ماہ رمضان۔۔ کیا کھویا کیا پایا؟

رمضان المبارک جہاں اتنی برکتیں فضیلتیں,رحمتیں لے کر آیا ومگرکچھ پتا نہیں چلا کب شروع ہواکب اختتام کو پہنچ گیا یہ ماہ۔۔ ہر انسان اپنے گناہوں کی بخشش کروانے میں محو رہا۔ لیکن اس نے یہ نہیں سوچا کہ ہم اس ماہ میں اس قدر گناہ کرتے ہیں جس کا ہمیں پچھتاوا بھی نہیں ہوتا۔ سوچیں لمحہ فکریہ۔۔کیا ہم نے اس رمضان المبارک میں کوئی ایسا کام یا عبادت کی ہے جو صدقہ جاریہ ہو؟ کیا کسی بھوکے کے گھر میں کھانا مہیا کیا ہم نے یا صرف اپنے گھروں کے دسترخوان ہی سجاتے رہے ہیں؟ کیا کسی غریب کے بچوں کے لیے کپڑے خریدے ہم نے یا صرف اپنے ہی بچوں کو خوش کرتے رہے ایک کی جگہ چار چار جوڑے دلا کر؟ سوچیں ہم سب مل کر کہ یہ لمحہ فکریہ ہے۔۔
جب بازاروں میں خریداری کرتے وقت کوئی بچہ غبارے۔ یا کھلونے لے کر آپ کے بچوں کی جانب چلا آتا ہے یہ سوچ کر کہ شاید اس کو بھی عید کی خوشیاں نصیب ہوجائیں اپنے کھلونے بیچ کر۔۔
اُس وقت آپ نے اُس بچے کی مدد کی یا جھڑک کر بھگا دیا یہ سوچ کر کے آپ کو آپ کے بچوں کو پریشان کر رہا ہے۔۔
کیا آپ نے کبھی اپنے پڑوس کے کسی غریب گھر میں جھانک کر دیکھا ہے کے آج اس کے گھر افطار کے لیے کچھ ہے یا نہیں؟۔
اگر نہیں تو یہ روزے یہ نماز یہ رب کو راضی کرنے کے لیے شبِ قدر کی راتوں میں جاگنا یہ تروایح۔ اللہ کو نہیں چاہیے ایسی عبادات جس میں صرف اپنی غرض پوشیدہ ہے اپنے گناہوں کی بخشش اپنی خوشیاں اپنی عبادات کی قبولیت۔۔ سب اپنے لیے سوچنے والے بندے کچھ اُس رب کی خوشی کے لے بھی سوچ؟
رب کو خوش کرنا ہے تو کسی غریب کے بچے کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر کے دیکھ۔رب کو راضی کرنا ہے تو حقوق العباد ادا کر جب تو حقوق العباد ادا نہیں کرسکتا تو حقوقِ اللہ کیسے ادا ہوسکتا ہے؟ اب بھی وقت ہے اس بابرکت مہینے کے بابرکت دن کا آغاز صدقہ جاریہ سے کریں آئیے کسی غریب کے گھر بھی عید کی خوشیاں بکھیریں کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھیں ان سے دعائیں لیں کہ یتیموں کی دعا عرش تک پہنچتی ہے۔۔ افطار پارٹیوں کو اپنے گھروں تک محدود نہ کریں کبھی کسی غریب بستی میں افطار کرا کے دیکھیں رب کیسے خوش ہوتا ہے۔یہ دستر خوان اُن یتیموں کے گھر بچھائیں جن کے سر پر باپ کا سایہ نہیں اور وہ محروم ہیں ان خوشیوں سے۔۔
تین جوڑے اپنے بچوں کے اگر خریدے ہیں تو ایک جوڑا کسی یتیم کے لیے بھی خرید کر دیکھیں۔۔ رب کیسے آپ کی اس عبادت کو قبول کرتا ہے۔۔
آج جمعتہ المبارک کے دن ہر بچہ بڑا نئے کپڑے پہنے عبادت گاہوں کی طرف رواں دواں ہے کیونکہ اسے رب کو راضی کرنا ہے لیکن مساجد کے باہر کھڑے حسرت و یاس کی تصویر بنے ان بچوں کے چہروں کو کبھی دیکھتا ہے تو؟
تجھے علم ہوتا کہ عبادت کسے کہتے ہیں جو بچے ہاتھ میں عِطر لیے تو کوئی تسبیحیاں لیے کھڑا ہے کاش کوئی یہ خرید لے۔ تو ان بچوں کے چہرے بھی کِھل اٹھیں۔۔
ہم الحَمْدُ ِللہ مسلمان ہیں تو ایک مسلمان کا فرض نہیں اپنے ہر مسلمان بھائی کا خیال کرے؟
لیکن نہیں ایسا نہیں ہوتا ہمارے معاشرے میں غُربت ایک لعنت بن کر رہ گئی ہے غریب کو کوئی خوشی منانے کا حق ہے ہی نہیں۔۔ کیسے منائے وہ خوشی رمضان المبارک کی آمد ہر غریب و امیر کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ مگر اسی کے ساتھ غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیا جاتا ہے جو پھل 20 روپے کلو تل تھا اسی کو 100 روہے کلو کردیا جاتا ہے غریب تو حسرت سے دیکھ کر ہی رہ جاتا ہے۔
جو سبزی 40 روپے تھی وہ سو یا 80 پر پہنچ گئی غریب کے گھر نہ سحر کے لیے کچھ ہے نہ افطار کے لیے۔۔
ہائے یہ مسلمان جو ماہِ رمضان المبارک میں عبادت نہیں تجارت کرتے ہیں وہ بھی حرام کما کر پھر کس لیے روزہ نماز کس لیے بخشش کی دعا؟ لمحہ فکریہ۔
کاش یہ تمام چیزیں سستی کر کے ہر غریب کے چہرے پر خوشی بکھیر دیتا تو رب راضی ہوجاتا۔۔کاش!!
اب بھی وقت ہے اے بندہ خدا اب بھی رب کی رضا حاصل کر لے اب بھی کسی کی جھونپڑی میں چولھا جلا دے کسی کے بچوں کی عید کرادے اب بھی وقت ہے۔
رمضان المبارک صرف سحر و افطار کا مہینہ نہیں ہے۔ صرف گناہوں کی بخشش کا مہینہ نہیں ہے صلہ رحمی کا مہینہ ہے رب کو راضی کرنا ہے تو اس کے بندے کو راضی کریں۔
حقوق العباد کے ساتھ عبادات قبول کرتا ہے رب۔ اپنے بچوں کی خوشیاں خریدنا ہی عید نہیں ہے کسی کے سُونے گھر میں عید کے رنگ بکھیرنا عید ہے۔
آئیے آج عہد کریں جمعتہ الوداع پڑھ کر اصل عبادت بھی کرلیں آج کسی غریب کو خوش کردیں۔ کسی یتیم کے چہرے پر مسکراہٹ سجادیں۔۔ کہ اس عبادت سے بڑی کوئی عبادت ہی نہیں۔۔
اے پالنے والے ہم سب کو حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اس بابرکت جمعتہ الوداع کے دن ہر امیر غریب کی جھولی خوشیوں سے بھردے الہی آمین یارب العالمین۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں