فاٹا قومی دھارے میں

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کو فاٹا کا علاقہ کہا جاتا ہے۔یہ علاقہ سات قبائلی ایجنسیوں (باجوڑ،مہمند،اورکزئی،کرم،شمالی جنوبی وزیرستان)، اور چھ فرنٹیئر ریجن پر مشتمل ہے۔فاٹا کے تمام معاملات وفاقی حکومت ایک خصوصی قانون فرنٹیئر کرائم ریگولیشن کے تحت چلاتی ہے۔اس علاقے میں اگر صحت کی بات کی جائے تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ 2167افراد کے لئے ہسپتال کا ایک بستر میسر ہوتا ہے جبکہ 7670افراد کے لئے ایک ڈاکٹر۔43فیصد لوگوں کو صاف پانی پینا نصیب میں ہوتا ہے۔اگر اس علاقہ کے معیار تعلیم کی بات کی جائے تو 6050 سرکاری سکول رجسٹر ہیں جبکہ 4868صرف کام کر رہے ہیں ان میں بھی 77فیصد پرائمری اسکول ہیں گویا پرائمری کے بعد تعلیمی سہولیات کا فقدان کہیں زیادہ ہو جاتا ہے۔شرح خواندگی سب سے زیادہ خیبر ایجنسی کی ہے جو کہ 34 فیصد ہے اور سب سے کم نارتھ وزیرستان کی جو کہ پندرہ فیصد ہے،اس شرح خواندگی سے اس علاقہ کے تعلیمی معیار کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
فاٹا کے علاقے کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے رکن قومی اسمبلی محسن دراوڈ نے ایک قراد داد پیش کی کہ جس کے تحت فاٹا کے علاقہ کو نہ صرف قومی دھارے میں شامل کیا جائے بلکہ اس علاقے کی ترقی و خوش حالی کے لئے این ایف سی ایوارڈ جس میں تمام صوبوں کو برابر ترقیاتی فنڈ کی فراہمی کی جاتی ہے اس میں سے فاٹا کے لئے 3 فیصد حصہ دیا جائے،خوش آئند بات یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے اس قرارداد کو پاس بھی کیا جو کہ اس بات کا عندیہ ہے کہ تمام پاکستانی عوام اپنے فاٹا کے بھائیوں کے ساتھ سخنے اور درمے کھڑے ہیں۔اس قرارداد کے پاس ہونے سے میرے خیال میں فوری کیا تبدیلیاں ممکن ہو سکتی ہیں۔
فاٹا کے لوگوں میں جو ایک عرصہ سے احساس محرومی تھا وہ ختم ہو جائے گا۔اس علاقہ میں ترقیاتی منصوبہ جات اور سہولیات کی بہتری کے امکانات بڑھ جائیں گے،دہشت گردی کی جنگ میں جو انفرااسٹرکچر کی تباہ حالی ہوئی ہے اس کو از سر نو تعمیر کیا جائے گا،صحت،تعلیم اور روزگار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں نمائندگی بھرپور طریقے سے ہو جائے گی اور ایک روشن مستقبل کی امید کی کرنیں ہر سو بکھرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ظاہر بات ہے یہ سب اس وقت ممکن ہو گا جب تمام پاکستانی اس علاقہ کے لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے اور اس بات کا ثبوت قومی اسمبلی کی اس قرارداد نے دے دیا ہے کہ ہم سب آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کا اس معاملہ میں اتحاد اور این ایف سی ایوارڈمیں سے اپنا تین فیصد حصہ دینا خوش آئند ہے،اس سے یقیناً علاقہ میں ترقی کے ساتھ ساتھ معاشی بہتری بھی آئے گی جو سیاسی استحکام کا باعث بنے گی اور سیاسی استحکام ہی دراصل پاکستان کی ضرورت ہے کیونکہ اسی سے معاشی استحکام اور معاشی انقلاب بھی آئے گا۔اس علاقہ کو اگر جیو اسٹریٹجیک انداز سے دیکھا جائے تو پاکستان کے لئے اس خطہ نے ہمیشہ ڈھال کا کام دیا ہے کہ جب بھی دشمن نے اس علاقہ سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی اسے منہ کی کھانا پڑی اور یہی سے ہی اس کی واپسی کو ممکن بنا دیا گیا اور ہمیشہ ہی اس علاقہ میں دشمن کو ناکوں چنے چبوائے،گویا اس علاقہ کو قومی دھارے میں شامل کر کے اسے ترقی یافتہ بنانا دراصل پاکستان کو خوش حال بنانا ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں