نظریہ بھٹو کا قتل

دنیا کی تاریخ انقلابات سے بھری پڑی ہے۔یا یوں کہہ لیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ کوئی صدی ایسی نہیں کہ جب دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں انقلاب کی صدا بلند نہ ہو رہی ہو۔وہ ہزاروں سال پہلے ایران،یونان،ہندوستان کا انقلاب ہو یا دورِجدید میں روسی،جرمن،فرانسیسی یا امریکی انقلاب ہو،ہر انقلاب ایک نظام لاتا ہے اور ہر نئے انقلاب کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے نظام کا داعی ہوگا جس کی روح عوام، عوامی فلاح و بہبود اورانسانیت سے پیار و محبت ہوگی۔تاہم ہر انقلاب مزاحمت کی پیداوار ہوتا ہے اور ہر مزاحمت میں خون ضرور بہتا ہے،ہر بہتے خون سے ایک داستان ضرور لکھی جاتی ہے۔ایسی کہانیوں میں ایک کہانی ہے بھگت سنگھ کی جو سوشلسٹ انقلاب کا داعی تھا،طبقات سے پاک برابری کی سطح پر ہندوستانی معاشرہ چاہتا تھا۔جلیانوالہ باغ کے سانحہ سے اس نے بہت اثر لیا اور انگریزوں سے نجات کے لئے آواز اٹھائی۔نہ صرف اس نے انگریزوں کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ عملی طور پر حصہ لیتے ہوئے اس نے دہلی میں عین اس وقت جب کہ اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر دھماکہ کیا،انہیں ساتھی سمیت پکڑ کر عمر قید کی سزا سنائی گئی مگر وہ اپنے نظریہ سے نہ منحرف ہوا اور نہ ہی اس نے مصلحت کی راہ اپناتے ہوئے انگریز حکومت سے کوئی معاہدہ یا سودے بازی کی کہ شائد اس کی جان بچ جائے،ایسی ہی ایک کہانی جس کا بھی تعلق سرزمین پنجاب سے غازی علم دین شہید کی ہے،جس نے اپنے ایمان کی حفاظت اور ناموس رسالت ﷺ کی شان اور حفاظت کے لئے ایک گستاخ رسول کو جہنم واصل کیا جس نے آپ ﷺ کی شان میں گستاخانہ کتاب لکھی تھی۔ایک طویل کہانی ہے مگر یہاں موضوع کی مناسبت سے اتنا بتانا ضروری ہے کہ علم دین نے بھی اپنی سزاکی معطلی یا رہائی کے لئے بڑے بڑے وکلا کے کہنے پر معافی نہیں مانگی اور نہ ہی کسی مصلحت سے کام لیتے ہوئے وقت کے ہاتھوں اپنے آپ کو فروخت کیا بلکہ اپنے آخری سانس تک ہنستے مسکراتے ہوئے اپنے بیان پر قائم و دائم رہا کہ ہاں میں نے ایک گستاخ رسول کو قتل کیا ہے۔
یہ تو محض دو حقیقتیں ہیں جو اب کہانیوں اور داستانوں کی صورت اختیار کر گئیں ہیں اور دونوں کا تعلق برصغیر کی تقسیم سے قبل سے ہے۔ایک کہانی ایسی بھی ہے جو پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد ستر کی دہائی میں رقم ہوئی جس کا تعلق ایک سیاسی شخصیت ہے۔جو ایک شخص ہی نہیں بلکہ ایک نظریہ اور مکمل قانون خیال جاتا تھا اس نظریاتی شخصیت کا نام ہے ذوالفقار علی بھٹو جو کہ نانا ہے آج کے بلاول بھٹو کا۔ویسے تو اس کی شخصیت،کارناموں،سیاسی چالبازیوں اورذہانت پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں لیکن میں یہاں ایک کتاب جو کہ عینی شاہد کرنل رفیع الدین کی تحریر کردہ ہے جس کا نام ہے بھٹو کے آخری 323 دن،اس کے صفحات سے چند باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ آج تک بھٹو ازم اور نظریہ بھٹو کیوں زندہ تھا۔”میں ایک آمر کے ہاتھوں مرنا پسند کرونگا لیکن تاریخ کے ہاتھوں نہیں“جب آخری وقت میں کرنل رفیع نے انہیں بتایا کہ بھٹو صاحب اب کھیل ختم ہو گیا ہے تو انہوں نے رنجیدہ لہجے میں صرف اتنا کہا کہ ”عوام مردہ بھٹو دیکھنا چاہتے تھے“
اب بات کرتے ہیں حالیہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحاد اور عید کے بعد ایک ساتھ مل کر تحریک چلانے کی۔ایک ہی ٹیبل میں بوقت افطار علما و سیاستدانوں کو دیکھتے ہوئے مجھے ایک شعر یاد آگیا کہ
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا
یقیناً یہ سب لوگ جمہوریت کو بچانے کے لئے ایک پلیٹ فارم پہ جمع ہو رہے ہیں،عوام کی خاطر یہ سب ایک دوسرے کو قبول کر رہے ہیں۔ملک کو عمران خان اور کرپٹ حکومت اور نااہل حکمرانوں سے نجات دلانے کے لئے ایک دوسرے کے اختلافات مٹا کر تحریک میں شامل ہو رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ احتجاج کس کے خلاف؟حکومت۔فوج،سسٹم،ریاست،عدلیہ،نیب یا جمہوریت کے خلاف۔ جب مریم اور بلاول ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے تو میری سماعتوں سے بھٹو کی آواز ٹکرا رہی تھی کہ عوام مردہ بھٹو دیکھنا چاہتے تھے مگر اس وقت بھٹو کو بھی کیا خبر تھی کہ اس کی لاش کسی آمر کے پیروکاروں کے ہاتھ اسی کا نواسہ بلاول فروخت کر دے گا۔اس کا اپنا نواسہ اپنے ہی ہاتھوں نظریہ بھٹو کو بحیرہ عرب میں پھینک دے گا،کیا بلاول کو یہ بات بتانے والا کوئی نہیں کہ اس کا نانا ایک آمر کے دور میں پابند سلاسل رہ کر سولی کی زینت بنا،اس کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی ایک آمر ہی کے دور میں جیل کی سختیاں برداشت کرتی رہی اور دور کیوں جانابلاول کا والدجو انہیں جمہوریت پسندوں اور ٹھیکیداروں کے دور میں سلاخوں کے پیچھے رہا اور بلاول ازخود اپنی والدہ،بی بی کا ہاتھ تھامے اپنے والد کی ملاقات کے لئے آیا کرتا تھا،بچے تم یہ سب کیسے بھول سکتے ہو اور کیوں بھول سکتے ہو، محض ابو بچاؤ تحریک کے لئے،افسوس ہوتا ہے مجھے بلاول کی سیاسی بصیرت پر جوایک ہی دھکے میں اپنے اسلاف کی قربانیوں کا سودا کرنے پہ تلا ہوا ہے اگر اسے اپنے بزرگوں کا خیال ہوتا تو پھر نظریہ بھٹو کو پھانسی دینے کی بجائے خود سولی کو چوم کر گلے میں ڈال لیتا، میں سمجھتا ہاں تم وہ شیر ہو جس کے اسلاف نے ایک آمر کے سامنے جھکنے کی بجائے سولی پر چڑھنا قبول کیا لیکن اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا۔تم نے سیاسی مصلحت سے کام لے کر اپنے خاندان کے یوسف کو بیچ ڈالا،اس نظریہ کا جنازہ نکال دیا جس کی مثالیں اپنے و پرائے سب دیا کرتے تھے۔
تمہارے شہر میں یوسف نہیں آئے گا اب کوئی
تمہارے شہر میں تہمت کا کاروبار ہوتا ہے

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں