ماچس کی تیلی

آپ ماچس کی تیلی کو غور سے دیکھیں اس کا سر تو ہوتا ہے مگر اس میں دماغ نہیں ہوتا، یہ تیلی ذرہ سی رگڑ سے جل کر اپنا ہی سارا بدن جلا لیتی ہے اور جون ایلیا کے شعر کی مثل

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

اس تیلی کو ایک مرتبہ جل مرنے کا ملال تک نہیں ہوتا، اس تیلی کے قبیل کی سبھی تیلیاں ماچس کے ڈبے سے ایک ہی انداز سے نکل نکل کر جلتی مرتی رہتی ہیں، بس ماچس کا استعمال کرنے والے بدلتے رہتے ہیں، انداز ایک ہی رہتا ہے، جلنے کا، جلانے کا

ماچس کی تیلی تو پھر لکڑی کا بے جان سا ٹکڑا ہے، ہم لیکن جیتے جاگتے، سانس لیتے انسان ہیں جنہیں عقلی بنیاد پر اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا

کمال ہے وہ انسان اس وقت محض اس لیے لٹ رہا ہے کہ کیونکہ لوٹنے والے نے ایک وقت میں اسی لکڑی کے بنے ایک بلا کہلائے جانی والی تھاپی سے ہمیں پیتل کا ایک گول مٹول سا کپ کہلانے والی شے دے دی تھی؟؟؟

 تف ہے ایسے انسان پر

ہم سے تو ماچس کی وہ تیلی اچھی جو ذرہ سی رگڑ پر جل تو اٹھتی ہے.. نہ جانے ہم کب جلیں گے، کب اٹھیں گے

حصہ
mm
عرفان ملک پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں،صحافت کے متعدد در کی خاک چھان کر ان دنوں نجی ٹی وی چینل میں بطور اینکر کے اپنے ذوق و شوق کی آبیاری کر رہے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں