قحط الرجال

پروین شاکر کا ایک مشہور شعر ہے

یوں تو ہوں اس کی دسترس میں مگر

مجھ کو میری رضا سے مانگتا ہے

ہم کب غیروں کے دست نگر نہیں رہے۔ جب سے برصغیر کا تخت و تاج مسلمانوں سے چھنا ہے اس وقت سے تا دم تحریر، ہم غیروں کی غلامی سے باہر نہیں آسکے ہیں۔ اب تو حال یہ ہو گیا ہے اگر کبھی خود آقا نے تنگ آکر ہمیں غلامی کے پنجرے سے نکال باہر پھینکا تو شاید ہم مر ہی جائیں اس لئے کہ غلامی ہماری رگ و پے میں اتنی سرائیت کر چکی ہے کہ آزادی ہماری موت کا سبب بن جائے گی۔ بقول شاعر

اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے

اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے

اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کا معرض وجود میں آجانا ہے۔ ایک طویل مدت کے بعد لاکھوں انسانوں کی جانوں کی قربانی کے صلے میں ہم نے انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی کا طوق گلے سے اتار کر ایک آزاد و خود مختار خطہ زمین حاصل کیا تھا لیکن 71 برس کے بعد بھی ایسا ہی لگتا ہے جیسے کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔ ہم اُسی طرح پابند سلاسل ہیں اور اگر کبھی غلامی کی زنجیریں شور قیامت برپا کرنے سے باز رہیں تو ہمارادل وحشت زدہ ہوکر ہماری ہی کنپٹیوں میں دھڑکتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فی زمانہ کوئی بھی ملک مکمل آزاد نہیں۔ وہ کسی نہ کسی انداز میں دنیا کی کسی بھی بڑی طاقت کے آگے سجدہ ریز نظر آتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے ہر معاملے میں مجبوری کی ایک تصویر بنا ہوا نہیں۔ ساری دنیا ایک دوسرے سے اپنے اغراض و مقاصد میں بری طرح جکڑی نظر آتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اگر کوئی ملک کسی مقام پر کسی دوسرے کے قبضہ قدرت میں ہے تو کسی اور معاملے میں وہ اُسی ملک کے بیشتر معاملات کو اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے نظر آتا ہے۔ یہ آپس کی لین دین ہی ہے جس کی وجہ سے ہر ملک کہیں کسی پر غالب ہے تو کہیں کسی کے ہاتھوں مغلوب لیکن پاکستان اب اس مقام پر آن پہنچا ہے جہاں شاید ہی دنیا کے کسی ملک کے معاملات پر اسے کسی قسم کی کوئی سبقت یا برتری حاصل ہو اور اگر کوئی ملک اسے آنکھیں دکھانا چاہے تو وہ بھی جواب میں اپنی آنکھیں لال پیلی کر سکے۔ معاملات اب اس مقام تک جا پہنچے ہیں جہاں اپنے ملک کے حساس اداروں کو چلانے کیلئے بھی ماہرین کو دنیا کے دوسرے ملکوں سے بلا بلا کر ان کے حوالے کرنے کی نوبت آگئی ہے۔ اگر یہی سلسلہ دراز ہوگیا تو پھر بعید نہیں کہ پورا ملک ہی غیروں کے حوالے کرنا پڑ جائے۔

آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے لیتے اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ جن اداروں کی وجہ سے ہم ان قرضوں کی واپسی کی بہتر منصوبہ بندی کرنے کے لائق ہو سکتے تھے وہ ادارے ہی آئی ایم ایف کے ہاتھ میں پکڑانے پڑ رہے ہیں۔ بینک دولت آف پاکستان ہو یا ایف بی آر، ان کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا جانا ایک ایسا عمل ہے جیسے اپنا جسم اور اپنی جان ہی کسی کے حوالے کر دی جائے۔ کہنے کو پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے اور ہر سیاسی پارٹی کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ وہ 22 کروڑ عوام کی نمائندہ جماعت ہے۔ جس ملک میں 22 کروڑ انسان رہتے ہوں، جس ملک میں بڑے بڑے تعلیمی ادارے ہوں، اعلیٰ یونیورسٹیاں ہوں، پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعدا اتنی ہو کہ جو پتھر بھی الٹا جائے اس کی نیچے سے ایک پی ایچ ڈی نکل آتا ہو، اس ملک کا عالم یہ ہو کہ اس کے پاس ملک چلانے والا، اس کی معیشت کو بہتر کرنے والا، اس ملک کے قوانین کو اس انداز میں ڈھالنے والا کوئی ایک انسان بھی نہ ہو جو ملک کی تقدیر پلٹ کر رکھ دے بلکہ ملک کو چلانے والے بھی بیرونی دنیا سے طلب کرنے پڑ رہے ہوں، اس ملک کے متعلق یہ تصور کرلینا کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، اس کے اپنے پاؤں بھی ہیں اور وہ اتنے مضبوط ہیں کہ وہ اپنے پیروں پر خود کھڑا ہو سکتا ہے، دیوانے کی بڑ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

