سیّدۃ النّساء اھل الجنّۃحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا

اللہ تبارک وتعالی نے امام الانبیا ءﷺ کوکائنات کے لیے رحمۃ للعالمین بناکرمبعوث کیا جوہستی خودرحمۃ للعالمین ہے ان کی نظرِرحمت جس ذرہ کائنات پرپڑگئی اس کامقام ومرتبہ اوج ثریا کوپہنچ گیا توصلب رحمۃ للعالمین ﷺسے جلوہ افروزہونے والے نفوس کی عظمت ومرتبہ اورمقام کتنا اونچاہوگا، اس کا اندازہ شاید کائنات میں کسی کو نہ ہو بہرحال اتنا ضرورہے کہ رب محمدﷺنے اپنے محبوب پردرودوسلام ”اللہم صلّ علی محمد وعلی اٰل محمد“میں آپ کی آل واولاد کو بھی قیامت تک کے لئے شامل کردیا۔
دنیا میں کائنات کے سردارﷺ کی لخت جگرو چہیتی اورجنت کی عورتوں کی سردارہونے کا شرف جس عظیم المرتبت ہستی کو حاصل ہے انہیں حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہا جاتاہے۔
آپ کی ولادت باسعادت بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ سال قبل 20 جمادی الثانی بروز جمعۃالمبارک مکہ مکرمہ میں مروہ پہاڑی کے دائیں ہاتھ ایک اونچا بازار تھااس بازار کی ایک گلی میں جہاں کسی زمانے میں صرّافوں کی دکانیں ہواکرتی تھیں حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کا مکان تھا ہوئی اسی مبارک مکان میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر تینوں شہزادیوں (صاحبزادیوں) کی پیدائش ہوئی اورہجرت کے زمانہ تک ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکونت اسی مبارک مکان میں تھی اسی لئے علماء کرام نے لکھا ہے کہ مکہ مکرمہ میں مسجد حرام اوربیت اللہ کے بعد سب سے متبرک گھر یہی ہے۔
اورکیوں نہ ہو کہ اس کائنات کی سب سے عظیم ہستی امام الانبیاء ﷺسے جس کونسبت ہوجائے تو اس کی شان بڑھ جاتی ہے تو جس مکان میں آپ کا ایک عرصہ تک قیام رہا اس کی کیا شان ہوگی۔
حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک ابھی صرف پانچ سال ہی کی تھی کہ آپ کی والدہ ماجدہ ام المؤمنین حضرت سیدّہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا اوریوں آپ رضی اللہ عنہا نے شفقت پدری کے علاوہ شفقت مادری بھی اپنے پیارے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی اور یقیناً آپ چونکہ سب سے چھوٹی اورچہیتی تھیں تو آپ کا اکثر وقت منبع برکات و تجلیات کی آغوش رحمت میں گزرتا تھا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اپنے ابا جان سے محبت دنیا کے کسی پیمانے سے جانچی نہیں جاسکتی یہ محبت بڑی ہی والہانہ اوربیان سے باہر ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اس چاند سی شہزادی سے اتنا پیار تھا کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام جب بھی کسی سفر پر روانہ ہونے کا قصد کرتے تو پہلے اپنی چہیتی بیٹی کے گھرجاتے اوران سے ملاقات کرکے اپنی آنکھوں کو اپنی لخت جگر کی زیارت سے ٹھنڈا کرتے اورپیار سے ان کی پیشانی مبارکہ پر بوسہ دیتے اوربے مثال بیٹی فرط محبت میں اپنے پیارے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کا شرف حاصل کرتی ایسا معلوم ہوتا کہ باپ بیٹی کی محبت انتہائی جذباتی اور غیر معمولی تھی۔پھر جب آپ علیہ السلام سفر سے واپس لوٹتے تو سب سے پہلے اپنی لخت جگر کے ہاں جاتے اوردونوں باپ بیٹی اپنی پاکیزہ محبتوں کا تبادلہ کرتے ۔عظیم المرتبت باپ پیغمبرآخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی لخت جگرسے اس قدر محبت تھی کی ایک موقع پر انتہائی جذباتی انداز میں ارشاد فرمایا۔۔
“فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جو چیز اسے اذیت دے اس سے مجھے اذیت ہوتی ہے اورجوبات اسے پریشان کرے وہ مجھے بھی پریشان کرتی ہے”
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے ابا جان سے غیر معمولی محبت تھی نبوت کے ابتدائی دورمیں ایک دن حضورصلی اللہ علیہ وسلم بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک بد بخت گستاخ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سراقدس پر نعوذباللہ مٹی ڈال دی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں واپس گھر لوٹے چہیتی بیٹی نے جب اپنے کریم اباصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دیکھی تو پھوٹ پھوٹ کررونے لگی وہ اپنے ابا جان کا سردھوتی جاتیں اورفرط غم میں آنکھوں سے آنسو بہاتی جاتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری لخت جگر صبر کر۔اللہ رحمٰن و رحیم تمہارے باپ کا حامی و مددگار ہے۔وہ تمہارے والد کو قریش کی دست درازیوں اورایذارسانیوں سے محفوظ رکھے گا۔سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہر کٹھن موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا مگر آپ کی اس چہیتی و لاڈلی شیر خداحضرت علی کرم اللہ وجہ کی زوجہ نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر اپنے پیارے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا ہے۔
جو ماں خود اتنی جانثاراورباوفا ہو تو اس کے بطن سے جنم لینے والے شہزادے کس قدر اعلی وارفع شان والے ہوں گے۔اللہ تعالی نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنھما جیسے ایسے شجاع اورقابل فخر فرزند عطا کیے کہ جنہوں نے اپنے ناناعلیہ السلام کے دین کی آبیاری کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیئے اوریہ ثابت کیا کہ ان کی رگوں میں سیّدۃ النسا ء اور حیدرکرارجیسی عظیم المرتبت ہستیوں کا خون دوڑتاہے اوریہ وہ عظیم شہزادے ہیں کہ جنکی اماں جنت کی عورتوں کی سرداراوریہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہازاہدہ وعابدہ تھیں ہرگھڑی اپنے رب کی یادمیں بسرکرتیں اس کے علاوہ امورخانہ داری بھی انتہائی ذمہ داری سے نبھاتیں۔ایک دفعہ آپ کے محبوب خاوندشیرخداکرم اللہ وجہ نے آپ سے کہاکہ اپنے اباجان کے ہاں سے کوئی خدمت گزارباندی وغیرہ لے آئیں کہ ہاتھوں اورسینہ پردن بھرکی تکان دہ مشقت سے داغ پڑگئے اورخاصی نحیف ہوگئی تھیں چنانچہ جب آپ رضی اللہ عنہاکائنات کے سب سے عظیم وشفیق اباجان کے پاس اپنی حاجت لے کرآئیں توں حیاکااس قدرغلبہ ہواکہ بناسوال کے واپس گھرلوٹ آئیں۔زہراء کے اباﷺفوراًاپنی لخت جگرکے گھرپہنچے اورپوچھا میری شہزادی آپ گھرتشریف لائیں اورپھرجلدواپس لوٹ آئیں آخرکیوں ِ؟شرم وحیاء کی پیکربیٹی آنکھیں جھکائے کھڑی رہیں اتنے میں ان کے خاوند سیدناعلی المرتضی ؓ فرمانے لگے کہ میں نے ہی انہیں آپ کے ہاں کوئی باندی وغلام لینے کے لئے بھیجاتھا جوامورخانہ داری میں ان کا ہاتھ بٹادے یہ سن کررحمۃ للعالمین ﷺنے اپنی سب سے چہیتی ولاڈلی بیٹی کوجوفرمایاوہ قیامت تک کے لئے ہربیٹی کے لئے اسوہ ہے ارشاد فرمایا فاطمہ بیٹی صبرکرحضرت موسیٰ علیہ السلام اوران کی بیوی کے پاس ۰۱برس تک ایک ہی بچھونا تھاوہ بھی ان کاچوغہ تھارات کواسی کوبچھا کرسوجاتے تھے۔تو تقوی حاصل کراوراللہ سے ڈراوراپنے پروردگارکافریضہ اداکرتی رہ اورگھرکے کاروبارکوانجام دیتی رہ اورجب سونے کے واسطے لیٹاکرے توسبحان اللہ ۳۳مرتبہ الحمدللہ ۳۳مرتبہ اوراللہ اکبر۴۳مرتبہ پڑھ لیاکرویہ خادم سے زیادہ اچھی چیزہے۔فرمانبرداربیٹی نے عرض کیامیں اللہ اوراس کے رسول سے راضی ہوں۔سوچنے کی بات ہے دوجہاں کے سرداراپنے جگرکے ٹکڑے کوکیاکچھ نہیں دے سکتے تھے آسمان سے حوریں بھی ان کاہاتھ بٹانے کو اپنے لئے سعادت سمجھتیں لیکن دنیاکاچندروزہ راحت وآرام آخرت کی لازوال زندگی کے مقابلہ میں ان کی نظرمیں کوئی اہمیت نہ رکھتا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی بیماری کے ایام میں اپنی پیاری لخت جگر کو پاس بٹھا کر سرگوشی کی جس کے بعد سیدہ کی مبارک آنکھوں سے آنسوؤں کی جھری جاری ہوگئی یہ دیکھ کرزہرہ کے اباﷺ نے دوبارہ سرگوشی کی جس کے بعدوہ مسکرانے لگیں۔دراصل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کو اپنے وصال کی خبر دی تھی جسے سن کر وہ روپڑیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسلّی دینے کے لئے ارشاد فرمایا فاطمہ بیٹی میرے گھر والوں میں سے تم سب سے پہلے مجھ سے ملو گی اور میں تمہارے لئے کتنا بہترین پیش رو ہوں۔اورکیاتم اس بات پر راضی نہیں کہ تم تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار بنو تو اس پر مجھے تسّلی ہوئی اور میں ہنس پڑی۔
چنانچہ باپ بیٹی کی یہ محبت اتنی شدید تھی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف ۶ ماہ کا قلیل عرصہ زندہ رہیں اور پھر ہمیشہ کے لئے اپنے پیارے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عالم برزخ میں چلی گئیں۔آپ رضی اللہ عنہا کی وفات ہجر ت کے گیارھویں سال رمضان المبارک میں رات کے وقت ہوئی اور آپ کی وصیت کے موافق آپ رضی اللہ عنہا کو رات کے اندھیر ے میں مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن کردیاگیا۔مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں باب السّلام سے داخل ہوکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پر درود وسلام پڑھنے کے بعد جونہی ہم باب جبرائیل علیہ السلام سے باہر نکلیں تو بالکل سامنے کچھ ہی فاصلے پر جنت البقیع کا تاریخی قبرستان ہے جس کے داخلی دروازے کی دائیں جانب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری لخت جگر حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا اوران کے بیٹے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ حضرت عقیل بن ابی طالب رضی للہ عنہ اوردیگر اہل بیت کی قبور ہیں۔
االلہ تعالی ان قدسی صفات ہستیوں کے درجات کو مزید بلند کرے اورہمیں ان کی سچی محبت اوراطاعت کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین

حصہ

جواب چھوڑ دیں