شہادت علی رضی اللہ عنہ

رمضان المبارک کی مبارک گھڑیوں میں آج لڑکھڑاتے قلم اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ان کی سیرت پہ کچھ الفاظ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ جن کو انسانیت کے افضل ترین قبیلے میں ولادت کا شرف نصیب ہوا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے حصے میں کونین کے تاجدار کی خونی و نسبی رشہ داری آئی۔ آپ کا بچپن تو اہل مکہ کی اذیتوں کے باوجود ایمان پہ بے مثال استقامت کے ساتھ گزرا۔ علی رضی اللہ عنہ کی جوانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ متعدد غزوات میں ایک کامیاب، بہادر جرنیل کی حیثیت سے گزری۔ علی رضی اللہ عنہ کا بڑھاپا شرق و غرب اور شمال و جنوب میں اسلام کی فتوحات کے جھنڈے گاڑتا ہوا اور خلافت راشدہ کی سنہری داستاں رقم کرتے ہوئے گزرا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی عفت وپاکدامنی کی علامت فاطمہ الزہراء جیسی بابرکت ہستی قرار پائی۔ علی کی صلب اطہر سے جنت کے دو سرداروں کو منتخب کرلیا گیا۔ علی رضی اللہ عنہ کو ہجرت کے وقت صادق و امین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت ودیانت والی نیابت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کو اہل ایمان کا مولی قرار دیا گیا۔ علی کے ساتھ محبت ایمان کا معیار اور ان سے بغض نفاق کی علامت ٹھہرا۔علی کو ہارون علیہ السلام کی موسی کے ساتھ رفاقت والا شرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوازا۔ علی کا ذکر احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کیا تو فرمایا:خلافت نے علی کو مزین نہیں کیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے خلافت کو مزین کر دیا۔ جو نثر بولتے تو کلمات باادب لائن میں لگ جاتے کہ نجانے کس کو شرف گویائی مل جائے ۔جو شعر کہتے تو قافیہ کو چار چاند لگا دیتے ۔

أنا الذي سمتني أمي حيدره.

كليث غابات كريه المنظره

جن کی قائدانہ صلاحیت پہ امام المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا یقین تھا کہ جنگ سے پہلے ہی کہہ دیا کہ آج جھنڈا اس کے ہاتھ میں دوں گا جس کو اللہ میدان میں فتح دے گا۔ جن کی تواضع و عاجزی اتنی خوبصورت تھی کہ رسولوں کے سردار نے کنیت ہی ابو تراب (مٹی والا) رکھ دی۔ جن کے زہد کی داستان کا ذکر آیا تو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جیسے زہد و ورع کے امام نے بھی کہہ دیا، لوگوں میں  سب سے زیادہ زہد کے مالک علی بن ابی طالب ہیں۔ جن کی صلہ رحمی کا تذکرہ ہو تو تاریخ یہ واقعہ روشن الفاظ میں دکھاتی ہے کہ وہ اپنے چچا عباس کے ہاتھوں کے بوسہ لینے کے بعد فرماتے “ارض عنی ” آپ مجھ سے خوش ہیں؟ آپ مجھ سے راضی اور خوش رہا کریں ۔

علی رضی اللہ عنہ کے صبر کا ذکر ہو تو ان کا قول اس باب میں جامع و شامل ہے۔

“إن الصبر من الإيمان بمنزلة الرأس من الجسد ‘ ولا خير في جسد لا رأس له “.

یقینا ایمان میں صبر کی حیثیت جسم میں سر کی طرح ہے۔ اور جس جسم میں سر نہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔اگر عفو و درگزر پہ امت کی تربیت کی تو جامع اور شامل الفاظ کے ساتھ کمال کر دیا ۔

إذا قدرت على عدوك فاجعل العفو عنه شكرا للمقدرة عليه۔

جب تو اپنے دشمن پہ تسلط وکنٹرول رکھتا ہو۔ تو اس پہ کنٹرول و تالط کو اپنے لئے نعمت سمجھتے ہوئے اس سے در گزر کر دے۔

یہی اس نعمت کا شکر ہے۔بے شمار اوصاف حسنہ اور خصال جمیلہ کا یہ پیکر دشمن کو ایک لمحہ بھی نہیں بھاتا تھا۔دشمن حکمت ودانائی کے اس بے مثال موتی کو تاج اسلام میں دیکھنا گوارہ نہیں کرتے تھے۔ وہ ایک طویل عرصہ سے اس مضبوط چٹان کو اپنے رستے سے ہٹانے کے جال بچھا رہے تھے لیکن اللہ کے اس شیر کا خوف دشمن کو قریب بھی نہی پھٹکنے دیتا تھا۔

لیکن وہی ہوا جو اسلام کی تاریخ کا لازمی حصہ ہے۔ وہی ہوا جو دشمنوں کا مضبوط ترین ہتھیار ہے۔ وہی وار ہوا جو وار کم ہی بے سود جاتا ہے۔ پھر سے عبداللہ بن ابی کی تاریخ رقم کی گئی۔

آستین کے سانپ اپنا ڈنگ تیز کرتے رہے ۔

صوم و صلوۃ کی پابندی کا اظہار کر کے لوگوں کو اپنے ایمان کا جھانسہ دیتے رہے ۔نیکی وتقوی کا مظاہرہ کر کے اپنے دل میں تاج امت کے قیمتی موتی کو توڑنے اور دلیری و بہادری کی بے مثال شخصیت کو خرم کرنے کا مذموم ارادہ لے کر اہل اسلام کی صفوں میں ہی گھومتے رہے۔ وہ ابن ملجم جس نے کوفہ کی عورت سے نکاح کا مہر داماد رسول اور مسلمانوں کے خلیفہ کے قتل کو طے کر لیا تھا جو خارجی فکر کا حامل اور وحدت اسلامیہ کا دشمن  تھا اور یہی خوارج کا شعار ہے کہ وہ وحدت و اتحاد کو ختم کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ اس خبیث کو کیا خبر تھی کہ وہ مہر نہیں بلکہ جہنم کی ٹکٹ طے کر رہا ہے۔ وہ ناپاک ارادے کے ساتھ زہر آلود تلوار لے کر نکلا تو فجر کی نماز کے لئے جاتے ہوئے امت مسلمہ کے روشن چراغ پر حملہ کر دیا کہ جس حملے کی شدت اور زخم کی گہرائی نے بالآخر شہادت کے رتبے پر فائز کروا دیا اور شہادت فی سبیل اللہ کے تاج کو سر پہ سجائے اپنے محبوب اور خالق و مالک سے جا ملے۔لیکن اس امت پہ غم کا وہ پہاڑ ٹوٹا اور ملت کی بنیادوں میں وہ شگاف پڑ گیا کہ جس کو پر کرنا ناممکن ہے۔

غم و پریشانی کا اظہار کسی نے نثر میں کیا اور کسی نے شعر میں کیا ۔

صرف ایک ہی پہ اکتفاء کرنا مناسب سمجھوں گا۔

قل لابن ملجم والأقدار غالبة.

ابن ملجم سے کہہ دو کہ قسمت و تقدیر کا فیصلہ غالب ہے۔

هدمت ويلك للإسلام أركانا

تیرے لئے بربادی ہو تو نے اسلام کا ایک ستون گرا دیا ہے۔

قتلت أفضل من يمشي على قدم.

تو نے زمین پہ ایک بہترین انسان کو قتل کر دیا ہے۔

وأول الناس إسلاما وإيمانا.

اس کو جو سب سے پہلے اسلام لانے والے اور سب سے پہلے تصدیق کرنے والے تھے۔

وأعلم الناس بالقرآن ثم بما. سن الرسول لنا شرعا وتبيانا

اور اس کو جو لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن کے بارے ميں علم رکھنے والے اور سب سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو جاننے والے تھے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں