روزہ اورشوگرکی بیماری

شوگر ایک عام بیماری بن چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد افراد شوگر کے مرض میں مبتلاہیں۔ پاکستان میڈیکل کونسل کے ریسرچ سروے کے مطابق پاکستان میں ۵۴ سال سے زائد عمر والے تقریباً ۵۲ فیصد لوگ شوگر کے مریض ہیں۔ یہ مریض بھی رمضان میں روزے رکھتے ہیں یا روزے رکھنا چاہتے ہیں۔
شوگر کے مریضوں کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ رمضان کے مہینے کو بہتر طریقے سے گزارنے کے لیے خصوصی پلاننگ کی جائے اور پلاننگ کا یہ عمل رمضان سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل شروع ہو جانا چاہیے۔ ان کو اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ اگر انھیں رمضان کے روزے رکھنے ہیں اور اچھی طرح سے رکھنے ہیں اور شوگر کو کنٹرول کرنا ہے تو اس کے لیے انھیں کیا کچھ کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے تو انھیں اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کر کے بتانا چاہیے کہ میں رمضان کے روزے رکھنا چاہتا ہوں لہٰذا اس بات کا انتظام کس طرح کیا جائے کہ رمضان کے روزے بہتر طریقے سے گزریں اور شوگر بھی کنٹرول ہو سکے۔
اہم ترین چیز یہ ہے کہ شوگر کی بیماری کے لیے گولیاں استعمال کر رہے ہیں یا انسولین، اوران کے نتیجے میں شوگر کے کنٹرول پر فرق پڑتا ہے یا نہیں۔ شوگر کے مریض کو ڈاکٹرز سے رابطہ کرنا چاہیے اور یہ پلان کرنا چاہیے کہ رمضان میں انسولین کی خوراک (ڈوزنگ) کس طرح ہو گی؟ کتنے یونٹس صبح چاہئیں؟ اور کتنے یونٹس شام میں لینے چاہئیں؟ سحری سے پہلے اورافطار کے بعد گولیوں کا کیا شیڈول ہو گا؟ بالعموم ڈاکٹر تجویز کرتے ہیں کہ جو گولیاں ایک وقت میں لینے والی ہیں، ان کو افطار کے وقت لیا جائے اور انسولین کی ڈوز کو اپنی شوگر کے حساب سے ایڈجسٹ کیا جائے۔ شوگر کا سب سے اہم لیول سحری کے دوگھنٹے بعد مانیٹر کرنے کا ہوتا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ جسم میں شوگر کی مقدار بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ ۰۴۱ سے۰۸۱ ملی گرام فی ڈیسی لیٹر شوگر ہونی چاہیے۔ سحری کے دو گھنٹے بعد اگر شوگر اس سے زیادہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ شوگر زیادہ چل رہی ہے، اس کو بہتر طریقے سے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ انسولین کی خوراک کو یا گولیوں کی خوراک کو ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے لیکن اگر سحری کے دوگھنٹے بعد شوگر۰۴۱ سے کم۰۱۱ یا۰۰۱سے بھی کم ہے تو اس بات کا خطرہ ہے کہ افطار تک شوگر کی مقدار خون میں کم ہو جائے گی۔ شوگر کی مقدار کم ہو جائے تو مریض کو تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ روزہ توڑ دے۔
ڈاکٹرز کو یہ بات مریض کوسمجھانی چاہیے اور مریضوں کو بھی سمجھنی چاہیے کہ شوگر کم ہونے سے سب سے زیادہ اموات یا بیماریاں روزے کے اختتامی گھنٹوں میں ہوتی ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں، اب روزہ ختم ہونے ہی والا ہے، افطار کا وقت قریب ہے، روزہ توڑنے کے بجائے لوگ چاہتے ہیں کہ روزے کو جاری رکھا جائے۔ اگر شوگر کم ہو اور اس کے باوجود یہ سوچ کر روزے کو برقرار رکھا جائے کہ صرف آدھ گھنٹہ یا ایک دوگھنٹے رہ گئے ہیں، کسی طرح روزہ پورا ہو جائے تو یہ سوچ صحت اور زندگی کے لیے بہت خطرناک ہو سکتی ہے۔ اس لیے مریضوں کو واضح طور پر پتا ہونا چاہیے کہ اگر شوگر کی سطح کم ہونا شروع ہو، چاہے افطار میں آدھ گھنٹہ ہی کیوں نہ رہ گیا ہو، روزہ توڑ دینا بہتر ہے، کیونکہ گلوکوز کم ہونے کے نتیجے میں بے ہوشی طاری ہو سکتی ہے اور زندگی کے لیے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
رمضان کے مہینے میں شوگر کے مریضوں کے لیے اس بات کی بھی بڑی اہمیت ہے کہ وہ رمضان سے پہلے اپنے دیگر جسمانی افعال (فنکشن) کا بھی چیک اپ کرائیں۔ بالخصوص گردوں کا فعل، کیونکہ رمضان میں روزے کے دوران پانی کی کمی کی وجہ سے گردوں کے فعل پر اثر پڑتا ہے۔ شوگر کے مریض اپنے گردوں کا چیک اپ اور بلڈ ٹیسٹ کرائیں جسے BUN اور Creatinine کہتے ہیں، اگر بڑھا ہوا ہے تو اس کے باوجود روزہ تو رکھا جا سکتا ہے مگر احتیاط کی ضرورت ہو گی۔ رمضان کے دوران گردوں کے فعل پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ شوگر کا مرض بذات خود گردوں کے لیے خطرناک ہے اور مسلسل پیاسا رہنے کے نتیجے میں گردوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ رمضان میں شوگر کے مریضوں کو خون کی بار بار مانیٹرنگ کا اہتمام کرنا چاہیے، صبح بھی چیک کرنا چاہیے اور شام میں افطار کے بعد بھی۔ فاسٹنگ گلوکوز کی اتنی اہمیت نہیں، لیکن یہ اہمیت ہے کہ سحری کے دو گھنٹے بعد اس پر نظر ڈالی جائے اور افطار کے بعد بھی۔
بالعموم رمضان میں بلڈ گلوکوز پر نظر رکھنے کا اہتمام زیادہ ہونا چاہیے۔ رمضان میں لوگ اس بات کی تو فکر کرتے ہیں کہ کہیں شوگر کم نہ ہو جائے لیکن وہ اس بات کا اہتمام کم کرتے ہیں کہ شوگر زیادہ ہو تو اس کو بھی کنٹرول کرنا چاہیے۔ رمضان میں عموماً کھانے پینے میں احتیاط کم ہوجاتی ہے اور شوگر کی سطح مسلسل زیادہ رہنا صحت، گردوں، آنتوں اور دماغ کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر مسلسل ایک مہینے تک شوگر زیادہ رہے تو نتیجے میں اعصاب اور گردوں پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چنانچہ شوگر کے مریضوں کو یہ بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ شوگر کی سطح مسلسل زیادہ نہ رہے اور اگر ایسا ہو تو اپنی دوا کی خوراک کو ایڈجسٹ کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر سے رمضان کے دوران بھی ملنا چاہیے، اگر شوگر زیادہ ہو رہی ہو تو انسولین کی خوراک کو دوبارہ سے ایڈجسٹ کرنا چاہیے لیکن یاد رہے کہ شوگر ایک اچھے کنٹرول کے اندر رہے، نہ وہ کم کی طرف جائے اور نہ بلندی کی طر ف۔ اس کام میں جتنا ڈاکٹر کا کردار ہے اتنا ہی مریض کا بھی ہے۔ مریض یاد رکھے کہ مقصود صرف روزہ رکھنا نہیں، بلکہ روزے کے ساتھ ساتھ اپنی شوگر کو بہترین طریقے سے کنٹرول میں رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ صحت کے لیے مفید ہو سکے اور صحت کو نقصان نہ پہنچے۔ اس کے لیے پوری مانیٹرنگ کی اور ڈاکٹر کے ساتھ رابطے کی ضرورت ہے۔
جن مریضوں کو دن میں بہت زیادہ انجکشن کی ضرورت ہو، دن میں تین چار مرتبہ انسولین کی خوراک لینی پڑتی ہو، وہ انسولین پمپ پر انحصارکرتے ہوں یا ان کی شوگر کی سطح اچانک کم اوراچانک بلند ہو جاتی ہو، ایسے تمام مریضوں کو روزے نہیں رکھنا چاہیے، ان کو فدیہ ادا کرنا چاہیے، یا اگر صحت بہتر ہو جائے تو قضا روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے، ڈاکٹر بھی ایسے مریضوں کو پہلے سے آگاہ کر دیں کہ ایسی کیفیت میں روزہ رکھنا صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جن مریضوں کے گردے پوری طرح کام نہ کر رہے ہوں ان کا روزے رکھنا ان کے گردوں کے نظام کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ جن مریضوں کی شوگرکی سطح بہت بلند چل رہی ہو اور وہ بے قابو ہوجاتی ہو، ان مریضوں کا بھی روزے رکھنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ان کے لیے ڈاکٹروں کی رائے ہوتی ہے کہ وہ صحت بہتر ہونے تک روزے نہ رکھیں۔
شوگر کے مریض کو روزے رکھنے میں کئی طرح کی احتیاط کرنی چاہیے۔ سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ ان کو بغیر سحری کے روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ سحری کھانا ویسے بھی بابرکت ہے، سحری چھوڑنا ناپسندیدہ ہے، لیکن شوگر کے مریضوں کے لیے سحری چھوڑنا بہت نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس لیے وہ ایک روزہ بھی بغیر سحری کے نہ رکھیں۔ وہ سحری بھی بالکل آخری وقت میں کریں۔ عام لوگ رات کو دو تین بجے سحری کر لیں تو کوئی حرج نہیں لیکن شوگر کے مریض کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ شوگر کے مریض دیر سے سحری کریں جو کہ مسنون بھی ہے۔ نبی کریمa کے ارشادات سے پتا چلتا ہے کہ دیر سے سحری کرنا زیادہ بہتر ہے اور اس کی فضیلت ہے۔ سحری میں کمپلیکس کاربوہائیڈریٹ چکنائی والی غذا استعمال کی جا سکتی ہے جو جسم کو زیادہ دیر تک غذائیت فراہم کرتی ہے۔ جو لوگ سحری سے قبل انسولین استعمال کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ سحری سے پہلے انسولین کی خوراک کو سحری کے بعد کی شوگر کی سطح کے حساب سے ایڈجسٹ کریں اور وہ جو انسولین لے رہے ہیں اس میں شام کے وقت انسولین کی مقدار زیادہ ہو اور صبح کے وقت کم۔ اسی طرح شوگر کی گولیاں استعمال کرنے والے مریض اگر دن میں صرف ایک وقت گولی لے رہے ہیں تو ان کو چاہیے کہ گولی افطار کے بعد لیں۔ اگر دو وقت لے رہے ہیں تو کم مقدار والی گولی سحری میں لیں، زیادہ مقدار والی گولی افطار میں۔ شوگر کے مریضوں کے لیے پانی کی مقدارکو سنبھالنا (Manageکرنا) بہت ضروری ہے۔ عام طور پر 24 گھنٹے میں جسم میں دو لیٹر پانی جانا چاہیے۔ شوگر روزہ دار مریضوں کی بھی کم سے کم ضرورت یہ ہوتی ہے کہ دو لیٹر پانی پورے دن میں پی لیں، اس کا ٹھیک بندوبست کریں اور پانی کی مقدار کو ناپیں بھی۔ دو لیٹر پانی کی بوتل اپنے پاس رکھ لیں اور افطار سے لے سحری تک دو لیٹر پانی پورا ختم کر لیں۔ اس دو لیٹر پانی کا جسم کے اندر رہنا اس بات کے لیے کافی ہوگا کہ 24گھنٹے تک گردوں کا فعل درست رہے۔
بعض لوگوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ روزے کے دوران شوگر چیک نہیں کر سکتے، اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے، اس کو دور کر لینا چاہیے۔ شوگر چاہے بلڈ اسٹک کے ذریعے چیک کی جائے یا لیب میں جا کر، کسی حالت میں روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ایک یا کئی مرتبہ بھی شوگر چیک کی جا سکتی ہے۔ بلڈ شوگر چیک کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن روزہ نہیں۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزہ رکھنے کا عمل انسان کو شوگر سے بچاتا بھی ہے۔ جو لوگ شوگر سے محفوظ ہیں اور سال بھر کے دوران مہینے میں ایک مرتبہ روزہ رکھتے ہیں ان کو بھی یہ مرض کم ہوتا ہے۔ لہٰذا جن لوگوں کو شوگر کا مرض نہیں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس مرض سے محفوظ رہیں، انھیں چاہیے کہ روزے کا اہتمام کریں اورہر مہینے کم از کم ایک دن روزہ رکھیں۔ حضور اکرمa کی سنت ہے کہ وہ ہر مہینے کم از کم تین دن روزہ رکھتے تھے۔ ممکن ہو تو اس سنت پر عمل کریں۔

حصہ
mm
پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر ملک کے معروف نیورولوجسٹ ہیں جو آغا خان ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔صحت کے حوالے ملکی و بین الاقوامی جرائد میں ان کے تحقیقی مقالے شایع ہوتے رہتے ہیں

جواب چھوڑ دیں