ان سب حالات کو سامنے رکھا جائے تو امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کا یہ کہنا کہ ملکی معیشت کو براہ راست آئی ایم ایف کے حوالے کردیا گیاہے اور اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر جیسے انتہائی حساس قومی مالیاتی اداروں کو آئی ایم ایف کی دسترس میں دے دیا گیاہے، نہایت دکھ والی بات ہی سہی لیکن کیا کیا جائے کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے مفر کسی صورت ممکن نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ بہت شور تھاکہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے لیکن یکدم آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی ہوگیا اور ساتھ ہی آئی ایم ایف کے ملازم کو استعفا دلا کر اسٹیٹ بینک کا گورنر لگادیا گیا۔ گزشتہ 3 دن میں کی جانے والی تعیناتیوں پر پوری قوم تشویش میں مبتلا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا کوئی بھی ملازم اپنے اداروں کے اشاروں پر چلتے ہوئے اُن کے مفادات پورے کرے گا یا اسے پاکستان کی بہتری عزیز ہوگی؟۔ سراج الحق کا یہ کہنا سو فیصد بجا ہے کہ حکومت نے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کر کے ملکی معیشت کو دائو پر لگا دیا ہے ۔ اب حفیظ شیخ ،رضا باقر اور احمد مجتبیٰ میمن پر مشتمل ٹرائیکا آئی ایم ایف کے مفادات کا تحفظ کے علاوہ کیا اور بھی کچھ کرے گا؟۔

ایک زمانہ تھا جب پاکستان اپنے سارے محکمے خود ہی چلایا کرتا تھے۔ محکموں کو چلانے کے سلسلے میں اسے کبھی بیرونی امداد کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہ قحط الرجال والی کیفیت اب کیوں ہے؟۔ یہ تو ملک کے بڑے بڑے مالیاتی اور حساس ادارے ہیں، یہاں تو عالم یہ ہوگیا ہے کہ وہ محکمے اورادارے جن کی نوعیت اتنی حساس نہیں، وہ بھی پاکستان کے ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں۔ پاکستان اسٹیل، پی آئی اے، واپڈا، ٹی اینڈ ٹی، پاکستان پوسٹ اور اسی طرح کے بہت سارے ادارے بتاہی و بربادی کا شکار ہوتے جارہے ہیں لیکن پاکستان کا کوئی ایک طبقہ بھی ایسا نہیں جو اس تباہی و بربادی کے اسباب جاننے کیلئے تیار ہو۔ اس تباہی و بربادی کا جب بھی جائزہ لیا جائے گا تو ایک ہی نتیجہ سامنے آئے گا اور وہ میرٹ کے خون کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔ پاکستان میں بنایا جانے والا “کوٹا سسٹم” تابوت کی وہ پہلی کیل تھی جس کو خود پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے پاکستان کے تابوت میں ٹھونکا۔ یہ وہ پہلا دن تھا جب پاکستان کی تباہی و بربادی کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ اس قانون کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کا ہر ادارہ دیمک زدہ ہو گیا اور اب یہ حال ہے کہ پاکستان کا ہر محکمہ اس چوکھٹ کی مانند ہوگیا ہے جو اوپر سے تو بہت خوبصورت نظر آتی ہے لیکن اندر سے بالکل کھوکھلی ہے جو ایک معمعلی سے دباؤ پر بھی ریت کی طرح ریزہ ریزہ ہو سکتی ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ تباہی کے اس دہانے پر پہنچنے کے بعد بھی ہم اپنی کسی غلطی کو ماننے اور اپنے آپ کو اس سے دور کرنے کیلئے تیار نہیں۔

بات کسی زمانے میں آئی ایم سے قرضہ لینے کی انگلی پکڑ وانے سے شروع ہوئی تھی لیکن اب عالم یہ ہے کہ اس نے ہمارا پہنچا تک پکڑ لیا ہے۔ ہماری مجبوری کا عالم بھی یہ ہو گیا ہے کہ اگرورلڈ بینک یا آئی ایم ہمیں پورے کا پورا بھی مانگنا چاہے تو ہمارے پاس خود سپردگی کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں