کیا روزہ بس پیٹ کا؟

رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا تھا، گرمی زوروں پر تھی، اور وطن واپس لوٹنے پر کتنے ہی کام منتظر تھے، جن میں سے ایک اہم کام یہ تھا کہ نئے لگوائے گئے بجلی کے میٹر کا ابھی تک بل نہیں آیا تھا، اور پریشانی یہ تھی کہ یونٹ بڑھ جانے کی وجہ سے فی یونٹ بل زیادہ آئے گا۔ میٹریڈر گلی میں آیا تو ہم نے اس سے درخواست کی کہ دونوں میٹرز کی ریڈنگ نوٹ کرلے، مگر اس نے لاپرواہی سے سر جھٹک دیا، کہ نئے میٹر کی ریڈنگ کا مجھے آرڈر نہیں ملا۔
دو روز بعد ملنے والے یوٹیلیٹی بل نے اس کی بد نیتی کا راز بھی کھول دیا، دونوں میٹرز کے بل آئے تھے، اور نئے میٹر کا چھیالیس ہزار کا ایسٹی میٹڈ بل (اندازے پر مبنی) بل ہمارا منہ چڑا رہا تھا، جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں بجلی کٹ جانے کا عندیہ بھی تھا، ہم فوراً بجلی کے دفتر بھاگے، جہاں رمضان المبارک کی آمد کے باوجود اور چلچلاتی دوپہر میں بھی کافی بھیڑ تھی، بڑے افسر تو اے سی کی ٹھنڈک میں بیٹھے تھے، اور جہاں بل درستی کی شکایات کا اندراج ہو رہا تھا وہاں چند پنکھوں کے باوجود پسینہ چوٹی سے ایڑی کا سفر نہایت تیزی سے طے کر رہا تھا، اکثر صارفین جس بل کے سبب بلبلاتے ہوئے یہاں پہنچے تھے، اسی کو ہاتھ کا پنکھا بنائے ہوا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
سائلین کی قطار دیکھ کر لگ رہا تھا کہ ہماری باری آنا ہی مشکل ہے، پھر بھی ہم اپنی سی کوشش میں لگے تھے، جس میٹر ریڈر نے ہمارے میٹر کے یونٹس کا اندراج نہ کیا تھا وہ بھی ایک میز کے پیچھے کرسی لگائے بیٹھا تھا، اور کن اکھیوں سے ہماری بے چینی کو دیکھ رہا تھا، ہم نے میاں کو اشارہ کیا تو وہ بولے: اگر اسی دن اس کی جیب گرم کر دیتے تو۔۔
ہمارے انتظار میں کھڑے کھڑے ظہر کی اذان ہو گئی، صاحب مسجد کی تلاش میں باہر نکلے، اچانک کرسیوں میں حرکت ہوئی اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دفتر اہلکاران ”وقفہ نماز“ کی تختی میز پر آویزاں کر کے باہر نکل گئے، ہم حسرت سے اپنی جانب دیکھ رہے تھے، ہر روز صبح قرآن کلاس لینے کے بعد ہم ظہر سے عصر آرام کیا کرتے تھے، مگر آج ابھی اس لائن میں ہماری باری آنے میں بھی کافی ٹائم تھا، دعا مانگتے ہوئے ہم اس کمرے سے باہر نکل آئے اور ایک درخت کے نیچے بچھے بینچ پر بیٹھ گئے، کچھ دیر بعد ہم نے صاحب کو اور پھر پورے دفتر کے عملے کو مسجد سے باہر نکلتے دیکھا۔
”ارے۔۔ عوام کا جینا دوبھر کرنے والے ۔۔ اور انہیں غلط ریڈنگ کے بل بھجوانے والے۔۔ یہ سب نمازی ہیں؟ انہیں سائلین کے ساتھ جنہیں دفتر میں اوازار کئے دے رہے ہیں، اور کام مکمل کرنے کے بجائے ایک سے دوسری میز کے درمیان بھگا رہے ہیں، یہ محمود و ایاز کی مانند صف بہ صف کھڑے اکٹھے نماز پڑھ رہے تھے؟!“
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا، نہ کوئی بندہ نواز
بعد از نماز ہمارے ڈرائیور نے میٹر ریڈر صاحب سے ذاتی طور پر مسئلہ حل کرنے کا فارمولہ پوچھا تو انہوں نے کمال ڈھٹائی سے ”افطاری“ کی قیمت پر بل درست کرنے کا عندیہ دے دیا۔ یعنی ”نماز میرا فرض ہے اور چوری میرا پیشہ ہے“۔اور رمضان المبارک کے مہینے میں بھی دونوں ہی چل رہے ہیں۔
نماز کا وقفہ ختم ہوا تو”محمود وایاز کی بھی مساوات“ دم توڑ چکی تھی، اب پھر افسران اور سائلین میں اتنا ہی بعد تھا جتنا اس سے پہلے تھا، میز کی دوسری جانب بیٹھنے والوں کی گردنیں تنی ہوئی تھیں، اور سائلین سرجھکائے، منت ترلے کر رہے تھے۔ ادائیگیء نماز کے بعد ہمارے صاحب کو نجانے کیا سوجھی، شاید ”اوپر والی سرکار“سے ڈاریکٹ رابطہ کر کے آئے تھے، اس بھیڑ میں گھسنے کے بجائے انہوں نے ہمیں اشارہ کیا اور شکایت درج کروانے ایکسیئن کے کمرے میں پہنچ گئے، اور ساری بپتا سنا ڈالی، افسر صاحب نے کمال مہربانی سے انہیں اہلکار کو بلایا اور حکم صادر کیا، اس پتہ پر فوراً پہنچو اور میٹر ریڈنگ کر کے آؤ، صاحب نے جھٹ اپنی جیب سے ریڈنگ نکال کر دی، جو وہ احتیاطاً لکھ لائے تھے، اب ایک میز پر درست بل تیار ہونا شروع ہوا، اور میٹر ریڈر کو موٹر سائیکل پر کنفرم کرنے بھیجا گیا کہ وہاں پہنچ کر فون پر بتائے کہ ”اعداد“ یہی ہیں، اور یوں ہم ظہر کے بھی ایک گھنٹہ بعد بل تیار کروا کر باہر نکلے، بھاگم بھاگ شہر کے کئی بنکوں کے دروازے پر پہنچے، جہاں کے قفل ہمارا منہ چڑا رہے تھے، رمضان المبارک کی راحت کے طور پر بنک جلدی بند کئے جا رہے تھے، اگلے روز بل ادائیگی کی گئی، جو اٹھارہ ہزار یعنی نصف سے بھی کم تھی، بل بھی جمع ہو نے کے ساتھ ہمیں اس کی بھی خوشی تھی کہ ہم نے کسی اہلکار کے پیٹ میں حرام کمائی نہیں پہنچائی، اور ”اکلِ حلال“ کی اپنی سی کوشش کر لی، اور مرتشی یعنی رشوت دینے سے بھی بچ گئے۔
رمضان المبارک تو تزکیہ کی تربیت اور ٹریننگ کا مہینہ ہے اور اس میں نیکی کے عمل کو باقی گیارہ مہینوں میں بھی جاری رہنا ہی روزے کا اصل مقصد ہے، سو ہمارا کام بھی ابھی مکمل نہ ہوا تھا، ہمارا خیال تھا کہ ایک مرتبہ بل جاری ہو گیا تو اب تسلسل سے درست ریڈنگ کے ساتھ بل آنا شروع ہو جائے گا، مگر میٹر ریڈر نے اگلے مہینے بھی ویسا ہی ایسٹی میٹڈ یعنی اندازے کا بل بنا کر بھیج دیا، جو آسمان سے باتیں کر رہا تھا، ستم بالائے ستم میاں صاحب اپنی چھٹی گزار کر واپس بیرون ِ ملک جا چکے تھے، ڈرائیور صاحب کو بل درست کروانے بھیجا تو میٹر ریڈر کی باچھیں کھل اٹھیں، اب وہ پوری بے شرمی سے اپنا مدعا بیان کر سکتا تھا، بولا:
”پچھلے مہینے بھی تم لوگوں نے ”افطاری“ یعنی (رشوت اور اکل ِ حرام) کے بغیر بل درست نکلوا لیا، اور میں بھی رمضان کے احترام میں خاموش رہا، مگر اس مرتبہ تو ”عیدی“ کے بغیر بل درست نہ ہو گا۔ (ہمارے ہاں حرام کے بھی کیا خوشنما اور حلال نام ہیں، افطاری اور عیدی)۔
اگلے روز میں ایکس ایئن کے کمرے میں تھی، ان سے ذکر کیا تو بولے، اس اہل کار کے نام کے ساتھ درخواست لکھ کر دیں، اور میں نے واشگاف انداز میں لکھا، ”محترم ایکس ایئن صاحب، آپ کے دفتر کا اہلکار طاہر جان بوجھ کر غلط بل بنواتا ہے اور درست کرنے کے عوض رشوت مانگتا ہے“۔
انہوں نے درخواست پڑھی، آپ درست کہہ رہی ہیں، طاہر نے مانگی رشوت؟ (طاہر صاحب باریش اور شکل سے کافی متقی پرہیز گار نظر آتے تھے)، جی ہاں،ہم نے مختصر جواب دیا۔
انہوں نے میز پر پڑی گھنٹی بجائی اور گرجدار حکم دیا، طاہر کو فوراً بلاؤ، ابھی اور اسی وقت۔۔
طاہر صاحب کو جونہی علم ہوا، وہ فوراً دفتر سے فرار ہو گئے، افسر صاحب نے کہا:
اس سے تو میں خود نمٹ لوں گا، ان کا بل درست کر دو۔
اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولے: آپ کو اس کے بعد بل درستی کے لئے نہیں آنا پڑے گا۔
اور سات برس گزر گئے، صرف پیٹ کا روزہ رکھنے والوں کو ایک ایمان دار افسر نے نکیل ڈال دی تھی۔
حدیث: ”جس نے روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا، اللہ کوکوئی حاجت نہیں کہ وہ بھوکا پیاسا رہے“۔
٭٭٭

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں