میرے وطن کا ناسور اور روگ

محسن داوڑ اور علی وزیر جیسے لوگ اِس ارض وطن کے لیے ایک ناسور اور مستقل روگ کی حیثیت رکھتے ہیں جو کھاتے بھی پاکستان کا،رہتے بھی پاکستان میں،مگر اپنی وفاداریا ں کسی دوسروں سے نبھاتے ہیں،روپے پیسے کی ہوس میں مبتلا،نام نہاد سرداریوں کے نشے میں چُور ہوئے،دھرتی ماں اور اِس کے کاز کے خلاف کھیل جاتے ہیں،صرف کھیل ہی نہیں جاتے بلکہ اِس ریاست ماں جیسی دھرتی کے فخر،بہادرافواج کے عظیم سپوتوں پر بھی میر جعفر،میر صادق کا کردار ادا کرتے اِن کی پیٹھوں میں چھُرا گھونپ دیتے ہیں،اِس دھرتی ماں کے اچھے کی خاطر نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے مذموم مقاصد اور گھٹیا خیالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دشمن کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے،ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کھیلتے بلکہ بُری طرح یرغمال ہوئے،اِس کی سلامتی ووقار پر حملہ آور ہوئے،اِس وطن کی سلامتی کے محافظ دستوں پر حملہ کرنے جیسے گندے اور گھناؤنے کھیل کا حصہ بنے،دشمن وطن کو اپنے ذاتی مفادات،حرص وہوس کی تکمیل کے لیے خوش کیے،اِس دیس کی عزت وآبرو،شان و شوکت سے کھیلے،اِس کے محافظوں کو زخمی و لہولہان کیے اِس اپنے اقدام پر ”دشمن ملک وملت افراد“ کے خصوصی انعام کا حقدار ٹھہرے، اپنے اِس سفاکانہ،مجرمانہ،ملک دشمن اقدام پر شرمندہ نہیں اور نہ ہی معافی کے درخواستگاربلکہ اُلٹاسب کچھ کرکے انتہائی مکارانہ طریقے سے اِس واقع اور اِس میں ملوث افراد کی مذمت کر ڈالی،ایک ماہر چالاک سیاستدان کی طرح۔مگر کیا نہیں جانتے کہ اِس دیس کی حفاظت کرنے والے،اِس وطن کے نگہبان،اِس ارض وطن کی آنکھیں،میرے وطن کے شیر جوان اتنے اندھے نہیں کہ اِس ملک اور اِس کے محافظوں پر یلغار کرنے والوں کو ہی پہچان نہ پائیں،پرکھ نہ سکیں۔یہ میرے وطن کے اِن جوشیلے جوانوں کا ہی کارنامہ ہے کہ جنھوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اِس وطن کے دشمنوں کو اُن کی بلوں سے اپنی انتہائی محنت شاقہ اوربرس ہا برس کی قربانیوں کے بعد باہر نکالا،ایکسپوز کیااور ایسے افراد کے قلع قمع کے لیے بے شمارجرات و بہادری کے ایسے ایسے اعلی کارنامے سرانجام دیئے کہ اِن لوگوں کی مجبوریاں بن گئیں اور ایسی جان پر بن آئی کہ چاروناچار،کیا نہ کرتے،آر یا پار کے فارمولے کے تحت،خود تو ڈوبیں ہیں،تم کوبھی لے ڈوبیں گے صنم کے مصداق اپنے بچاؤ کی آخری کوشش کے طور ہمراہ لاؤ ولشکر آنا پڑا،مگر زخم اتنا گہرا دیں گے اور گاؤ اتنا شدید ہوگا،کسی نے بھی سوچا نہ تھا،کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اپنوں کے روپ میں پھرنے والے غیروں کے بہروپ میں کام کر رہے ہیں،میر جعفر،میر صادق کی طرح کا کردار ادا کرتے پیٹھ میں چھُرا گھونپ دیں گے۔اِس ملک کا کھانے والے،اِس میں رہنے والے،اِس کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے اِس دیس کی عزت ووقار سے ایسا کھلواڑ کریں گے،اِس دیس کے باسیوں،محافظوں سے ایسا وشواش گھاٹ(دھوکا)کریں گے کہ سب دنگ رہ جائیں گے۔
دشمن نہ کرے،دوست نے وہ کام کیا ہے۔
سارے جہاں کا غم میرے نام کیا ہے۔
یہ اِس ملک عزیز پاکستان کا ہی حوصلہ ہے کہ جو ایسے ایسے انتہاء پسند،جنونی،مفادپرست،ملک دشمن عناصر،اِس ملک کے خلاف بولنے والوں کا بوجھ لیے ہوئے ہیں،جو اِس کے اوپر دندناتے،چنگاڑتے،اِس پاک سرزمین پر زخم لگا رہے ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں