سیدناعلی کرم اللہ وجہہ……مقام ومرتبہ،شجاعت وخدمات

نام ونسب اور ابتدائی حالات
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کااسم گرامی علی،کنیت ابوالحسن وابوتراب،القاب اسداللہ الغالب،الحیدراورالمرتضی ہیں،یہ تمام القاب آپ رضی اللہ تعالی عنہ کوحضورسیدکونین ﷺنے مختلف مواقع پر مرحمت فرمائے تھے۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت عام الفیل کے 7برس بعدہوئی،جبکہ بعثت نبوی ﷺکادسواں سال تھا۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ کاتعلق قبیلہ قریش کے معززترین خاندان بنوہاشم سے تھا،آپ نہ صرف حضوراکرم ﷺ کے چچازادبھائی،بلکہ آپ ﷺکے پروردہ بھی تھے،بچپن میں ہی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد ابوطالب نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کواپنے بھتیجے حضورسیدکونین ﷺ کے سپرد کردیاتھا۔
مقام ومرتبہ:
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کاشمارسابقین الاولین کی صف اول میں ہے،اسلام قبول کرنے والے بچوں میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کاپہلانمبر ہے،جبکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر صرف8یا10برس تھی۔آپ قرآن پاک کے حافظ اور حلال وحرام نیز احکام زکوٰۃ ومیراث کے بہت بڑے عالم تھے۔فقہ وقضاء میں بھی ان کو نمایاں مقام حاصل تھا،خلفائے ثلاثہ ان سے مشورہ کرکے مقدمات کا فیصلہ سنایا کرتے تھے۔آپ کوہجرت کرنے کااعزازبھی حاصل ہے۔ہجرت مدینہ کے موقع پر آپ رضی اللہ تعالی عنہ حضوراقدسﷺکے حسب ارشاد لوگوں کی امانتیں ان کے حوالے کرکے وسط ربیع الاول 13نبوی میں مدینہ منورہ پہنچے۔جب حضوراکرم ﷺنے مہاجرین وانصار کے درمیان مواخات قائم فرمائی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت سہل بن حنیف انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کادینی بھائی بنایاتھا۔
نکاح:
رجب 2ہجری میں سرورکونین ﷺ نے 21یا24سال کی عمرمیں اپنی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمالزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کانکاح کیا،اس وقت خاتون جنت رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر 16یا19برس تھی۔
شجاعت اورغزوات میں شرکت:
حضرت سیدناعلی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ بہت بہادر،جری اوردلیر تھے۔ذیل میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے چیدہ چیدہ جہادی کارنامے ذکرکیے جاتے ہیں:
٭……غزوہ بدر(2ھ)میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے قریش کے دوسرکردہ رہنماوں ولیدبن عقبہ اورشیبہ بن ربیعہ کوقتل کیا۔
٭……غزوہ احد(3ھ)میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ لشکر اسلام کے میمنہ یعنی دائیں حصے کے امیرتھے،حضرت سیدنامصعب بن عمیررضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعدعلم آپ کے ہاتھ میں آیا،کفار کے علمبردارابوسعیدبن طلحہ کی دعوت مبارزت کے نتیجے میں اس کابے جگری سے مقابلہ کیا اوراس کوواصل جہنم کرکے دم لیا۔اسی جنگ میں متعددمشرکین کے علاوہ کفار کے چوٹی کے رہنماابوالحکم کوبھی موت کے گھاٹ اتارا۔جب گھاٹی پر متعین تیراندازوں کی غلط فہمی سے جیتی ہوئی بازی ہارنے کاخطرہ پیداہواتوجوصحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میدان میں ثابت قدم رہے،ان میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے۔جب نبی اکرم ﷺزخمی ہوکر ایک گڑھے میں گرپڑے تھے،توحضوراقدس ﷺ کوسہارادینے والے آپ اورحضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔جنگ کے اختتام پر حضورنبی کریم ﷺ کے خون کوصاف کرنے کے لیے آپ رضی اللہ تعالی عنہ ڈھال میں پانی بھرکرلاتے جاتے اورحضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا زخم کودھوتی جاتی تھیں۔
٭……غزوہ بنونظیر(4ھ)میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ میں لشکر اسلام کاعلم تھا۔
٭……غزوہ خندق(5ھ)میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے قبیلہ بنوعامرکے مشہورجنگجو عمروبن عبدودکو،جو اکیلاایک ہزارسواروں کے برابر سمجھاجاتاتھا،قتل کیا۔اسی سال غزوہ خندق میں بدعہدی کرنے والوں کی سرکوبی کے لیے جو دستے بھیجے گئے،ان کے علمبردار بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔
٭……صلح حدیبیہ(6ھ)میں صلح نامہ لکھنے کاشرف بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کوحاصل ہوا۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے گواہ کے طور پراس عہدنامے پردستخط بھی فرمائے۔
٭……غزوہ خیبر(7ھ)میں خیبر کے 12قلعوں میں سے ایک قلعہ حصن القموص کی فتح میں شدیددشواریاں پیش آئیں،بالآخریہ قلعہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں فتح ہوا،اسی معرکے میں مرحب نامی مشہورجنگجو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں اپنے انجام بد سے دوچارہوکرجہنم واصل ہوا۔
٭……فتح مکہ(8ھ)میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بحکم نبوی ﷺ ایک کافر کوقتل کیا۔اسی سال غزوہ حنین میں جب بنوہوازن کے یکدم حملہ آور ہونے سے بھگدڑمچ گئی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ ثابت قدم رہے اورجانثاری سے شجاعت کے جوہر دکھائے۔
٭……غزوہ تبوک(8ھ)میں حضوراقدسﷺنے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کواپنے خانگی معاملات اورکچھ انتظامی امور کی نگرانی کے حوالے سے مدینہ منورہ میں قیام کرنے اور جنگ میں حصہ نہ لینے کاحکم دیا،جسے تعمیل حکم میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے قبول فرمالیا،ورنہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی ذاتی خواہش جنگ میں بنفس نفیس شریک ہونے کی تھی۔اسی موقع پر آپﷺ نے یہ جملے ارشاد فرمائے:
”اے علی!کیاتم یہ پسندنہیں کرتے کہ تم میری طرف سے اسی مرتبے پر ہو،جس مرتبے پرحضرت موسی ٰعلیہ السلام کی طرف سے حضرت ہارون علیہ السلام تھے،مگریہ کہ میرے بعدکوئی نبی نہیں۔“
٭……اسلام کے پہلے حج(9ھ)میں،جس کے امیر حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے، چندخاص اعلانات کے لیے حضوراکرم ﷺ نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کوروانہ فرمایا،کیوں کہ ان اعلانات کا تعلق حاکم وقت کی حیثیت سے نبی اکرم ﷺ کا مشرکین سے براء ت سے تھا،جس کے لیے عرب کا دستور یہ تھا کہ اس قسم کے اعلانات حاکم وقت خود یا ان کا کوئی قریب ترین عزیز کرے،اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا گیا،جو حضور اکرم ﷺ کے دماد اور سگے چچا زاد بھائی تھے۔
٭……حجۃ الوداع(10ھ)میں حضوراکرم ﷺ نے 63اونٹ تواپنے دست مبارک سے ذبح فرمائے،جبکہ بقیہ اونٹ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ذبح فرمائے۔منی میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضوراکرم ﷺکے خطبات مجمعے تک پہنچانے کے لیے معبر کے فرائض بھی انجام دیے۔
خلفائے ثلاثہ ؓ سے تعلقات اور ان کے دور میں خدمات:
٭……حضوراکرم ﷺ کی رحلت کے بعدخلیفہ اول بلافصل حضرت سیدناصدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کواموال خمس کی تقسیم کامتولی،اپنامشیر اوروزیرہی نہیں بنایا،بلکہ مرتدین کے سدباب کے لیے بھیجے جانے والے ایک دستے کاامیر بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کومقررفرمایا۔
٭……حضرت سیدنافاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کوان تمام عہدوں پربرقراررکھا اورمزیدمناصب بھی عطافرمائے،جن میں قاضی کامنصب بھی شامل تھا۔
٭……حضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی آپ کوسابقہ مناصب پربرقراررکھا،حدودکے تمام فیصلے بھی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی عدالت میں ہوتے تھے۔جمع قرآن کاکام بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورے سے ہوا۔
خلافت:
حضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد35ھ صحابہ کرام کے اتفاق رائے سے چوتھے خلیفہ راشد مقررہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے پیش رو خلفائے راشدین رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی پالیسیوں کوبرقراررکھا۔خلیفہ بننے کے تیسرے روز ہی سازشی سبائی ٹولے کوبلاکر فوری طور پرمدینہ چھوڑنے کاحکم دیا۔یوں ان کے ارادوں پر پانی پھرگیا،اسی روز سے وہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے بھی دشمن بن گئے۔ان کی سازشوں کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان جنگوں تک کی نوبت بھی آئی۔
دنیا سے بے رغبتی اور سخاوت:
آپ نے پوری زندگی فقر وفاقہ کو ترجیح دی،تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ جب تہجد کی نماز کے لیے جاگتے تھے تو اپنی داڑھی مبارک اپنی مٹھی سے پکڑ لیتے اور دنیا کو مخاطب کرکے فرمایا کرتے تھے:اے دنیا!جا،کسی اور کو فریب دے،تو مجھ سے لگاؤ رکھتی ہے،میری مشتاق ہے،حالاں کہ میں تجھے تین طلاقیں دے چکا ہوں،تیری وفا قلیل،عمر تھوڑی اور مقصد حقیر وبے حیثیت ہے،اور میرا سفر بہت طویل،اس کا راستا وحشت ناک اور زاد سفر رتھوڑا ہے۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی تدفین کے موقع پر آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت حسن مجتبی ٰرضی اللہ تعالی عنہ نے جوخطبہ دیا،اس میں ارشاد فرمایا:لوگو!کل تم سے ایک ایساشخص رخصت ہوگیا۔جس سے نہ اگلے علم میں پیش قدمی کرسکے،نہ پچھلے اس کی برابری کرسکیں گے۔رسول اللہ ﷺاس کے ہاتھ میں اسلام کاجھنڈادیاکرتے تھے اور اس کے ہاتھ پرفتح نصیب ہوجاتی تھی۔اس نے چاندی سوناکچھ نہیں چھوڑا،صرف اپنے وظیفے میں سے 700درہم ورثاکے لیے چھوڑے ہیں۔
قارئین کرام!یہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے زہد کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔دوسری طرف آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی سخاوت بھی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔40ہزاردینارسالانہ تو صرف آپ رضی اللہ تعالی عنہ زکوٰۃکی مدمیں اداکیاکرتے تھے۔
شہادت:
جنگ نہروان میں خوارج کو شدید نقصان اٹھاناپڑا،اسی روز حرم مکہ میں ایک میٹنگ میں انہوں نے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم،جن میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے،کے قتل کامنصوبہ تیار کیا۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قتل کی ذمہ داری عبدالرحمن ابن ملجم کوسونپی گئی۔منصوبے کے مطابق 17رمضان 40ھ میں نماز فجر کے موقع پر اس بدبخت نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے سر کے اگلے حصے پروارکیا،آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی ریش مبارک خون سے رنگین ہوگئی،آپ رضی اللہ تعالی عنہ شدیدزخمی ہوگئے اور3دن بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔مدت خلافت 4سال9 ماہ ہے۔رضی اللہ عنہ!
اللہ تعالی مسلمانان عالم کوامیرالمؤمنین خلیفہ راشد حضرت سیدناعلی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین!

حصہ
mm
مولانا محمد جہا ن یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے سینئر ریسرچ اسکالرہیں اور مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں