دعا کی درخواست

یہ 26 رمضان المبارک 2009 اور 27 ویں شب تھی۔ یہ رات اس لحاظ سے بھی بہت خیر و برکت والی تھی کہ 1991کے تقریبا 19سال بعد شب جمعہ بھی اسی رات میں تھی۔ میں نے تراویح کے دوران اپنا فون بند کر رکھا تھا، آٹھ رکعات ادا کرنے کے بعد میں نے جیسے ہی اپنا موبائل آن کیا فورا ہی گھر سے فون آنے لگا۔ میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف چھوٹی بہن کی کچھ گھبرائی ہوئی سی آواز تھی، اس نے بتایا کہ پپا کی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔ امی پپا کو لے کر اسپتال گئی ہیں، آپ کا فون بند جا رہا تھا۔

 مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی پپا کو امی کے ساتھ کلینک جاتے دیکھا ہو۔ بھلا نزلہ اور کھانسی  کی دوا  لینے کے لیے بھی کوئی اپنی بیگم کو ساتھ لے کر جاتا ہے؟ لیکن اس دفعہ بہن کی آواز یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ “معاملہ کچھ اور ہے”۔

 میں  گھر پہنچا تو بہن نے موبائل دکھاتے ہوئے بتایا کہ “بھائی! ابھی اس نمبر سے فون آیا تھا”۔ میں نے اسی نمبر پر کال ملائی، تو دوسری طرف سے کوئی سمجھدار آواز میں بات کر رہا تھا۔ میں نے اسے پچھلی فون کال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “ابھی ایک خاتون اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھیں، آپ نے شاید  کچھ بتانے کے لیے فون کیا تھا؟”۔

 اس نے پوچھا آپ ان کے کون ہیں؟ میں نے بتایا کہ “میں ان کا بیٹا ہوں”۔ کچھ لمحے فون پر خاموشی رہی اور پھر اس نے ایک گہری سانس لے کر کہا  “تحمل سے سنئے گا آپ کی والدہ،  آپ کے والد صاحب کو لے کر آئی تھیں، لیکن وہ ایکسپائر ہو چکے تھے، میں نے انہیں بتا دیا تھا لیکن ڈاکٹرز انھیں جناح ہسپتال بھیجنا چاہتے تھے اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں؟”۔

 “ایکسپائر” شاید دوا کی بات کر رہے تھے، نہیں شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی، ہو سکتا  ہےاس بیوقوف کو کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ اچھی طرح سننے کے باوجود  میں اپنے کانوں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ میں اڑکر جناح اسپتال پہنچنا چاہتا تھا، لیکن میں جیسے ہی گلی کے کونے تک پہنچا توسامنے سے امی آ رہی تھیں۔ بے ساختہ منہ سے نکلا پپا کہاں ہیں؟

 بیٹا کلینک کے سامنے ٹیکسی میں ان کی “ڈیڈ باڈی” پڑی ہے، اسے گھر لے آؤ۔ سڑک پر ہی ایک  زور کی چیخ نکلی اور اردو کے سارے محاورے شاید میں نے گلی کے نکڑ پر سچ ہوتے دیکھے تھے۔ میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، ہاتھوں کے طوطے اڑ چکے تھے اور آنکھوں کے سامنے بالکل اندھیرا چھا چکا تھا۔

جب ہوش آیا تو ایک جمِ غفیر ٹیکسی کے پیچھے چلا آرہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں میرے پپا کا “جسد خاکی” سامنے صحن میں چارپائی پر رکھ دیا گیا۔ اس دن میرا زندگی پر سے اعتبار اٹھ گیا، اور یہ یقین بھی ہوگیا کہ موت سے زیادہ تلخ حقیقت اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔

 جو شخص میری آنکھوں کے سامنے صبح دفتر گیا، شام میں اپنی بھانجی کی عیادت کرنے اسپتال پہنچا اور اس کی نومولود بچی کے کان میں اذان دی، سب گھر والوں کے ساتھ روزہ افطار کیا اور میرے ساتھ چائے پینے کے بعد یہ کہہ کر لیٹ گیا کہ “آج ستائیسویں شب ہے کچھ دیر آرام کرلوں تاکہ فریش ہو کر ساری رات عبادت کر سکوں، لیکن ٹھیک جس وقت وضو کر کے تراویح کے لئے نکلے ان کی طبیعت نہ سنبھل سکی اور مسجد کے بجائے ان کو ہسپتال لے جایا گیا۔

 ٹھیک دس بجے اسی شخص کی بے حس و حرکت لاش میری آنکھوں کے سامنے پڑی تھی۔ باپ اور درخت میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ وہ خود سخت دھوپ میں مضبوطی سے کھڑا رہتا ہے لیکن اپنے بچوں کو مستقل سایہ دیتا ہے۔ آندھی، طوفان اور بارش میں جم کر کھڑا ہوتا ہے لیکن اس کے زیر سایہ تمام لوگ چین سے سوتے ہیں۔ لوگ اس کو نہ جانے کہاں کہاں سے پتھر مارتے ہیں پتھر کھاتا ہے اور مزید کچھ پھل اپنی اولاد کی جھولی میں گرا دیتا ہے۔

اس بار جو ایندھن کے لئیے کٹ کے گرا ہے

چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

 ان کی موت پر صبر آتے آتے بھی کلیجہ پھٹنے لگا، ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے، آنکھوں کے سارے ہی دریا تو بہہ گئے، لیکن پھر اس حدیث  سے دل کو کچھ سکون نصیب ہوا کہ “رسول اللہ صلی وسلم نے صحابہ سے پوچھا تم میں سے کون ہے جس کا آج روزہ ہے؟ کون ہے جس نے کسی کا جنازہ پڑھا؟ کون ہے جس نے کسی بھوکے کو کھانا کھلایا؟ اور کون ہے جس نے کسی بیمار کی عیادت کی؟ ان تمام سوالات پر ایک ایک کرکے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہاتھ اٹھاتے رہے اور آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ “جس نے یہ سارے کام ایک دن میں جمع کر دیئے وہ بغیر حساب کتاب جنت میں جائے گا”، اور سوائے نماز جنازہ کے سارے کام انھوں نے جمع کر لیے تھے۔ شب جمعہ کو بحالت ایمان انتقال کرجانے والے  سے حساب کتاب نہیں ہوتا اور ایمان کی حالت میں رمضان المبارک میں انتقال کرنے والا بھی حساب کتاب سے محفوظ رہتا ہے۔ یہ تمام احادیث سن اور پڑھ کر دل کو اطمینان نصیب ہو گیا۔

جنازہ بھی خوب تھا۔ جو شخص لوگوں میں صرف مسکراہٹیں بانٹتا تھا، آج  اس کی میت پر کوئی ایسی آنکھ نہ تھی جو اشکبار نہ ہو۔ قرآن کی اس آیت کی تفسیر میں نے اپنے باپ میں دیکھی کہ “ایک میٹھا بول اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو”(البقرہ) اس شخص کے پاس لوگوں کو دینے کے لئیے نہ روپیہ تھا نہ کوئی پیسہ تھا۔ اس کے باجود انھوں نے لوگوں کے دل خرید لیئے تھے۔ جگر مراد آبادی نے کہا تھا:

نوائے عاشقی ہو یا ادائے دلبرانہ

جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ

27 رمضان المبارک جمعہ کے دن سخت ترین گرمی کے باوجود، جنازے میں لاتعداد لوگ موجود تھے۔ ایک صاحب نے جاتے جاتے رک کر پوچھا کہ  یہ کون خوش قسمت انسان ہے، جس کی میت پر اس گرمی اور روزے میں اتنے لوگ موجود ہیں؟

امام صاحب جنازہ پڑھانے کے لیے جیسے ہی نیت کرنے لگتے پر مزید کچھ لوگ تیزی سے جنازے کی جانب آ جاتے۔ میدان کا ایک حصہ نمازیوں سے بھر چکا تھا۔

اور یوں آج سے دس سال پہلے آنسو اور سسکیوں میں ہم نے اپنے پپا کومنوں مٹی تلے دفنا دیا۔ ان کے  اچانک انتقال نے خاندان میں بھی کئی لوگوں کی زندگیاں یکسر تبدیل کردیں۔ خاندان میں دو بہن بھائیوں نے ایک دوسرے کے جنازے میں نہ آنے کی قسم کھا رکھی تھی وہ بھی دوبارہ سے شیرو شکر ہو گئے۔ اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو گی کہ آپ کی موت لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی کا سبب بن جائے۔

 مجھے میرے پیارے پپا سے پتہ چلا کہ زندگی میں اصل قیمت مسکراہٹ کی ہوتی ہے، صلہ رحمی کی ہوتی ہے، اچھے اخلاق کی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی اپنی جیب سے ڈائری نکال کر لوگوں کو اچانک فون کرکے خیریت لینے کی ہوتی ہے۔ خاندان میں ہر کسی کی خوشی اور غمی میں شریک ہونے کی ہوتی ہے، اپنی حیثیت سے بڑھ کر مہمان نوازی کرنے کی ہوتی ہے اور ادھار اور قرض  کی حالت میں مہمانوں کو خندہ پیشانی سے استعمال کرنا اور دل بڑا کرنے کی ہوتی ہے۔ آخری وقت  تک اپنی ماں کی دعائیں لینے کی ہوتی ہے اور ہر حال میں شکر ادا کرنے کی ہوتی ہے۔

 ان کے انتقال کے بعد مجھے پتہ چلا کہ ان کی مہینے کی تنخواہ میں صرف 17ہزار روپے تھی۔ اسی 17 ہزار میں ہم چاروں بہن بھائیوں کو بہترین طریقے سے پرورش اور گھر پر آنے والے ہر مہمان کی خاطر داری کرتے تھے، لیکن ماتھے پر کوئی شکن نہ آنے دیتے تھے۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی صبر کا دامن اوراللہ پر توکل کرنا  نہ چھوڑتے۔ بظاہر دنیا دار نظر آنے والے اپنے پپا کو میں نے فرض نماز کی طرح تہجد کی پابندی کرتے اور اللہ کے آگے گریہ وزاری کرتے دیکھا۔ ان کی وفات پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ قول یاد آگیا۔ آپ نے فرمایا: “جب تک دنیا میں رہو تو اس طرح کے لوگ تم سے ملنے کی آرزو کریں اور جب اس دنیا سے چلے جاؤ تو لوگ تمہاری میت پر آنسو بہائیں”۔ آج میرے والد محترم جناب کفیل احمد صاحب کا یومِ وفات ہے ان کے لیے ایک دفعہ مغفرت کی دعا ضرور کردیں۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں