دو منہ والی زندگی

عموماً ہم دو قسم کی زندگی گزارتے ہیں، ایک زبانی دوسری عملی مطلب پریکٹیکل

یعنی ہم جو کرتے ہیں وہ کہتے نہیں اور جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔

گھر کے ساتھ ساتھ معاشرہ بھی ہماری تربیت کرتا ہے لہذا کسی اور کو بطور مثال ہرگز استعمال نہیں کروں گا، اپنی بات کروں گا کہ میں اکثر جو کہہ رہا ہوتا ہوں وہ زندگی میں شاید کبھی کبھار ہی کیا ہو وگرنہ تسلسل تو کم از کم ہرگز نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر عموماً میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ سچائی سے کام لینا چاہیے لیکن جہاں میں مناسب نہیں سمجھتا وہاں ڈنڈی مار جاتا ہوں اور اپنے تئیں خود کو اس جھوٹ پر کئی وجوہات سے قائل کرنے کی کوشش کر چکا ہوتا ہوں۔

بعض ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں جو ہم خود تو دھڑلے سے کرتے ہیں مگر اپنے چھوٹوں کو اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتے مثلا ًروٹین میں سگریٹ نہیں پیتا لیکن جب دوستوں کے ساتھ ہوتا ہوں تو کبھی کبھار سگریٹ پی لیتا ہوں لیکن یہی حرکت اگر ہمارا چھوٹا بھائی، بھتیجا یا بھانجا کرتے پکڑا جائے تو پھر وہ چھتر پلین کرنی ہوتی ہے جو بچپن میں کبھی ہماری ہوا کرتی تھی۔

لیکن کیا اس عمومی رویے کی وجہ معاشرہ ہے؟ آئیے تھوڑا سا اس پہلو پر بھی غور کر لیتے ہیں۔

روزنامہ جنگ میں دوران ملازمت ایک مرتبہ میں نے چھٹی کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھ ڈالا کہ فدوی کو “ڈیٹ” پر جانا ہے لہذا ایک یوم کی چھٹی درکار ہے۔

بس پھر کیا تھا چھٹی تو اپنی جگہ رہ گئی میرا مذاق ان سینیئر بزرگوں نے بھی اڑایا جو عمر کے آخری حصے میں ٹھرک کی انتہا کےلیے معروف ہوا کرتے تھے۔

دوبارہ چھٹی لینے کےلیے میں نے 3 مرتبہ نانی، کم و بیش 4 مرتبہ دادی اور متعدد مرتبہ کئی جان پہچان والوں کو دار فانی پہنچایا، یقین کیجیے چھٹی الگ ملتی تھی ہمدردی الگ…

حصہ
mm
عرفان ملک پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں،صحافت کے متعدد در کی خاک چھان کر ان دنوں نجی ٹی وی چینل میں بطور اینکر کے اپنے ذوق و شوق کی آبیاری کر رہے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں