ایک دن مجھے دے دو

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے گذشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پختون تحفظ موومنٹ کے ہر ہر کام اور سرگرمیاں فوج کی نظرمیں ہیں کہ ان کے عزائم کیا ہیں،ان کو فنڈنگ پڑوسی ملک کس طرح سے فراہم کر رہاہے،افغانستان کے راستے کیسے وہ رقم وصول کرتے ہیں کس طرح سے اوپن ہنڈی کے ذریعے وہ غیر ملکی فنڈنگ اپنے اکاؤنٹ میں جمع کر وا رہے ہیں،ہال میں موجود صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں سوالیہ انداز میں پوچھا کہ آپ بتائیں یہ سب پیسہ کہاں استعمال ہو رہا ہے،یقیناًملک دشمن عناصران پیسوں کا غلط استعمال کریں گے۔اگرچہ ان تمام سوالوں اور تفصیل پر کچھ صحافیوں کو تحفظات بھی حاصل تھے اور کچھ صحافی جنرل صاحب کے جوابات سے مکمل اتفاق بھی نہیں کر پارہے تھے۔تاہم ایک تجویز جو میرے خیال میں بہت معقول اور مناسب دکھائی دی کہ جب حامد میر نے فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے الوپ افراد کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تو میجر جنرل آصف غفور نے ہلکے پھلکے طنزیہ انداز میں اس طرح سے جواب دیا کہ میر صاحب آپ تو خود بہت کچھ جانتے ہیں اور وہ آپ لوگوں سے ملتے بھی رہتے ہیں تو کیوں نہ ان سے آپ سوال لے لیں اور ان پر ڈبیٹ کروا لیں ساتھ ہی ساتھ صحافی برادری کو خوش کرنے کے لئے یہ بھی عندیہ دیا کہ آپ تو ہماری آنکھیں اور کان ہیں اور اگر میڈیا 1971 میں اتنا آزاد اور پاورفل ہوتا اور آپ ہمیں ہماری کمزوریوں کی نشاندہی کرواتے تو ہو سکتا ہے کہ اس جنگ کا نتیجہ کچھ اور ہوتا۔
یہ سب باتیں اپنے جگہ بجاتاہم ان کی پریس کانفرنس میں جو سب سے اچھی بات مجھ سمیت بہت سے اورلوگوں کو لگی ہو گی جو میجر جنرل صاحب نے تمام میڈیا پرسن اور مالکان کو مخاطب کر کے کہا کہ میں نے ان سب سے ایک عرض کی تھی اور اب بھی کرتا ہوں کہ ہفتہ کا ایک دن صرف مجھے دے دیں یعنی میری مرضی کے مطابق اس دن میڈیا چلے تو آج بھی ہم بہت سے مسائل کا حل نکال سکتے ہیں،کیونکہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم رات سات سے گیارہ تک صرف مسائل بتاتے ہیں ان کا حل کبھی کوئی نہیں بتاتا توکیوں نہ ہم کوئی ایسا پروگرام شروع کریں کہ جس سے مسائل میں اضافہ نہ ہو بلکہ مسائل کا حل ہم تلاش کرنے میں کامیاب ہو سکیں،وہ اس لئے کہ مسائل کی نشاندہی تو ایک ریڑھی بان،رکشہ چلانے والا،اور دن بھر مزدوری کرنے والا بھی بتا سکتا ہے۔ہمیں کرنا کیا ہے کہ ایک دن ایسا رکھیں کہ جس میں اگر آپ ملک میں جوڈیشل ریفارمز چاہتے ہیں تو پرانے ججوں کو بلا کر ان سے ان کا موقف لیں اور اصلاحات متعارف کروائیں۔کسی دن ماہر تعلیم کو بلائیں اور ان سے ان کے تجربہ کی بنا پر ان کی تجاویز لیں اور پھر ان تجربات کی روشنی میں اصلاحات قائم کریں،اسی طرح پولیس ریفارمز کرنی ہو تو پولیس کے تجربہ کار افسران کو بلاکر ان کی رائے لی جائے کہ کیسے ہم پولیس سسٹم کو درست کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہا، ٹھیک ہے کہ ان کے مسائل ہو سکتے ہیں اگر ایسا ہی ہے تو پھر انہیں اپنے حلقہ میں بیٹھ کر لوگوں کے تحفظ اور مسائل کے حل کی بات کرنا چاہئے نا کہ کسی دوسرے ملک میں بیٹھ کر پاکستان کے کسی ایک علاقے کی بات کی جائے،ایسا نہیں ہوتا اگر مسائل کا حل کرنا ہے تو پھر اپنے حلقہ میں بیٹھ کر ہی کرناہوتا ہے۔مزید یہ جو آج آپ کو اس علاقے میں سکون نظر آرہا ہے وہ بھی ایک ادارے کی مر ہون منت ہے وگرنہ کیا ہے کہ چھ ہزار شہدا کے والدین ہم سے سوال کرتے ہیں آپ سے نہیں کہ ہمارے بچوں کے قاتلوں کا کیا بنا؟اب ذرا سوچیں کہ جب میڈیا پر آکے کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے،اس وقت ہم پر اور ان والدین پر کیا بیتتی ہوگی جن کے بچے دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہوئے۔اگر مسائل کا حل تلاش نہیں کریں گے تو آج اگر تین مسائل ہیں تو کل دس بھی ہو سکتے ہیں،اور ہم سب آئین اور قانون کی پابندی کریں کیونکہ قانون سب کے لئے ہے صرف ایک ادارہ فوج کے لئے نہیں۔بات تو سچ ہے کہ جب ہم دوسروں کی آنکھوں میں موجود بال کی بھی نشاندہی کریں گے اور اپنی آنکھ کے شہتیر کو بھی نظر انداز تو پھر مسائل کا حل نہیں مزید مسائل ہی پیدا ہونگے کبھی بھی الجھی ڈور کا سرا ہم تلاش نہیں کر پائیں گے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں