عام آدمی اور بجٹ کا بار

نئے مالیاتی سال کا بجٹ امید ہے کہ ۱۱جون کو پیش کر دیا جائے گا ۔ ایسے میں جبکہ ڈالر اور روپئے کی نورا کشتی اور پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے گرانی میں ریکارڈ اضافہ کیا ہے اس پر مستزاد  گیس اور بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ کے مژدے نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، مشیر خزانہ کا فرمانا ہے کہ عوام مراعات کی توقع نہ رکھے۔ ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے مشکل فیصلے  کر رہے ہیں ۔ان کو یہ بھی کہنا چاہیئے تھا کہ یہ تمام مشکل فیصلے عوام ہی کو جھیلنے ہوں گے ۔ کیونکہ خواص کا کام صرف کھا کر ڈکار لینا ہے ۔

     اس سے قبل ۲۹ مئی کو  قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی پچھلے نو ماہ کی کوششوں کا مقصد ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا اور ورثے میں ملنے والے اس غیر معمولی معاشی بحران سے نکالنا تھا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یہ حقیقت ہے کہ معاشی بحران  آج کا نہیں بلکہ پچھلی حکومتیں بھی اس میں برابر کی شریک ہیں ۔ لیکن اس امر کا اندازہ تو انھیں برسر اقتدار آنے سے قبل ہی ہو چکا ہو گا کہ ملک اقتصادی لحاظ سے کس صوت حال سے دوچار ہے ۔ وہ کچھ نعروں، خوابوں  اور منصوبوں کے ساتھ مسند اقتدار پر فائز ہوئے  بہت سے گرانقدر خیالات اور نظریات کے حامل تھے مگر وہ پچھلے نو ماہ میں اپنے ایک اہم نکتہءعمل کرپشن و بد عنوانی کے خلاف ہی کچھ اقدامات ہی نہ کر پائے اگرکشکول لے کر دنیا بھر میں پھرنے کی بجائے دو چار کو الٹا لٹکا کر کچھ ارب نکلوا لئے جاتے تو ملکی خزانے کی اچھی خاصی  تو تسکین ہوجاتی ۔

     آئی ایم ایف سے معاہدے پر  جہاں دیگر اپوزیشن جماعتیں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں وہیں گرانی کی زبردست لہر اور مزید مہنگائی کی نویدوں نے عوام الناس کو بھی  ہراسان کر رکھا ہے ۔ کاروباری طبقہ الگ بے یقینی کا شکار ہے ،اسٹاک مارکیٹ کی زبوں حالی نے سرمایہ کاروں کے حوصلے پست کر رکھے ہیں ۔ روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 45 فی صد تو ڈی ویلیو ہو چکی۔اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد روپے کی قدر کو ڈالر کے مقابلے میں مزید گرایا جائے گا ۔ بجلی ، گیس اورپیٹرول کی قیمتوں کی بھی یہ صورت حال ہے  کہ ان کو بڑھایا جائے گا۔   سیلز ٹیکس کو کم کر کے 2 تا  4 فی صد پر لایا جائے گا جبکہ اس کی جگہ14فی صد  ویلیو ایڈڈ ٹیکس لگایا جائے گا۔  غرض یہ کہ اس معاہدے کو خفیہ رکھ کر حکومت مختلف قیاس آرائیوں اور تبصرہ آرائیوں کی راہ ہموار کر کے بے یقینی کی فضا کوجنم دے رہی ہے ۔

        ٹیکسز کی مد میں ایف بی آر نے دہائی دی ہے کہ  صرف ایک فی صد ٹیکس دہندگان نے پوری ریاست کو سنبھالا ہوا ہے ۔ یہ صورت حال یقینی طور پر انتہائی تشویشناک ہے ۔ان ایک فیصد ٹیکس دہندگان میں بھی بڑی تعداد ایسے ملازمت پیشہ افراد کی ہے جن کی تنخواہوں میں سے ہی انکم ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے ۔ اگر ٹیکسز میں اضافہ کیا جاتاہےتو ان ایک فیصد ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ پڑے گا   ۔ خود عمران خان نے اپنے انتخابی منشور میں ٹیکس جمع کرنے کے نظام میں بہتری اور ٹیکس ادا نہ کرنے والے بڑے اداروں کی ٹیکس چوری کو روکنے کے ساتھ ساتھ پچھلی ادا نہ کی  ہوئی رقم واپس لینے کا بھی وعدہ کیا تھا ۔  اگر چہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو لایا گیا ہے  جس کو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم قرار دیا جا رہا ہے اور جس سے عمران خان نے نان ٹیکس فائلرز کو فائدہ اٹھانے کی اپیل بھی کی ہے ، لیکن ابھی تک اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ بر آمد ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ایف بی آر  جن کے نئے سربراہ کا تقرر  ہی آئی ایم ایف کی ایماء پر ہوا ہے ٹیکس جمع کرنے کے اس نظام کو ہی ناقص قرار دیا ہے اور صاف کہا ہے کہ یہ “نظام  آنے والی نسلوں کے لئے پائیدار نہیں”۔ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنے کے لئے   بہتریہ ہے کہ بڑے اداروں کو ٹیکسز دینے پر آمادہ  کیا جائے اور  چھوٹے موٹے کاروباری حضرات پر بوجھ نہ  ڈالا جائے۔

 علاوہ ازیں قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں جی ڈی پی کا ہدف 4فیصد اور زراعت کی ترقی کا ہدف5 فی صد طے گیا ہے ۔ لیکن  سوال یہ ہے کہ کیا ڈالر کی بڑھتی ہوئی  اور  روپے کی گرتی ہوئی قدر میں ایسا ہونا ممکن ہے ؟؟؟ کیا ایسے میں پاکستانی مصنوعات غیرملکی مصنوعات کا مقابلہ کر پائیں گی ؟ اور کیا مہنگے داموں زرعی کھاد و ادویات خرید کر زرعی پیداوار بڑھا ئی جا سکتی ہے ۔ ؟

        بجلی اور گیس کے بڑھتے ہوئے نرخوں اورہر کچھ دن بعد  پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ  مشیر خزانہ کےبجٹ سے قبل ارشادات نے عام آدمی کو ، جو  گذشتہ سات عشروں سے کچھ اچھا ہونے کی تمنا کرتا چلا آرہا ہے سوچنے پر مجبور کر دیا  ہے کہ آخر کب تک وہ   وسائل پر قابض اشرافیہ کی نا اہلی،  ہوس زر اور استحصالی ہتھکنڈوں کا باراٹھاتا رہے گا۔

حصہ

1 تبصرہ

  1. بہت ا چھی طرح بجٹ کو واضع طور پر آپ نے ہمارے سامنے رکھا….. یہ سوالیہ نشان ہم سب کے لیے ہے کہ اس بجٹ سے کیا عوام کے مسائل حل ہوجائیں گیں…؟؟

Leave a Reply to عالیہ اسجد