خان نہ مبلغ ہیں اور نہ وہ عالم دین ہیں مگر مولانا طارق جمیل ریاست مدینہ کا عظیم الشان کام خود کرنے کے بجائے اس کام کو out source کرکے اسے عمران خان کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ اصول ہے۔ جس کا کام اس کو اُسی کو ساجے اور کرے تو مورکھ باجے۔ یعنی جس کا کام ہوتا ہے اس پر سجتا ہے، وہی کام کوئی اور کرے تو احمق کہلاتا ہے۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ مولانا طارق جمیل کو سابق کرکٹر عمران خان میں ریاست مدینہ کے حوالے سے امکانات ہی امکانات نظر آرہے ہیں اور خود مولانا طارق جمیل صاحب علم و عمل ہوتے ہوئے بھی اپنی شخصیت کے امکانات سے مایوس ہیں۔ اقبال کا شعر ہے۔

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی

مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

بلاشبہ عمران خان عوام میں مقبول ہیں مگر مولانا طرق جمیل بھی عوام میں کم مقبول نہیں۔ عمران خان سیاسی اسٹار ہیں تو مولانا طارق جمیل ’’مذہبی اسٹار‘‘ ہیں۔ مولانا ذرا سی کوشش کریںگے تو اللہ برکت دے گا اور مولانا عمران خان سے بھی زیادہ مقبول ہوجائیں گے۔ چناں چہ مولانا کو چاہیے کہ وہ عمران خان کے مقلد بننے کے بجائے عمران خان کے قائد بنیں۔ اسلامی معاشرے میں علما کا اصل مقام یہی ہے۔ علما قیادت کے لیے ہیں کسی ایرے سے غیرے نتھو خیرے کے پیچھے چلنے کے لیے نہیں۔ عام زندگی میں بھی علم ہی رہنما ہوتا ہے اور کم علمی یا جہالت علم کی پیروی کرتی ہے مگر بدقسمتی سے علمائے وقت کی عظیم اکثریت میں سے کوئی اسٹیبلشمنٹ کا مقلد بنا ہوا ہے، کوئی نواز شریف کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے۔ کوئی عمران خان زندہ باد کا نعرہ لگا رہا ہے۔ ہماری گناہ گار آنکھوں نے تو یہ منظر تک دیکھا ہے کہ علما بھٹو خاندان اور الطاف حسین کے پیچھے سر جھکائے چل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے علما پر مہربانی کرتے ہوئے انہیں کیا بلند مقام عطا کیا ہوا ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں۔

مولانا طارق جمیل نے بالکل درست فرمایا ہے کہ میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی نے کبھی ریاست مدینہ کا نام نہیں لیا مگر عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا طارق جمیل نے کبھی میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کی حمایت نہیں کی مگر ریاست مدینہ کے حوالے سے وہ عمران خان کی حمایت کررہے ہیں۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ مولانا کا مسئلہ طاقت نہیں ریاست مدینہ کی محبت ہے۔ علما کو ایسا ہی ہونا چاہیے، مگر یہاں ایک مسئلہ ہے۔ پاکستان میں ریاست مدینہ کا تصور عمران خان کی ’’ایجاد‘‘ نہیں بلکہ عمران خان سے بہت پہلے جماعت اسلامی اپنے انتخابی منشور میں پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ڈھالنے کا نعرہ بلند کرچکی ہے۔ اتفاق سے ریاست مدینہ کا تصور جماعت اسلامی کا صرف نعرہ نہیں ہے بلکہ جماعت اسلامی کا دستور صاف الفاظ میں جس ریاست کا تصور پیش کرتا ہے وہ نام کے بغیر ریاست مدینہ ہی ہے۔ مولانا طارق جمیل نے آج تک جماعت اسلامی کی حمایت نہیں کی۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ عمران خان ریاست مدینہ کی بات کریں تو مولانا ان کی حمایت کرتے ہیں مگر جماعت اسلامی ریاست مدینہ کی بات کرے تو مولانا اس کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ حالاں کہ ریاست مدینہ کے سلسلے میں جماعت اسلامی کا دعویٰ عمران خان سے لاکھوں گنا زیادہ قابل اعتبار نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ

ریاست مدینہ کے سلسلے میں عمران خان کا دعویٰ صرف ایک فرد کا دعویٰ ہے مگر ریاست مدینہ کے سلسلے میں جماعت اسلامی کا دعویٰ ایک جماعت کا دعویٰ ہے۔ اس سلسلے کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ عمران خان کی سیاسی زندگی میں دین کے غلبے کی جدوجہد کا کوئی سراغ نہیں ملتا اس کے برعکس جماعت اسلامی کی جدوجہد پہلے دن سے آج تک غلبہ اسلام کی جدوجہد ہے۔ مگر جماعت اسلامی میں بہرحال دو بڑے عیب ہیں۔ ایک یہ کہ جماعت اسلامی کبھی اقتدار میں نہیں آئی۔ اس کا دوسر اعیب یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی ’’ڈارلنگ‘‘ نہیں ہے۔ عمران خان میں کوئی اور خوبی ہو یا نہ ہو دو خوبیاں ضرور ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بہرحال اقتدار میں ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں اسٹیبلشمنٹ کی ’’ڈارلنگ‘‘ ہیں۔ عمران خان کی یہ خوبیاں ہم جیسے لوگوں کو نظر آتی ہوں گی تو مولانا طارق جمیل کو بھی ضرور نظر آتی ہوں گی۔

مولانا طارق جمیل پر گفتگو کے حوالے سے ہمیں یاد آیا کہ گزشتہ دنوں ہمارے دو ممتاز علما کا ایک بڑا اہم بیان اخبارات میں شائع ہوا۔ مفتی تقی عثمانی کے روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہونے والے ایک بیان کے مطابق مفتی صاحب نے فرمایا ’’موجودہ صورت حال میں نفع کمانے کے لیے ڈالر خریدنا ملک کے ساتھ بے وفائی اور ذخیرہ اندوزی کی بنا پر گناہ ہے‘‘۔ مفتی منیب الرحمن صاحب نے فرمایا ہے کہ ’’ڈالر کی ذخیرہ اندوزی شریعت کی رو سے منع ہے‘‘۔ مفتی صاحب نے اس سلسلے میں ایک حدیث پاک کا بھی حوالہ دیا جس میں حضور اکرمؐ نے فرمایا ہے ’’ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے‘‘۔ یہ دونوں بیانات اپنی روح میں بیک وقت مذہبی بھی ہیں اور سیاسی بھی، اس لیے کہ ان دونوں بیانات میں مذہبی احکامات کا اطلاق معاشی معاملے پر کیا گیا ہے جسے اب انگریزی اصطلاح میں Political Economy بھی کہا جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے بڑے علما اس بات پر بھی بیان دیں کہ قرآن سود کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ قرار دیتا ہے مگر پاکستان کا حکمران طبقہ ملک میں ایک پالیسی کی حیثیت سے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہمارا جدید تعلیمی نظام ملک میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے نوجوان پیدا کررہا ہے جو مذہب بیزار ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ نے ملک میں عریانی و فحاشی کا سیلاب برپا کیا ہوا ہے۔ قوم ان حوالوں سے علما کی طرف رہنمائی اور مزاحمت کے لیے دیکھتی ہے اور مایوس ہوتی ہے اس لیے کہ علما ان معاملات پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے اس خاموشی کا کوئی جواز نہیں تو کیا یہ خاموشی سیاسی ہے؟۔

حصہ
mm
شاہنواز فاروقی پاکستان کے ایک مقبول اورمعروف کالم نگار ہیں۔ آج کل جسارت کے کالم نگار اور ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کے اسٹاف رائیٹر ہیں۔ ان کے موضوعات میں زبان، ادب، شاعری، تنقیدکے ساتھ برصغیر کی تاریخ وتہذیب، عالمی، قومی اور علاقائی سیاست ، تعلیم، معیشت، صحافت، تاریخ اور سماجی مسائل شامل ہیں۔ اسلام اورمغرب کی آ ویزش اور امت مسلمہ کے ماضی وحال اور مستقبل کے امکانات کا مطالعہ ان کا خصوصی موضوع ہے۔ اس کے علاوہ سوشلزم اور سیکولرازم پر بھی ان کی بے شمار تحریریں ہیں۔ فاروقی صاحب ’’علم ٹی وی‘‘ پر ایک ٹاک شو ’’مکالمہ‘‘ کی میزبانی بھی کرتے رہے ہیں۔ شاہنوازفاروقی اظہار خیال اور ضمیر کی آزادی پر کسی سمجھوتے کے قائل نہیں ہیں۔

4 تبصرے

  1. فاروقی صاحب کا تجزیہ لا جواب ہے۔طارق جمیل صاحب کے بارے میں انکا تبصرہ انتہائی محتاط انداز کاہے۔لیکن مجموعی طور جو تصویر مولانا صاحب کے بارے میں ابھرتی ہے تو یوں لگتا ہے کہطارق جمیل صاحب ابنالوقتی کے اسیر ہیں یا مفادات کے پیرو ہیں۔واللہ اعلم۔

  2. شاہنواز صاحب ہمارے مزہبی حلقے نے اور بالخصوص تبلیغی جماعت کے دوستوں نے جو اکابر پرست ہیں اور دماغی صلاحیت اور سوچنے کی طاقت سے محروم انھوں نے اس کالم پر تو غور کرنا نہیں البتہ آپ ہر فتویٰ ضرور صادر کرنا ہے ۔جماعت اسلامی تو دور انھوں نے جو کروڑوں کی تعداد میں ہیں اگر کبھی سیکولر بے دین پارٹیوں کو چھوڑ کر مولانا فضل الرحمان جو خود بھی انکے ہم مسلک ہیں انکو ووٹ دیا ہوتا تو نوبت آج ایسی نہ آتی۔انکے دین کا فیہم کیسا ہے جو دینی جماعتوں کو چھوڑ کر یہ ن لیگ ۔پیپلزپارٹی، تحریک انصاف جیسی شخصی، موروثی وبے دین پارٹیوں کو یہ ووٹ دیتے ہیں اور سپورٹ بھی کرتے ہ۔

  3. ماشاءاللہ زبردست!
    یہ تحریر حالات کے تناظر میں مولانا طارق جمیل صاحب کیلیے ایک بہترین مشورہ ثابت ہو سکتی ہے اگر وہ اس تحریر کو غیر جانبدار اور مثبت انداز سے لیں۔

Leave a Reply to ہارون افشار