حکومت بجٹ بنائے مولاجٹ نہ بنے

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اسمبلی میں آج یعنی منگل، جون 11، 2019 کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا جا رہا ہے۔ نئے بجٹ میں محصولاتی آمدنی میں اضافے، ادائیگیوں کے توازن میں بہتری اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کرنے پر توجہ مرکوز رہے گی۔

پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ بجٹ میں جن جن مدات کا ذکر کر کے اخراجات کا تخمینہ لگایا جاتا ہے، اس کے اخراجات حکومت کو حاصل ہونے والی آمدنی سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اُن زائد اخراجات کو پورا کرنے کیلئے کچھ تو نئے لگائے جانے والے ٹیکسوں سے ہونے والی متوقع آمدنی کو اصل آمدنی تصور کر لیا جاتا ہے اور کچھ اس امید پر کہ بہت کچھ قرضوں کی صورت میں مل جائے گا یا دنیا ہماری مدد کردے گی، پر انحصار کرکے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہم اپنے سارے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں ایک مرتبہ بھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ پاکستان نے اپنی ہونے والی اصل آمدنی کے مطابق اپنے آمد و خرچ کو سامنے رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کی ہو۔

گزشتہ برسوں کی طرح امسال بھی بجٹ کا تخمینہ تقریباً 7000 ارب روپے لگایا جارہا ہے جبکہ پاکستان کی اپنی آمدنی 7 ہزار ارب روپوں سے کہیں کم ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے پہلے سے عائد ٹیکسوں کی مد میں تقریباً 8 سو ارب روپوں کے نئے ٹیکس لگائے جانے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے گویا امسال بھی ٹیکسوں کا یہ بھاری بوجھ بھی عام عوام پر ہی ڈالا جائے گا جبکہ عوام سے کہا یہ گیا تھا کہ ان کی زندگی کو آسان بنایا جائے گا اور مہنگائی کے پہاڑ کے بوجھ سے ان کو نکال کر خوشحالی کی منزل کی جانب گامزن کیا جائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مرتبہ پاکستان کی افواج نے رضاکارانہ طور پر کسی بھی قسم کا اضافی بجٹ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے جس سے موجودہ حکومت کو کافی مدد ملے گی لیکن جو بات دیکھنے میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے حکومتی اخراجات میں کمی کرنے کے دعوؤں کے اعلانات کے باوجود ان کے اخراجات میں گزشتہ حکومتوں کے اخراجات کے مقابلے میں بے پناہ اضافہ تو ہوا ہے، کمی کہیں دیکھنے کو نہیں ملی۔

پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ خیالی پلاؤ پکانے کی مثال کی طرح ہر قسم کا ہدف مقرر کرتے ہوئے یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ جیسے نہ صرف ہدف 100 فیصد حاصل ہوجائے گا بلکہ ہدف سے کچھ زیادہ آمدنی بھی حاصل ہو جائے گی جبکہ پاکستان کی ساری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان آمدنی کی مد میں جو جو بھی اہداف مقرر کرتا چلا آیا ہے، آمدن ہمیشہ اس سے کہیں کم رہی ہے۔ امسال بھی ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5550 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس ملک کے کل بجٹ کا تخمینہ 7000 ارب روپے رکھا گیا ہو اور اس کا انحصار ایف بی آر پر ہی ہو، اس ملک کی اقتصادی صورت حال کی زبوں حالی کا کیا حال ہوگا۔ حکومتیں وہی مضبوط اقتصادی پالیسیاں بنا سکتی ہیں جن کے اپنے بنائے منصوبے اور ذرائع حکومت کو آمدنیاں فراہم کر رہے ہوں۔ حکومت کے تحت پاکستان میں جتنے بھی ادارے ہیں یا حکومت وقت نے جن جن اداروں کو اپنی ذاتی جائیدادیں سمجھ کر قومیالیاتھا، وہ سب نہ صرف تباہی و بربادی کا شکار ہیں بلکہ وہ سب کے سب حکومت کیلئے سفید ہاتھی بنے ہوئے ہیں اور عوام پر لگائے جانے والے ٹیکسوں سے وصول ہونے والی آمدنیوں کو ان میں ایندھن کی طرح جھونکا جارہا ہے۔ پی آئی اے، پاکستان اسٹیل، واپڈا، پاکستان ریلوے، پاکستان پوسٹ، ٹی اینڈ ٹی، ملیں کارخانے اور تمام قومیائے گئے تعلیمی ادارے اس کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ سب ادارے حکومت کو آمدنی فراہم کرنے کی بجائے حکومت کی چھاتی پر مونگ دلنے کے علاوہ اور کسی کام کے نہیں۔ ان سب اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں تک کی ادائیگی عوام کے ٹیکسوں سے کی جاتی ہے۔ اداروں کو قومیائے جانے کی پالیسی پہلے زخم پھر پھوڑا، پھر ناسور اور اب کینسر بن چکی ہے۔ ہر آنے والی حکومت نے جب جب بھی ان زخموں کر کریدنے اور ان کو فروخت کرنے کی کوشش کی یہ سب کے سب چاروں جانب سے پھوٹ بہے اور اب تک ساری حکومتوں کو اپنے فیصلے واپس لینے پڑے۔ موجودہ حکومت نے بھی کل اپنی کانفرنس میں ان پھوڑوں، ناسوروں اور کینسر کے غدودوں سے نجات کا اعلان کیا ہے لیکن انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ماضی میں جس جس حکومت نے ان ناسوروں کے آپریشن کا آغاز کیا وہ سب ان کے مواد میں بہہ گئیں اس لئے مجھے یقین ہے کہ موجودہ حکومت کے اعلانات بھی دل کے پھپھولے پھوڑنے کے علاوہ اور کچھ ثابت نہ ہونگے۔

ہمیشہ کی طرح ہر حکومت کو پچھلی حکومتوں سے گلہ ہی رہتا ہے۔ اس حکومت نے بھی پچھلی حکومت کے لئے گئے قرضوں پر لگائے گئے سود کی مد میں 2500 ارب روپے مختص کئے ہیں جو ایک بہت بھاری رقم ہے لیکن اسے یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسا ہر حکومت کرتی رہی ہے بالکل اسی طرح جیسے موجودہ حکومت کے لئے گئے قرضوں کا سود اور قرضوں کی اقساط نئی قائم ہونے والی حکومت کرتی دکھائی دے گی۔

گزشتہ کل پاکستان اور موجودہ حکومت کیلئے کوئی اچھا دن ثابت نہیں ہوا کیونکہ کل وزیراعظم کے مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے اسلام آباد میں جب معاشی سال 19-2018 کی اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کی تو کہیں کوئی مثبت چیز نظر نہیں آئی۔ ان کی رپورٹ میں رواں مالی سال معاشی ترقی کا ہدف 6.2 فیصد تھا لیکن معاشی ترقی اس کا نصف یعنی 3.3 فیصد رہی۔ اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال زرعی شعبے کی شرح نمو 0.85 فیصد رہی جب کہ زرعی شعبے کی شرح نمو کا ہدف 3.8 فیصد تھا۔ صنعت کا شعبہ بُری طرح متاثر نظر آیا، اس شعبے میں ترقی کا ہدف تو 7.6 فیصد رکھا گیا تھا مگر شرح نمو محض 1.4 فیصد رہی۔ اسی طرح خدمات کے شعبے کی ترقی کی شرح 4.71 فیصد رہی تاہم خدمات کے شعبے کی ترقی کا ہدف 6.5 فیصد تھا۔ حسب روایت انھوں نے اس سارے خساروں کا ذمہ دار گزشتہ حکومتوں ٹھہرایا لیکن وہ اس بات کو بھول گئے کہ وہ خود بھی گزشتہ حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ برآمدات 20 ارب ڈالر پر منجمد ہیں، گذشتہ حکومت کے دور میں تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر جبکہ سنہ 2018 میں قرضہ 31 ارب تک پہنچ گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ رواں سال وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اعلان کردہ ٹیکس ایمنسٹی ا سکیم کو نہایت اہم سمجھا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز، بجٹ پیش ہونے سے صرف چند گھنٹوں قبل، وزیر اعظم عمران خان نے قوم کے نام ایک اہم پیغام میں اپنے پچھلے پیغام “ٹیکس ایمنسٹی اسکیم (لوٹی ہوئی حرام دولت کو حلال کرنے کی اسکیم)” کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کیا اور حرام خوروں سے کہا کہ دولت کو حلال کروالو۔ ساتھ ہی ساتھ بین السطور دھمکی بھی دی کہ “تم سب بیرون ملک پاکستانیوں کے متعلق ہمارے پاس بہت سی معلومات ہیں، پاکستانیوں کے بینک اکاؤنٹس کی معلومات آرہی ہیں جو پہلے کبھی کسی حکومت کے پاس نہیں تھیں”، اس بحث سے ہٹ کر کہ ان کے خلاف سخت کارروائیوں کی بجائے محض چند فیصد لے کر ان کی ساری حرامخوریوں کو معاف کرنا عین انصاف ہے یا نہیں، جو بات اب تک سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی اسکیم کی مد میں ایک روپیہ بھی بینک میں نہیں آیا ہے جبکہ مدت ختم ہونے میں 19 دن ہی رہ گئے ہیں۔

ایک جانب آج بجٹ پیش ہونا ہے، دوسری جانب آئی ایف کی کڑی شرائط ہیں، مہنگائی جن کی صورت میں اپنا حجم بڑھاتی جارہی ہے، نئے ٹیکسوں کی وجہ سے سرمایا کار باہر بھاگے جارہے ہیں، ڈالر کی پرواز اونچی سے اونچی ہوتی جارہی ہے اور اسٹاک مارکیٹ کریش ہونے کے قریب ہے، ایسی صورت حال میں ملک میں سیای حدت کو بڑھ جانے اور مخالفین کی مختلف بہانے گرفتاریاں حکومت کیلئے ایک بہت بڑا عذاب ثابت ہو سکتی ہیں اس لئے حکومت کو چومکھی لڑنے کی بجائے حکمت عملی سے کام لینا چاہیے۔ حکومتی اخراجات میں کمی کرنی چاہیے اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھانے کی بجائے ان کی مشکلات میں کمی کا سوچنا چاہیے۔  اس ناگفتہ بہہ صورت حال کا کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور مشکلات میں گھرے عوام کو کوئی بھی اپنے مقاصد کیلئے گھیر سکتا ہے۔ امید ہے کہ تلخیوں کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی اور احتساب کو یا تو حکومت اور اسٹبلشمنٹ مخالفین سے ہٹا کر سب کیلئے یکساں کر دیا جائے یا اسے مؤخر کرکے حالات کو سازگار بنایا جائے، بصورت دیگر ملک دشمن عناصر (اندرونی و بیرونی) ان حالات کا ہر صورت میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے جو ریاست کے لئے کہیں سے بھی اچھا نہیں ہوگا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں