کم ظرف

میرا بھی سوٹ استری کردینا۔۔۔”ثمرہ جو اپنے کپڑے استری کرنے جا رہی تھی نمرہ نے اسے اپنا بھی سوٹ تھما دیا اور سیل فون میں مگن ہوگئی۔امی آپ نمرہ آپی سے کوئی کام کیوں نہیں کہتیں۔وہ ہر وقت مجھ پر حکم چلاتی رہتی ہیں۔اپنے کام بھی وہ خود نہیں کرتیں۔”ارے ثمرہ بیٹا!.وہ تمہاری بڑی بہن ہے۔ایسے نہیں کہتے خیال رکھتے ہیں بہن کااور بہت جلد وہ شادی ہو کر چلی جائے گی۔۔۔’بڑی وہ ہیں اور خیال میں رکھوں۔آپ کبھی بھی ان کو کوئی کام نہیں کہتیں بس میں ہی نظر آتی ہوں آپ کو۔۔۔وہ منہ پھلا کر کمرے سے نکل گئی۔صالحہ ماضی میں کھوگئی۔جب وہ دلہن بن کر آئی تو نمرہ چار سال کی تھی۔جمال نے پہلے دن ہی اسے کہہ دیا تھا کہ نمرہ کے بارے میں وہ کوئی زیادتی برداشت نہیں کرے گا۔میں نے صرف نمرہ کی خاطر تم سے شادی کی ہے اسے ماں کاپیار دینا کبھی شکایت کا موقع نہ دینا۔صالحہ نے یہ بات اپنے پلو سے باندھ لی۔ثمرہ اور احسن کی پیدائش کے بعد صالحہ مصروف رہنے لگی۔ لیکن وہ ان دونوں سے زیادہ نمرہ کو وقت دیتی۔ہر چیز اس کی پسند کی ملتی اسے۔ بے جا لاڈ پیار نے اسے ضدی اور خود سر بنا دیا تھا۔اب وہ ہر بات میں اپنی مرضی چلاتی۔چھوٹے بہن بھائی کو کسی گنتی میں نہیں لیتی تھی۔نمرہ کیلئے بہت اچھارشتہ آیا ہوا تھا۔لڑکا بھی پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا تھا صالحہ اور جمال نے ہاں کردی۔اور شادی کی تاریخ طے کردی۔صالحہ نے نمرہ کے جہیز کی ہر چیز اس کی پسند کے مطابق دی تاکہ اسے کسی قسم کی احساس کمتری نہ ہو۔اور ایک سگی ماں سے بڑھ کر پیار دیا۔اوراسے دعاؤں میں رخصت کردیا۔نمرہ نے کچھ دنوں میں ہی سسرال کی برائیاں کرنا شروع کردی۔صالحہ نے اسے سمجھایا کہ سب کے ساتھ مل جل کر رہے لیکن وہ بس اپنی ہی بات منوانا چاہتی تھی۔وہاں بھی اس نے اپنا رویہ نہ بدلا. ضدی اور خود سر تو پہلے سے تھی۔نمرہ کے شوہر نے صالحہ سے بات کی کہ وہ ہر کسی سے بد تمیزی کرتی ہے اور سارا دن اپنے کمرے سے نہیں نکلتی۔ایک دن صبح سویرے دروازے پر دستک ہوئی۔صالحہ نے دروازہ کھولا تو سامنے نمرہ سوجی ہوئی آنکھوں میں آنسو لئیے کھڑی تھی۔”کیا ہوا نمرہ۔۔۔۔صالحہ اسے دیکھ کر گبھرا گئی تھی۔
”امی اظہر نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔کہتا ہے میری امی سے معافی مانگو۔ میں نے انکارکردیاکہ میں معافی نہیں مانگوں گی۔تو کہا کہ تمہارے لئیے اس گھر میں کوئی جگہ نہیں۔۔”
کہا کہ تمہارے لئیے اس گھر میں کوئی جگہ نہیں۔۔”امی آپ نے میری ایسی جگہ شادی کیوں کی میری زندگی برباد کردی۔میں سوتیلی ہوں نہ اس لیے مجھ سے جان چھڑائی آپ نے میری دوست ٹھیک کہتی تھی۔کہ سوتیلی ماں کبھی سگی ماں جیسی نہیں بن سکتی۔وہ تو بولے جا رہی تھی نجانے کیا کیا لیکن صالحہ سوچ رہی تھی کہ اس کے پیار محبت میں کہاں کمی رہ گئی تھی۔ اس نے تو اپنی اولاد کا وقت اور توجہ بھی نمرہ کے لئیے وقف کردیا تھا۔ہاں مگر وہ سوتیلی تھی۔۔سوتیلی۔۔۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں