بھوک یا صلہ رحمی؟؟

بھوک چار حروف کا مجموعہ اپنے اندر کائنات کا درد سموئے ہوئے۔یہ صرف چار حروف نہیں بلکہ احساس، محبت، اخلاص،ایثار،انسانیت اور شاید انسان کی پتھر دلی حیوانیت کو بیان کرتے ہیں۔ یعنی بالکل ہی متضاد کیفیات کی ترجمانی کرتے ہیں۔اصل میں بھوک کیا ہے؟؟؟؟بھوک صرف خالی پیٹ کا نام نہیں۔بھوک بھی دو طرح کی ہوتی ہے نفس کی بھوک،پیٹ کی بھوک۔یہ جو پہلے والی بھوک ہے نا یہ زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔اتنی کے دوسری بھوک کاموجب بھی یہی پہلے والی بھوک بنتی ہے۔یہ بھرے پیٹ والوں کی بھوک ہوتی ہے۔ اتنی کہ شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی ہی جاتی ہے۔انسان کے اندر کے انسان کو مار دیتی ہے۔حیوانیت کو غالب رکھتی ہے۔بھوک کے ہاتھوں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔کبھی تھر میں کبھی آپ کے آس پاس اور کبھی کہیں دور کسی افریقہ کے گاؤں میں لیکن اصل دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمیں تھر کا دکھ افریقہ کا دکھ تو رلاتا ہے۔لیکن اپنے ارد گرد بسنے والے بالکل ویسے ہی معصوم چہرے نظر نہیں آتے۔ہمارا نفس اتنا بھوکا ہوچکا ہوتا ہے کہ اور زیادہ کی طلب میں دوسرے کا حق مارنے تک کی اجازت دے دیتا ہے۔جی ہاں دوسرے کا حق۔۔یعنی صدقہ زکوۃ خیرات یہ سب بھی کھا جاتا ہے۔بہت سے لوگوں کو اس بات پہ اختلاف بھی ہوگا۔ لیکن ایمانداری سے ایک دفعہ اپنے دل سے پوچھئے گا۔کیا آپ واقعی اپنے نصاب کے مطابق زکوۃ دیتے ہیں۔کیا واقعی صلہ رحمی کرتے ہیں۔کیا واقعی اپنے حقوق و فرائض ایمانداری سے ادا کرتے ہیں۔یقیناً نہیں۔۔میں سو فیصد یقین سے کہتی ہوں سو میں سے 40% لوگ بھی ایسے نہیں جو مکمل ایمانداری سے اپنے معاشرتی حقوق ہو فرائض ادا کرتے ہوں گے۔یقین جانیے اگر صرف 40% لوگ بھی مکمل ایمانداری سے صرف زکوۃ ہی دے دیں نا تو خدا کی قسم کوئی باپ اپنے ہاتھوں سے اولاد کو زہر نہ دیں کوئی اپنے ہی ہاتھوں سے اولاد کی قبریں نہ تیار کریں۔ہمیں دور برما کے مسلمان کا دکھ اس کی بھوک تو نظر آتی ہے لیکن پہلو میں رہنے والے پڑوسی کادکھ اس کی مفلسی نظر نہیں آتی۔ہم یہ بھول بیٹھتے ہیں کہ اگر ہمارا پڑوسی بھوکا سوئے گا تو کل روز حشر اس کے متعلق سوال کیا جائے گا۔بنا حقوق و فرائض کی ادائیگی کے ہم رحمان کو راضی کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔لیکن کیا رحمان کے بندوں کے حقوق ادا کیے بغیر رحمان کے حقوق ادا ہوسکتے ہیں۔ رحمان کی رحمانیت سے گزرے بغیر رحمان کو پایا جاسکتا۔وہ مالک جو کہتا ہے میں اپنے حقوق تو معاف کردوں گا۔لیکن اپنے بندوں کے حقوق تب تک معاف نہیں کروں گا جب تک بندہ معاف نہ کرے۔کیا وہ یہ قتل ہمیں معاف کرے گا۔جو روز بھوک و افلاس کے ہاتھوں ہوتے ہیں۔کیا ہم قاتل نہیں؟؟؟ہم جو ہر چوتھے روز روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر حاضری کے خواہاں ہوتے ہیں۔وہ جو اسلام سے پہلے سلامتی اور انسانیت کی بات کرتے تھے۔کیا ہم واقعی انہی کے پیروکار ہیں۔ ہم تو انسان کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔بھوکے کو کھانا کھلانا، اسکا تن ڈھانپنا اسے مفلسی سے نجات دلانے کا سد باب کرنا تو بہت دور کی باتیں ہیں ہم تو اسکے ساتھ بات کرنا گوارا نہیں کرتے۔اس سب کے باوجود نا صرف اللہ کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں بلکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے امتی ہونے کا دعوٰی بھی کرتے ہیں۔ وہ جن کے بارے میں۔۔۔۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کو احتیاجِ لباس کی صورت میں کپڑا پہناتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا سبز ملبو س پہنائے گا۔جو شخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلاتا ہے اللہ کریم اسے جنت کے ثمرات سے سیرکریں گے اورجو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلاتا ہے اللہ رب العزت اس کو اپنی خالص (طیب وطاہر) شراب پلا ئیں گے،جس پر مہر لگی ہوگی۔ہم تو اتنی بڑی خوشخبری سننے کے بعد بھی اپنے رویے بدل نہیں پاتے۔ہمارے ضمیر اس قدر مردہ ہوچکے ہیں کہ غریب بہن بھائی گھر آجائے تو اس ڈر سے بات ہی نہیں کرتے کہ اللہ جانے کچھ مانگ ہی نہ لے۔حالانکہ ہم کون ہوتے ہیں کسی کو کچھ دینے والے۔نوازنا اور بانٹنا تو خدائی وصف ہے اور یہ اسی پر جچتا بھی ہے۔ہم تو بس اسکے دیے میں سے دوسرے کا حصہ نکال سکتے ہیں وہ بھی اسکے حکم کے مطابق۔لیکن یہی تو افسوسناک امر ہے کہ اسی کے دیے ہوئے رزق میں سے اسی کے بندوں کا حق نکالتے ہوئے بھی ہمارے ہاتھ کانپتے ہیں۔ایثار محبت احساس قربانی یہ جذبے تو کہیں بہت دور جا سوئے ہیں۔شازونادر ہی کسی بھولی بسری یاد کی طرح کہیں نظر آجاتے ہیں۔اگر کہا جائے کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ بھرے پیٹ کے ساتھ ہمیں کسی کی بھوک نظر نہیں آتی تو بے جا نہ ہوگا۔ہم کسی پیشہ ور فقیر کو تو ہزاروں روپے بلا جھجھک دے دیتے ہیں۔لیکن کسی بے بس لاچار سفید پوش کی مدد نہیں کرتے۔پھر کیا ہوتا ہے سفید پوشی اور عزت نفس کے ہاتھوں تنگ آکر اسکے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں چوری فراڈ دھوکہ دہی رشوت لے کر نام نہاد عزت داروں کی سی زندگی گزارے یا پھر خودکشی کر کے زندگی کی الجھنوں سے آزاد ہوجائے۔بیشتر لوگ دوسرے راستے کو آسان سمجھتے ہیں۔جرائم کی دنیا میں نگاہ دوڑائی جائے تو دیکھنے کو ملے گا کہ بیشتر جرائم پیشہ لوگ غربت کے ہاتھوں تنگ آکر اس دلدل میں اترے ہیں۔بھوک اسقدر ظالم ہوتی ہے کہ اسکے ہاتھوں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں کبھی دہشت گردی کی صورت میں تو کبھی خودکشی کی صورت۔جی ہاں دہشتگرد کون ہے جسے زندگی عزیز نہیں ہوتی لیکن اپنے پیاروں کے پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے اپنے ساتھ ساتھ اور بھی ہزاروں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کی ایک بڑی وجہ یہی غربت ہوتی ہے۔جرائم پیشہ افراد اسی بھوک کی پیداوار ہوتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کب تک بھوک کے ہاتھوں کبھی ماں تو کبھی باپ اپنے جگر گوشوں کو مٹی کی نظر کریں گے آخر کب ہمارے ضمیر جا گیں گے۔ارے ہمارا تو دین اتنا پیارا ہے کہ۔جس کے ارکان میں بھی اللہ نے غریب کو نظر انداز نہیں کیا۔
روزے کو ہی لے لیں۔روزہ کیا ہے کیا فرق پڑتا ہے اللہ کو ہماری بھوک پیاس سے آخر کیا مقصد پنہا ہے اس میں۔صاف اور سیدھی بات ہے دوسرے کا احساس روزہ امیر پر بھی فرض ہے اور غریب پر بھی۔امیر جب روزے سے ہوتا ہے تو اسکے اندر بھی بھوکا پیاسا رہ کر غریب کا احساس پیدا ہوتا ہے۔غریب کی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔اسکا مقصد ہی یہی ہے کہ امیر اپنے غریب بھائی کے دکھ کو محسوس کرے۔اور پھر اسکا حل بھی اللہ صاحب استطاعت انسان کو خود ہی بتا دیا نہ صرف بتایا بلکہ اس پر عمل کیے بغیر ایمان ہی نامکمل قرار دے دیا۔یعنی زکوۃ دیں۔اس میں بھی کتنے خوبصورت پہلو ہیں۔زکوۃ کا ثواب تو ملے گا ملے گا مال کی پاکی کی خوشخبری الگ سے دی ہے۔دوسرا اس میں دولت کی مساوی تقسیم کا پہلو بھی نظر آتا ہے جب صاحب اعمال مستحق کو دے گا اسکی تنگی بھی دور ہو گی۔اسکے بعداگر حج کی بات کی جائے تو اس میں بھی یہی پہلو نظر آتے ہیں۔ایک حاجی جب عبادت و ریاضت کرتا ہے تو اسے دوسرے کمزور بھائی کی ریاضت کا احساس ہوتا ہے صلہ رحمی کا جذبہ یہیں سے جنم لیتاہے۔سیاست،مذہب،سماج،تعلیم اور تعلقات سمیت ان گنت پہلو ہیں جو عبادت سے عبارت ہیں لیکن یہ سب بوجوہ معطل بھی ہو جائیں تو معاشی پہلو،پیٹ بھرے جانے کا پہلو کبھی بھی معطل نہ ہوگا۔اور نہ ہی معطل ہوسکتا ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں