روزے اور تمباکو کا استعمال

تمباکو کا استعمال دُنیا میں اس وقت خطرناک بیماریوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سی بیماریاں ہوتی ہیں کینسر، بلڈ پریشر، فالج اور ہارٹ اٹیک کے علاوہ دیگر بیسیوں بیماریاں ہیں۔ جسم کے ہر عضو پر تمباکو کے اثرات پڑتے ہیں۔
اعدادو شمار بتا رہے ہیں کہ دنیا میں اب تمباکو کا استعمال کم ہورہاہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں تمباکو کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ نئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ۸۱سال سے زائد عمر کے۹۱ فیصد افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں، مردوں میں ۲۳ اور عورتوں میں ۶ فیصد افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں اسی طرح پان، تمباکو، گٹکے، چھالیہ اور اس طرح دیگر چیزوں کا استعمال بھی بڑھ گیا ہے۔ تقریبا ۰۲ فیصد لوگ ایسے ہیں جو یہ استعمال کرتے ہیں اس میں سے مردوں کی تعداد ۵۲فیصد اور عورتوں کی تعداد ۰۱فیصد ہے۔ پاکستان میں ۰۳ فیصد یعنی ایک تہائی افراد ایسے ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں تمباکو کا استعمال کرتے ہیں اور اس تمباکو کے استعمال کے نتیجے میں جو نقصانات ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں اگرچہ اس حوالے سے پاکستان میں کوئی اچھا ڈیٹا موجود نہیں کہ تمباکو کے استعمال سے کتنا نقصان ہوتا ہے لیکن محدود اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال ۰۶ ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک افراد ایسے ہیں جو براہ راست تمباکو سے منسلک بیماریوں کی وجہ سے مرجاتے ہیں پاکستان میں اس وقت سر اورگلے کا کینسر جو تمباکو اور گٹکے کے استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے اس کی شرح پوری دُنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ شرح پریشان کن بھی ہے اور تکلیف دہ بھی، ہمارے ملک میں تمباکو نوشی کی وبا تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔
تمباکو نوشی کرنے والوں پر رمضان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس پر بھی کافی لوگوں نے اسٹڈی کی ہے جس کے نتیجے میں بڑے دلچسپ اعدادوشمار سامنے آئے ہیں۔ ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو پان، تمباکو اورسگریٹ استعمال کرتے ہیں مگر وہ روزے بھی رکھتے ہیں۔ تقریبا ۰۵ سے ۰۶ فیصد افراد رمضان میں روزوں کا اہتمام کرتے ہیں اور ان میں سے تقریبا ۰۸ فیصد لوگ اس کے استعمال میں کمی کردیتے ہیں۔ ۰۱ فیصد افراد ایسے ہیں جو روزے رکھنے کے باوجود اپنے پان اور تمباکو کی جتنی مقدار پورے دن میں استعمال کرتے ہیں وہ اس کو افطار اور سحری کے درمیان پورا کرلیتے ہیں۔ لیکن تقریبا ۰۸ فیصد لوگ تمباکو کی مقدار کو کم کردیتے ہیں کوئی ۰۵فیصد، کوئی ۰۶فیصد، کوئی ۰۴فیصد، مثلا اگر کوئی دن بھر میں ایک سگریٹ کا پیکٹ پیتا ہے تو بہت سارے لوگ رمضان میں آدھا پیکٹ پیتے ہیں یا ۴سے ۵سگریٹ پیتے ہیں اور تقریبا ۸ یا۹ فیصد لوگ ایسے ہیں جو رمضان میں بالکل چھوڑ دیتے ہیں۔ سائنسدانوں کے لیے یہ ایک دلچسپی کاموضوع رہا ہے کہ آخر ایک فرد جو بیس تیس سال سے تمباکو کا عادی ہے وہ رمضان میں اتنی آسانی سے اپنی یہ عادت کیسے ترک کردیتا ہے۔ ریسرچ سے یہ بات پتا چلی کہ جو لوگ روزے رکھتے ہیں روزے کے دوران ان کے دماغ کے اندر دو نیورو ٹرانسمیٹرز ہوتے ہیں جنھیں انڈورفن اور انیکیفیلن کہتے ہیں، ان کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے، اور یہ وہ ہارمونز ہیں جو جسم کو تمباکو کے مقابلے میں اپنے جسم کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتے ہیں اس کے نتیجے میں رمضان میں لوگوں ایسے چھوڑنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس ریسرچ میں ہمارے لیے بہت سارے ایسے پہلو ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے معاشرے کو اس بری وبا سے نجات دلا سکتے ہیں۔ تمباکو نوشی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ڈاکٹرز اور معاشرے کے دیگر افراد لوگوں کو اس بات کے لیے تیار کریں کہ اس رمضان میں پان، تمباکو، سگریٹ مستقل طورپر چھوڑ دیا جائے۔ جو لوگ سگریٹ نوشی کو ترک کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے اس بات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کہ ایک تاریخ مقرر کی جائے اس تاریخ کے بعد وہ سگریٹ پینا چھوڑ دیں گے۔ رمضان کو ایک تاریخ اور ٹائم لائن کے طورپر سیٹ کیا جائے اور پورے معاشرے میں ایک ایسی مہم چلائی جائے کہ تمباکو کا رجحان کم سے کم اوربالآخر ختم ہوجائے۔ رمضان میں ایسی سرگرمیاں کی جائیں جس کے نتیجے میں ہم اپنے معاشرے کو تمباکو نوشی سے پاک کرسکیں۔
اس کے لیے کیمونٹی کی سطح پر سرگرمی کی ضرورت ہے، پورے معاشرے میں میڈیا کے ذریعے بھی یہ بات لوگوں کو سمجھائی جائے کہ سگریٹ اور تمباکو کتنا نقصان دہ ہے۔ ڈاکٹرز پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام مریضوں کو اس بات کے لیے تیار کریں کہ اس رمضان کے مہینے میں وہ تمباکو اور سگریٹ کا استعمال خاتمہ کردیں۔ اسی طرح بہت سارے ادارے ہیں جو اس کے لیے کام کررہے ہیں رمضان کا مہینہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کو انھیں تمباکو کے خاتمے کی مہم کے طورپر لینا چاہیے اس میں علماء کا بھی کردار ہے، علماء کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ سگریٹ، پان، گٹکے کا استعمال کتنا نقصان دہ ہے اور رمضان کے مہینے میں جب وہ روزے کے اندر اس کو چھوڑ سکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اندر اس بات کی صلاحیت موجود ہے کہ وہ اس کو چھوڑ سکتے ہیں اگر لوگوں کے اندرموجود اس صلاحیت کو ابھارا جائے ان کی قوت ارادی کو اور بہتر اورمضبوط کیا جائے تو ہم اپنے معاشرے کو اس بلا اور وبا سے نجات دلا سکتے ہیں۔ اس میں حکومت کا کردار بھی بڑا اہم ہے کیونکہ دنیا بھر کے اندر سگریٹ نوشی کے حوالے سے قانون سازی ہورہی ہے۔ رمضان کے مہینے میں بالخصوص جب لوگ اس کو چھوڑنے کو تیار ہوں قانون سازی اور اس پر مزید بہتر طریقے سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اس پر وفاقی اورصوبائی محتسب نے پہلے ہی بہت سارے اقدامات ایسے کئے ہوئے ہیں کہ اگر ان پر پوری طرح عمل درآمد کیا جائے تو ہم اپنے معاشرے کو اس بہت بڑی مصیبت سے نجات دلا سکتے ہیں۔
رمضان کا مہینہ ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ جن بیماریوں سے ہم نجات حاصل کرسکتے ہوں ان سے نجات حاصل کرلیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کے تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی اپنی جگہ سوچ بچار کریں کہ کس طرح ہم تمباکو نوشی کے رجحان کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ اگر ہم سگریٹ نوشی اورتمباکو کی شرح میں ۰۱ سے ۵۱ فیصد کمی کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ہم سالانہ لاکھوں افراد کو موت کے منہ میں جانے سے بچاسکتے ہیں۔

حصہ
mm
پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر ملک کے معروف نیورولوجسٹ ہیں جو آغا خان ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔صحت کے حوالے ملکی و بین الاقوامی جرائد میں ان کے تحقیقی مقالے شایع ہوتے رہتے ہیں

جواب چھوڑ دیں