ادارے کامیاب کیوں ہوتے ہیں؟‎

ایک ادارے کے مالک نے اپنی کمپنی میں ایچ -آر مینیجر رکھنے کا فیصلہ کیا۔جب اس کے تمام معاملات نچلی سطح سے فائنل ہو گئے تو اس نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانے پر بلا کر اسے اپائنٹمنٹ لیٹر دینے کا فیصلہ کیا، یہی اس کمپنی اور اس کے سربراہ کا طریقہ کار تھا۔ جب دونوں کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گئے اور جیسے ہی کھانا آیا تو اپائنٹمنٹ کے لیے آنے والے مینجر نے کھانا چکھے بغیر اس میں نمک ڈال دیا۔ کمپنی کے مالک نے غور سے اس کی اس حرکت کو نوٹ کیا، کھانا کھایا اور لیٹر دئیے بغیر خدا حافظ کہہ کر ہوٹل سے نکل گیا۔

 اگلے دن اس نے سیکریٹری کو بلایا اور کہا کہ “ان صاحب سے معذرت کرلو، ہم انہیں نوکری نہیں دے سکتے”۔ سیکریٹری نے حیران ہو کر پوچھا لیکن سر کیوں؟ مالک نے رات ہوٹل میں ہونے  والا واقعہ سنادیا۔ سیکریٹری نے مزید حیرت سے پوچھا سر! آپ اتنی سی بات پر اسے اپائنٹ نہیں کریں گے؟ مالک نے اوپر سے لے کر نیچے تک سیکریٹری کو دیکھا اور بولا “اگر تمہارے لیے یہ اتنی سی بات ہے تو پھر تم بھی کل سے مت آنا، جو شخص کھانا کھائے اور اسے زبان پر رکھے بغیر یہ فیصلہ کرلے کہ اس میں نمک کم ہے یا زیادہ وہ میرے ادارے میں آنے کے بعد معاملات کو دیکھے اور سمجھے بغیر نہ جانے کیا کیا فیصلے کرے گا، اس لئے میں ایسے شخص کو ایچ -آر مینیجر نہیں رکھ سکتا”۔

تھامس اسٹینلے سیلف ہیلپ اور لیڈر شپ کے میدان میں ایک بہت بڑا نام ہے۔ اس نےاپنی ایک کتاب میں دنیا کے بڑے لیڈرز اور ملینرزکے بارے میں 30 حقائق جمع کئے اور ان میں سب سے پہلا نمبر جس حقیقت کو دیا ہے، وہ یہ ہے کہ تمام بڑے بڑے اداروں کے سربراہان اپنے نیچے کام کرنے والوں کو اپنی اولاد سے زیادہ عزت دیتے ہیں۔

 آپ دنیا کے کسی بھی بڑے ادارے، بڑی کمپنی یاشخصیت کو کھنگال لیں تو آپ اس کے نیچےان کے ہزاروں مخلص ملازمین اور چاہنے والوں کا خون پسینہ اور اخلاص نظر آئے گا۔ دنیا میں آج جتنا زیادہ کام “لیڈرشپ” پر کیا جا رہا ہے اس سے پہلے کبھی اس موضوع پر اتنا کام نہیں کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ بڑی سادی ہے، یہ دنیا پیسے اور سرمائے کی دنیا ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ دنیا کا بڑے سے بڑا کام محض پیسے اور سرمائے کی بنیاد پر نکلوا لیں گے اس سے زیادہ اور کوئی دوسری غلط فہمی نہیں ہوسکتی کہ کسی انسان کا شوق، اس کی ہمدردی، اس کا اخلاص، اس کی محبت، اس کا جذبہ اور اس کی تخلیقی صلاحیتیں  محض پیسے کی بنیاد پر خرید لی جائیں۔آپ لاکھوں روپیہ دے کر لوگوں سے صرف ان کا وقت خرید سکتے ہیں، باقی چیزیں “دل” کو خرید کر لی جاتی ہیں اور اس کی قیمت کم از کم پیسہ اور سرمایہ نہیں ہے۔

کسی بھی کامیاب اور ناکام ادارے، شخصیت اور تحریک کے پیچھے آپ کو اس کے سربراہ کا اپنے ماتحتوں سے رویہ ملے گا۔ دنیا کے کامیاب ترین اداروں کو اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ ہم کتنے عرصے تک اپنے ادارے کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوتے۔ اس سوچ اور نصب العین کے نتیجے میں دنیا نوکیا، آئی – کیااور ایچ-پی جیسے اداروں کو پھلتا پھولتا اورترقی کرتا دیکھتی ہے۔ دوسری طرف وہ ادارے ہوتے ہیں جن کو کم وقت میں زیادہ “سرمایہ” سمیٹنے کی فکر کھائے جاتی ہے۔

 کبھی آپ غور کرلیں، امریکہ ، یورپ ، چین،جاپان اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں قائم ہونے والے ادارے اپنے آپ کو دنیا میں دور تک اور دیر تک لے جانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ آپ کو دنیا کے چپے چپے میں میکڈونلڈ، کے-ایف-سی، پیپسی، کوک اور سام سنگ نظر آئے گا لیکن کراچی میں موجود  مشہور زمانہ “نہاری والے” اور ریسٹورینٹس   آپ کو شہر سے باہر بھی کہیں نظر نہیں آئینگے۔کیونکہ پہلے والوں کو اپنے نام سے محبت ہے اور پیسہ اس محبت کا نتیجہ ہے، جبکہ دوسرے والوں کو پیسے سے محبت ہے، وہ اس پر مطمئن اور خوش ہیں کہ ہم نے صرف ایک دکان سے اتنا کمالیاہے کہ ہماری نسلیں بیٹھ کر کھائیں گی۔ آپ کو دونوں قسم کے اداروں کا اپنے ملازمین سے رویوں میں بھی زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ دنیا کے تمام کامیاب ادارے اپنے ملازمین کو اپنی کامیابی کا راز سمجھتے ہیں، ان کو معلوم ہوتا ہے کہ کسٹمر کو “آلویز رائٹ” دکھانے کے لئے “رائٹ” ملازمین کارکھنا ضروری ہے۔ وہ ملازمین کو رکھنے سے پہلے 36 دفعہ ان کی جانچ پڑتال کرتے، مختلف امتحانات اور مختلف انٹرویو سے گزارتے ہیں۔

اور جب ایک دفعہ اپنے ادارے میں رکھ لیتے ہیں تو اس کی کمزوریوں سے زیادہ اس کی صلاحیتوں پر نظریں جماتے ہیں۔ کمزوریاں پکڑنا اور تنقیدکرتے رہنا تو دنیا کا کوئی بھی انسان کر سکتا ہے۔ لیڈر تو وہ ہوتا ہے جو اپنے ماتحتوں کی صلاحیتوں اور ان کے ہنر پر نظر رکھے، اس کو پالش کرنے کی فکر کرے اور نکھار کے سامنے لے آئے۔ اس کی نسبت آپ کو دنیا کے ہر ناکام ادارے میں ملازم ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوتے دکھائی دیں گے، جب تک وہ پسینہ پوچھنے کے کام آئیں گے تب تک ان کی ضرورت ہے لیکن جس دن ان کی ضرورت ختم ہو گئی وہ کوڑے دان میں پھینک دیئے جائیں گے۔

 دنیا کا ہر ناکام شخص اور اس ادارے کے بڑے عہدوں پر براجمان اشخاص آپ کو ہمیشہ اپنی پوزیشنز اور اپنے عہدوں سے فائدہ اٹھاتے نظر آئیں گے۔  جس طرح اسکولوں میں اساتذہ بچوں کو بلیک میل کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح وہ اداروں میں اپنے ماتحتوں کو بلیک میل کرتے نظر آئیں گے۔ گھر میں اگر باپ کے داخل ہوتے ہی محبت اور پیار کے جذبات موجزن ہونے کے بجائے خوف اور دہشت کے سائے منڈلانے لگیں اور بچے “فیک” ادب اور احترام پر مجبور ہوجائیں۔ دکھاوے کی پڑھائی اور دکھاوے کی صفائی شروع ہو جائے، تو آپ اس گھر کو ایک کامیاب گھر نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح باس کے آفس میں داخل ہوتے ہی خوف اور دہشت کے سائے گہرے ہو جائیں، لوگ اپنی عزت اور اپنی نوکری کے بچاؤ کی ترکیبیں دماغ میں سوچنے لگیں، کمپیوٹر کی اسکرینوں پر “فیک” پروجیکٹس نمودار ہوجائیں تو اس سے زیادہ اس ادارے کی بدقسمتی اور کیا ہوگی؟

 گھر ہو یاادارہ اگر آپ لوگوں سے دل سے کام لینا چاہتے ہیں، ان کے اخلاص،ان کے دل دماغ اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں، تو آپ کو اپنے عہدے، اپنی پوزیشن اور اسٹیٹس سے ایک درجہ نیچے اتر کر جو درحقیقت آپ کو ایک درجے اوپر لے جائے گا، تعلقات بنا کر لوگوں کے درد کو اپنا درد اور اپنے ماتحتوں کے احساس کو اپنا احساس بنا کر کام لینا ہوگا اور یاد رکھیں یہ  رویہ کام لینے کے لیے نہیں بلکہ پورے اخلاص کے ساتھ  ادا کرنا پڑے گا۔ یقیناً میری اور آپ کی زندگی میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے لئے ہم رات کی نیند اور دن کی مصروفیات کو چھوڑ سکتے ہوں گے۔ اس کی وجہ ان کا عہدہ، پوزیشن اور اسٹیٹس نہیں بلکہ ہمارا ان سے تعلق اور رشتہ ہوتا ہے۔ ایک ادارے کے سربراہ کو اگر اپنے ملازمین اور ماتحتوں سے ایسا ہی رویہ درکار ہے تو پھر اسے اپنا تعلق اور رشتہ ان کے ساتھ ایسا بنانا پڑے گا کہ وہ فون پر آپ کا نمبر دیکھ کر بہانے سوچنے کے بجائے آپ کے کام آنے کا سوچنے پر مجبور ہوجائیں۔

لیڈر شپ کی انتہا یہ کہ آپ اپنے “فالوورز” میں اضافے کے بجائے مزید لیڈرز بنانے کی فکر کریں۔ لیڈر تو وہ ہوتا ہےجب 23 سال بعد وہ دنیا سے رخصت ہو تو ایک لاکھ 24 ہزار سے زیادہ “لیڈرز” وہ اس دنیا میں تیار کرچکا ہو۔اس کا ہر دن اپنے پیروکاروں میں اضافے کے بجائے اس دنیا کو ہدایت کے راستے پر راہنمائی کرنے والوں میں اضافہ کرنے کی فکر کھائے جاتی ہو۔ جو بکریاں تک نہ چرا سکنے والے خطاب کے بیتےکو “عمر فاروق” بناکر 11 سال تک بغیر ٹیکنالوجی کے پورے استحکام کے ساتھ حکومت کرنے کے قابل بنادے۔ایک کامیاب ادارہ دراصل وہ ہوتا ہے جو اپنے ماتحتوں میں اضافہ کرنے کے بجائے مزید رہنماؤں میں اضافے کا سبب بن جائے۔ کسی ادارے کی تباہی کے لئے یہ بات کافی ہے کہ اس کے مخلص ملازمین ادارے کے معاملات میں خاموشی اختیار کرنا مشورہ دینے سے زیادہ بہتر سمجھنے لگیں۔ لوگوں سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام لینے کی بجائے محض اپنے احکامات کے ذریعے کام لیئے جائیں تو ادارہ بظاہر وقتی طور پر کتنا ہی کامیاب نظر کیوں نہ آتا ہو عنقریب اس کی جڑیں کھوکھلی ہونا شروع ہو جائیں گی۔ دنیا میں آپ کو دو قسم کے لوگ ملیں گے ایک وہ جن کے پاس صلاحیتیں کم ہوتی لیکن دعائیں زیادہ ہوتی ہیں اور دوسرے وہ جن کے پاس صلاحیتیں بہت زیادہ اور دعائیں بہت کم ہوتی ہیں۔ اس سے بڑی “لیڈرشپ” اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ انسان اپنی کم صلاحیتوں کے ساتھ اپنے ماتحتوں کی زیادہ دعائیں لینے میں کامیاب ہو جائے۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں