حالات کے مطابق خود کو ہمیشہ ڈھالتے رہنا دانش مندی نہیں

اللہ بھلا کرے نعمان بدر فلاحی کا ،آج(۸ جون کو) انہوں نے کسی کی  ایک بہت اچھی تحریرسوشل میڈیا پر شئیر کی ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ وقت اور حالات کے مطابق خود کو ہمیشہ ہی ڈھالتے رہنے اور  ایڈجسٹ کرتے رہنے کا طبعی انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ہم  شکریے کے ساتھ اپنے قارئین کے استفادے کے لیے  ذیل میں اس کا خلاصہ نقل کر رہے ہیں:

’’پانی سے بھرے ہوئے ایک برتن میں ایک زندہ مینڈک ڈالیں اور پانی کو گرم کرنا شروع کریں ۔ بجائے اس کے کہ مینڈھک  فوری طور پر اچھل کر اس برتن سے باہر نکلنے کی کوشش کرے ،وہ پانی کے درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ  ساتھ  اپنے بدن کے  درجہ حرارت  کو  اسی (گرم ماحول یا  منفی حالات)  کے مطابق ایڈ جسٹ کرنا شروع کر دیتا ہے  اور اس وقت تک اپنی ساری توانائی اسی ’ایڈ جسمنٹ ‘ میں صرف کرتا رہتا ہے جب تک کہ پانی بوائلنگ پؤانٹ تک نہیں پہنچ جاتا یعنی ابلنا نہیں شروع کر دیتا ۔مینڈھک اس وقت بھی حالات سے سمجھوتہ کرنے کی  کوشش  کرتا ہے  اور جب ناکام ہوجاتا ہے تو برتن سے اچھل کر باہر آنے کی کوشش کرتا ہے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ اس کی ساری توانائی خود کو پانی کی بتدریج بڑھتی ہوئی گرمی کے مطابق ڈھالنے  رہنے ہی میں صرف ہو کر ختم ہو  چکی ہوتی ہےاور کچھ ہی دیر میں کھولتے ہوئے پانی کی تاب نہ لاکر اس کی موت ہو جاتی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ  مینڈ ھک کی موت کا اصل سبب کیا ہے ؟

اس کا  منطقی جواب یہ ہے کہ مینڈھک اس لیے مرا کہ اس نے وقت رہے  ، بتدریج گرم ہوتے ہوئے پانی کے برتن سے باہر نکلنے کا فیصلہ  کرنے میں بہت دیر کر دی تھی۔ اُس کی ساری توانائی خود کو گرم پانی میں ایڈ جسٹ کرنے ہی کے’ کارِ بے مصرف ‘ میں صرف ہو گئی  ۔

ہماری زندگیوں میں بھی ایسے منفی  اور سخت مواقع  آتے ہیں کہ ہمیں خود کو حالات کے مطابق ایڈ جسٹ کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔لیکن ہم مینڈھک  نہیں، افضل مخلوق ،حیوان ناطق انسان ہیں جسے محض جبلت نہیں بلکہ  عقل اور ارادے کی بیش بہا دولت سے  بھی سرفراز کیا گیا ہے !لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہمہ وقت یہ غور کرتے رہیں کہ کب تک ہمیں خود کو حالات کے مطابق ڈھالنا ہے اور کب حالات کو اپنے مطابق ۔۔ً!

اگر ہم دوسروں کو اپنی زندگیوں کے ساتھ دماغی ،جذباتی ،جسمانی ،روحانی اور مالی طور پر کھیلنے کا موقع دیتے رہیں  گے تو ظاہر ہے کہ  وہ اس کا پورا فائدہ اٹھائیں گے اور کبھی ہمیں اپنی مرضی اور آزادی  سے جینے کا موقع نہیں دیں گے ۔

اس لیے بہتر یہی ہے کہ وقت رہے ’’جمپ کرنے ‘‘ کا فیصلہ کریں اور کنویں کا مینڈھک نہ بنیں ورنہ انجام معلوم !

اب ذرا قرآن کریم کے سورہء النساء کی آیت ستانوے،اٹھانوے،ننانوے (۹۷۔۹۸۔۹۹)کا ترجمہ ملاحظہ کریں :

’’جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کریں گے تو پوچھیں گے کہ تم کس حال میں تھے ؟ تو وہ کہیں گے کہ ’ مستضعفین فی الارض ‘ تھے ( یعنی ہم زمین میں کمزور و ناتواں بناکر دبا کر اور کچل کر ، غلام اور ’دلت ‘ بناکر رکھے گئے تھے) تو فرشتے اُن سے کہیں گے کہ کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے ؟ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور بہت بری جگہ ہے ۔ہاں جو مرد، عوتیں اور بچے بے بس ہیں کہ  نہ  کوئی تدبیر کر سکنے کے قابل  ہیں اور نہ   (ہجرت کی) استطاعت رکھتے ہیں  ،ایسے (بے بس) لوگوں کو امید ہے کہ اللہ معاف کر دے گا کہ اللہ تو بڑا معاف کرنے والا اور بڑا بخشنے والا ہے َ‘‘

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں