کسی اچھے عمل کو حقیر نہ سمجھیے

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا :
” لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا ، وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ ”
(مسلم : 2626)
” کسی اچھے کام کو حقیر نہ سمجھو ، خواہ وہ تمھارا اپنے بھائی سے مسکرا کر بات کرنا ہو _ “

اس حدیث میں ایک بہت اہم بات کی طرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے توجہ مبذول کروائی ہے _ کوئی اچھا عمل ، چاہے جتنا چھوٹا اور معمولی ہو ، اسے حقیر نہیں سمجھنا چاہیے _ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں ہر عمل باعثِ اجر ہے _ انسانوں کی نفع رسانی کا کوئی بھی کام ہو ، وہ چاہے جتنا معمولی ہو ، اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے _ انسانوں کی طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں _ وہ کبھی زیادہ اچھے کام کرتے ہیں ، کبھی کم ، کبھی بڑے کام کرتے ہیں ، کبھی چھوٹے _ ہر کام کی قدر کرنی چاہیے اور ہر عمل کی ستائش کرنی چاہیے _

کسی شخص سے مسکرا کر بات کرنا ایک انتہائی معمولی عمل ہے _ اس میں کچھ خرچ نہیں ہوتا ، لیکن دوسرے کا جی خوش ہوجاتا ہے _ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ہدایت کرنے کے بعد کہ کسی اچھے عمل کو حقیر نہ سمجھو ، اس کی چند دیگر صورتوں کا تذکرہ کیا ، مثلاً کسی کو کوئی چیز باندھنے کے لیے چھوٹی سی رسّی دے دے، کسی کو جوتے کا تسمہ دے دے، کسی کو پینے کے لیے تھوڑا سا پانی دے دے ، راستے سے کوئی چیز ، جس سے لوگوں کو تکلیف پہنچ رہی ہو ، ہٹا دے ، کسی سے خندہ روئی سے بات کرلے ، کوئی ملے تو اسے سلام کرلے ، کسی غم گین شخص سے انسیت کی بات کرلے _ (أحمد :15955)

احادیث میں چھوٹے چھوٹے اعمال پر جنّت کی بشارت دی گئی ہے _ کیا خبر کہ اللہ تعالیٰ کو بندے کا کون سا عمل پسند آجائے اور وہ اس کی مغفرت ، جنّت میں داخلہ اور جہنم سے نجات کا ذریعہ بن جائے :

* ایک راستے پر ایک درخت گر گیا تھا ، یا اس کی ٹہنیاں پھیلی ہوئی تھیں ، جس سے لوگوں کو آنے جانے میں پریشانی ہو رہی تھی _ ایک آدمی نے اسے کاٹ کر الگ کردیا _ اس عمل کی وجہ سے وہ جنت کا مستحق بن گیا _ (مسلم :1914)

* ایک شخص نے ایک کتّے کو شدید پیاس کی حالت میں دیکھا _ اس نے اسے پانی پلا دیا _ اللہ تعالٰی کو اس کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ اسے جنت میں داخل کردیا _ (بخاری :173)

* ایک شخص نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا ہمیں جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر ہمیں اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا :
فِی کُلِّ کَبِدِ رَطْبَۃٍ اَجْرٌ
(بخاری :2363)
” ہر جان دار کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر اجر ہے _”

* ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک ایسا شخص پیش ہوگا جس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی نیک کام نہیں کیا ہوگا _ اللہ تعالٰی اس سے فرمائے گا : تم نے اپنی پوری زندگی میں کبھی تو کوئی اچھا کام کیا ہوگا؟ وہ عرض کیا : ” میں نے کبھی کوئی اچھا کام نہیں کیا ، ہاں، ایک کام کو اچھا کہا جا سکتا ہے _ میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا _ جب میں قرض کی وصولی کے لیے اپنے ملازم کو بھیجتا تھا تو اس سے کہتا تھا کہ مقروض کے ساتھ نرمی سے پیش آنا _ وہ جتنا آسانی سے واپس کرسکے ، لے لینا ، جتنا واپس نہ کرسکے اسے چھوڑ دینا اور معاف کردینا _” اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” میں نے بھی تجھے معاف کیا _” (بخاری : 2078 ، نسائی : 4694)

سماجی زندگی میں تحفے تحائف کی بڑی اہمیت ہے _ اس سے باہم محبت بڑھتی ہے اور تعلقات میں خوش گواری پیدا ہوتی ہے _ اس سلسلے میں بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت ہے کہ تحفہ جیسا بھی ہو ، اسے خوش دلی سے قبول کیا جائے _ وہ قیمتی ہو تو خوشی کا اظہار کیا جائے اور معمولی ہو تو منھ بِسورا جائے ، یہ درست رویّہ نہیں ہے _ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
” يَا نِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ ! لَا تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا ، وَلَوْ فِرْسِنَ شَاةٍ “(بخاری : 2566 ، مسلم :1030)
” اے مسلمان عورتو ! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو کوئی چیز بھیجے تو اسے حقیر نہ سمجھے ، چاہے بھیجی جانے والی چیز بکری کا کُھر ہی کیوں نہ ہو _”

اس میں دونوں پڑوسنیں مخاطب ہیں : وہ بھی جو ایسی معمولی چیز بھیجے اور وہ بھی جس کے پاس ایسی معمولی چیز بھیجی جائے _ چوں کہ عورتوں میں یہ جذبہ زیادہ ابھرا ہوا ہوتا ہے کہ جب کوئی اچھی چیز پکائیں گے تب پڑوس میں بھیجیں گے ، اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا تذکرہ خاص طور پر کیا ، ورنہ مخاطب مرد حضرات اور خواتین دونوں ہیں _

ایک حدیث میں ہے کہ آپ ص نے فرمایا :
” لَوْ دُعِيتُ إِلَى ذِرَاعٍ أَوْ كُرَاعٍ لَأَجَبْتُ، وَلَوْ أُهْدِيَ إِلَيَّ ذِرَاعٌ أَوْ كُرَاعٌ لَقَبِلْتُ “(بخاری : 2568)
” اگر مجھے پائے یا کُھر کھانے کی دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کرلوں گا اور اگر میرے پاس پائے یا کُھر کا ہدیہ بھیجا جائے تو اسے قبول کرلوں گا _”

کوئی عمل چھوٹا بڑا نہیں ہوتا _ بڑا عمل بارگاہِ الٰہی میں مقبول نہ ٹھہرے تو بےکار ہے اور چھوٹا عمل شرفِ مقبولیت حاصل کرلے تو انسان کی نجات کے لیے کافی ہے _

حصہ
mm
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحبِ طرز قلم کار ،مصنف اور دانش ور ہیں۔ وہ تصنیفی اکیڈمی، جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری اور سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی کے نائب مدیربھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں