گھڑیاں

صدیو ں سے آزمودہ آج بھی کارآمد، گھڑیاں
ٹیلی فون،ریڈیو،ہوائی جہاز کے موجدوں کا تو معلوم ہے، گھڑی کس نے بنائی نا معلوم
سورج کی مدد سے گھٹتے بڑھتے سائے، سینڈ گلاس سے وقت معلوم کیا جاتا تھا
صرف وقت نہیں شخصیت بھی بتاتی ہیں، موبائل فون اور چائنہ نے اہمیت متاثر کی

انسان مطمئن اور خوش تو وقت گذرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا، پتہ ہی نیں چلتا کہ کتنے گھنٹے گذر گئے، اہم بات یہ ہے کہ سیکنڈ، منٹس، گھنٹے، دن ہفتے، مہینے،سال اور صدیاں مسلسل گذرتی چلی جا رہی ہیں کسی کے لئے یہ رفتار تیز ہے تو کسی کا وقت ہوتا ہے کہ گذرنے کا نام نہیں لیتا۔وقت کا بے لگام گھوڑا انسان کے قابو تو نہیں آیا لیکن اپنی دانست میں اس نے وقت کو ماپنے کا راز جان کر ایک حد تک اس کو اپنی گرفت میں کرنے کی کوشش کی ہے۔قریباً 10صدی قبل انسان نے وقت کو گھنٹے کے حساب سے ناپنا شروع کیا اور ہماری گھڑیاں بھی اسی گھنٹے کے گرد گھومتی ہیں سیکنڈ اور منٹ کی بات بھی گھنٹے کی مناسبت سے کی جاتی ہے۔دنیا میں کئی چیزیں ایجاد ہوئیں، کئی نئی اشیاء نے پرانی کی جگہ لے لیکن گھڑی آج بھی کسی نہ کسی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔
ہمیں ٹیلی فون، ہوائی جہاز، ویڈیو سمیت مختلف اہم ایجادات کے موجدوں کے نام تو ملتے ہیں لیکن بد قسمتی سے گھڑی ایجاد کرنے والے کا کوئی ذکر کسی بھی جگہ موجود نہیں لیکن جس نے بھی یہ کام انجام دیا یقینی طور پر انسانیت پر بہت بڑا احسان کر گیا ہے۔اب ذرا انداز ا کریں کہ ایسی صورت میں ایک عا م انسان اوسطاً20بار گھڑی (ٹائم)دیکھتا ہے اور کاروباری افراد کے معاملے میں یہ تعداد دگنا ہو جاتی ہے۔
پرانے وقتوں میں لوگ سورج اور سائے کی مدد سے وقت کا تعین کیا کرتے تھے، ایک لکڑی کھلی جگہ پر گاڑ دی جاتی تھی اور اس کے بڑھتے گھٹتے سائے سے وقت کا حساب رکھا جاتا تھا۔بعد ازاں ’سینڈ گلاس‘کی مدد سے وقت کا حساب کتاب رکھا جانے لگا(یہ اب بھی استعمال ہوتا ہے لیکن وقت معلوم کرنے یا جانچنے کے لئے نہیں بلکہ میز کی خوبصورتی بڑھانے کے لئے)، اس پر موسم کے اثرات بہت زیادہ نہیں ہوتے تھے لیکن اس کا نقصان یہ تھا کہ یہ صرف ایک محدود مدت کے لئے وقت کا حساب رکھنے میں مدد کرتا تھااور اس پر مسلسل نظر رکھنا پڑتی تھی کہ کب اس کی پوری ریت نیچے آئے اور ہم اسے پلٹ کر دکھ دیں، یاکبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ ریت میں موجود کوئی ذرہ راستے میں پھنس جاتا تو وقت کی گردش رک جاتی تھی۔شدید گر می میں سینڈ گلا س کی رفتار بڑھ جاتی اور شدید ٹھنڈ میں یہ آہستہ ہو جاتا تھا،یعنی وقت کو ماپنے کا یہ طریقہ بھی غلطی سے مبرا نہیں تھا۔لہذا انسان کی وقت اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوششیں مسلسل کی جاتی رہیں۔
آخر کار انسانی تاریخ میں انقلابی اقدام عمل میں آیا اور واچ انڈسٹری قائم ہونے کی جانب پیش رفت ہوئی۔1335میں میلان میں پہلی میکانکی گھڑی تیار کر لی گئی۔اس کے بعد سے اس انڈسٹری نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اس میں مسلسل جدت آتی جا رہی ہے۔ڈیزائن بدلے، دھات کے ساتھ دیگر مادوں کا استعمال ہوا،مختلف فیچرڈالے گئے اور15ویں صدی میں جرمنی میں ایک گھڑی تیار کی گئی جس میں اسپرنگ گھڑی میں موجود گھنٹے کی سوئی کو حرکت دے سکتا تھا اور2صدیوں کے بعد منٹ کی سوئی کا بھی اضافہ کر دیا گیااور پھر ایسی گھڑیاں تیار ہونے لگیں جن کو جیب میں رکھا جا سکتا تھا۔جی ہاں یہ تو بہت مہنگی ہوا کرتی ہے اس کو اپنے پاس رکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔
پھر وقت آیا جب جیب کی گھڑیوں کی جگہ کلائی کی گھڑیوں نے لے لی، ان کلائی کی گھڑیوں کی ابتداء 19ویں صدی میں ہوئی اوریہ صرف خواتین کے لئے ہوا کرتی تھیں۔مرد گھڑیاں نہیں پہنتے تھے لیکن سہولت نے اس پابندی یا قید کو پیچھے چھوڑ دیا اور اب دنیا بھر میں بننے والی دو تہائی سے زائد گھڑیاں مرد حضرات کے لئے بنائی جاتی ہیں۔اب تو ایسی ایسی گھڑیاں مارکیٹ میں آنے لگی ہیں جوکہ وقت بتانے کے ساتھ ساتھ پہننے والی کی مالی حیثیت کا بھی پتہ دیتی ہیں۔21ویں میں اگر کوئی سستی گھڑی پہنا ہے تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اس کی مالی حیثیت کم ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے یہ بندہ لاپرواہ بھی کہ اچھی گھڑی کی حفاظت نہیں کر سکتا۔
اب تھوڑی سے بات کر لیں گھڑیوں کے ڈیزائن اور ان کے پسند کرنے والوں کی تو جو افراد گول گھڑیاں پسند کرتے ہیں وہ عموماً قابل اعتبار، اعتدال پسند اور قدامت پسند ہوتے ہیں۔غیر معمولی اشکال کی گھڑیوں کی جانب جھکاؤ رکھنے والے عام طور پر خود پسند اور اپنی انفرادیت کا کھل کر اظہار کرنے والے ہوتے ہیں۔یہی حال ان افراد کا بھی ہوتا ہے کلائیوں پر بڑی بڑی گھڑیاں باندھے دکھائی دیتے ہیں۔چمڑے کے پٹے کی حامل گھڑیاں پہننے والے نفیس اور شائستہ شخصیت رکھتے ہیں۔اگر کسی شخص نے اپنے لباس اور جوتوں کی مناسبت سے گھڑی پہنی ہوئی ہے تو اپنی زندگی کے مقصد سے آگاہ ہے۔ اسپورٹس گھڑیوں کو پہننے والے اپنی طاقت و قوت کا اظہار کرتے ہیں۔
آج کل تو گھڑیوں کی جگہ موبائل فون نے لے لی ہے، گھڑیوں کی فروخت میں نمایاں کمی آئی ہے اور پھر چائنہ نے جہاں ہر چیز کو متاثر کیا ہے وہیں واچ انڈسٹری پر بھی مضر اثرات ڈالے ہیں۔مہنگی مہنگی برانڈڈ گھڑیوں کی نقل صرف چند سو روپے میں مل جاتی ہے اور وہ بھی حقیقی سے اس قدر قریب ہوتی ہے کہ دونوں گھڑیاں ساتھ رکھ دی جائیں تو شناخت کرنا مشکل ہو جائے۔

حصہ
عبد الولی خان روزنامہ جنگ سمیت متعدد اخبارات و جرائد میں اپنے صحافیانہ ذوق کی تسکین کے بعد ان دنوں فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ چلا رہے ہیں۔انشاء پردازی اور فیچر رپورٹنگ ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے۔

جواب چھوڑ دیں