”کشمیر میں پیلٹ گن کا استعمال“

یوں توکشمیر یوں کی ہر رات سیاہ رات ہوتی ہے۔لیکن سال 2018/19 بہت کٹھن رہے ہیں۔ اب تک باوجود عالمی دباؤ کے بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں سفاکانہ، بے رحمانہ کاروایاں جاری ہیں۔ بھارتی درندگی کی داستان بہت طویل ہے۔ گزشتہ سال 20 اپریل کو بذدل بھارتی فورسز نے ضلع اننت اور شوپیاں میں بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپریشن کے بہانے 17 کشمیری نوجوانوں کو شہید اور 100 کے قریب عام شہریوں کو زخمی کردیاتھا۔ بھارتی مظالم کی انتہا کی خواہش ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ اسی دن شہید نوجوانوں کے جنازوں پر بھارتی فوج نے اندھا دھند گولیاں برسائیں اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پیلٹ گن کا بے دریغ استعمال کیا۔ یاد رہے پیلٹ گن کااستعمال بھارتی فوج کشمیر میں کھلے عام کرتی ہے،جس پر عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹر نیشنل کو سخت ایکشن لینا چاہیے۔پیلٹ گن سے جان تو نہیں جاتی،لیکن متاثرہ شخص زندہ لاش بن جاتا ہے۔ڈار ایک کشمیری نوجوان ہے۔وہ گریجویشن کے آخری سال میں تھا، جب پیلٹ گن نے اس کی آنکھیں چھین لیں۔ ڈار اب ذہنی ٹارچر،دماغی جھٹکے، ڈپریشن میں مبتلا ہو چکا ہے۔ پیلٹ گن ایک طرح کی خظرناک گن ہے، جس میں سے5 سے 13 کارتوس ایک ساتھ فائر کیے جاتے ہیں۔ ایک کارتوس میں 500 لوہے کے بال ہوتے ہیں،جو انسانی جسم خاص طور پر آنکھوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ پیلٹ گن سے زخمی آنکھوں کا علاج بہت مشکل اور مہنگا ہوتا ہے۔بھارت کے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر میں ایسا ہی ایک نوجوان کبیر جو پیلٹ گن سے زخمی ہوا، اس کے والدین کو علاج کے لیے طرح طرح کی اذیتیں سہنا پڑیں۔کبیر کاوالد ریڑی بان ہے اور وہ مشکل سے اپنے گھر کا خرچ چلاتاہے۔ بھارت کشمیریوں پر ظلم کابدنماداغ کبھی مٹا نہیں سکے گا۔اور ایک دن آزادی کی سحر ضرور ہوگی۔
گزشتہ سال کو اگر کشمیریوں کے لیے بھیانک ترین سال کہیں تو برا نہ ہوگا۔ یہ سال ان کے لیے سب سے زیادہ خونی اور تشدد کا سال تھا۔ جس میں تقریباََ300 کشمیری شہید ہوئے۔اس میں عام شہری بھی تھے۔ایک عشرے کے دوران بھارتی فوج نے 5000 کشمیریوں کے گھر ویران کیے۔اس دروان اعداد شمار کی روشنی میں 2008 سے 2019 تک یہ تعدادسالانہ اوسط کے لحاظ سے کہیں زیادہ ہے۔ رواں ہفتے کے دوران کشمیرمیں شہید نوجوانوں کی تعداد 22 ہو چکی ہے۔جس کی تصدیق کشمیر میڈیا نے بھی کی ہے۔ اور مزیدبھارتی ریاستی دہشت گردی اب بھی جاری ہے اور آئے دن کشمیری مظاہرین پر پیلٹ گنوں سے حملے اور آنسوگیس کی شیلنگ کی جاتی ہے۔ قابض فوج گھر گھر محاصرے اور تلاشی کی آڑ میں حریت پسند نوجوانوں کو شہید کرتے ہیں۔ اپنی بذدلی پر پردہ ڈالتے ہوئے قابض بھارتی فوج نے پہلے ہی گلگام میں موبائل فون، انٹر نیٹ اور ٹرین سروس معطل کر چکی ہے۔ کشمیریوں پر پیلٹ گن کا اندھا استعمال ہورہا ہے اور نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ تماش بین بنی ہوئی ہیں۔ پیلٹ گن کتنا مہلک ہے اس بات کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ بھارتی عدالت نے سرکار سے وضاحت طلب کرتے ہوئے پوچھا کہ اہلکاروں کو کیسے پیلٹ گن کی تربیت دی جاتی ہے؟عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا بھر میں پیلٹ گن کی مذمت کیے جانے کے باوجود کشمیر میں اس کا بے دریغ استعمال کیوں نہین روکا جارہا۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ دہلی اور کشمیری سرکار یہ تہیہ کر چکی ہیں کہ کشمیری نوجوانوں کو یاتوبے کار کردیا جائے یا شہیدکر دیا جائے۔ پیلٹ گن سے اب تک 210 افراد بینائی کھو چکے ہیں ان میں کم سن جنیداحمد بھی شامل ہے،جس کے سینے اور سر میں پیلٹ گن کے چھرے لگے اور موقع پر شہید ہوگیا۔بھارتی فوج آزادی کے حامی مظاہرین پر پیلٹ گن کااستعمال کرتی ہے اور دنیا کی آنکھوں میں یہ پٹی باندھ رکھی ہے کہ پیلٹ گن کوئی شاٹ گن نہیں۔اس سے انسانی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔بھارتی چہرے سے پیلٹ گن کا یہ کالا نقاب بارہ سالہ جنید احمد کی لاش نے اتارا، جو بھارتی پیلٹ گن کا نشانہ بننے کے بعدبارہ گھنٹوں تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اسپتال میں دم توڑ گیا۔
بھارتی فوج کی جانب سے کشمیریوں پر پیلٹ گن کااستعمال انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، جس پر سخت ایکشن لیا جانا چاہیے۔ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ مسئلہ نہیں،بلکہ یہ عالمی طور پر تسلیم شدہ مسئلہ ہے۔ اوراسے اقوام متحدہ بھی مانتی ہے۔جب کہ پہلی بار اس مسئلے کو بھارت ہی اقوام متحدہ لے کر گیا تھا۔اقوام متحدہ کی کئی قرار دادوں میں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دی گئی ہے۔ اس کے باوجود دنیا بھارت کو کشمیریوں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے پر روکنے سے قاصر ہے۔ جینوا کنونشن کی رو سے دنیا بھر میں ایسے مہلک ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی ہے،جن سے انسان کو غیر ضروری نقصان پہنچے اور پیلٹ گن بھی انہی مہلک ہتھیاروں میں شامل ہے۔ بھارتی قابض فوج پیلٹ گن کے استعمال کے ساتھ ماورائے عدالت قتل، خواتین کی آبروریزی اور کشمیریوں کی املاک کو نقصان پہنچانے جیسے انسانیت سوز جرائم کی مرتکب ہے۔اور ان جرائم کی پاداش میں اسے عالمی عدالت انصاف کے کٹھرے میں ایک خطرناک مجرم کی حیثیت سے کھڑا کیا جانا چاہیے۔
اس بھارتی درندگی کو عالمی میڈیا نے کورج سے بھارتی مظالم کو بین الاقوامی سطح پر نمایاں کیا۔مختلف بین الاقوامی اخبارات نے کشمیر میں پیلٹ گن کے استعمال کو انسانی بینائی کے لیے خطرناک قرار دیا۔ نیویارک ٹائمز نے سرخی لگائی:”مقبوضہ وادی کے اسپتال پیلٹ گن کے زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں“۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا:”بھارت مقبوضہ وادی میں پیلٹ گن کا بے دریغ استعمال کررہا ہے اس طرح کے مظالم سے بھارت اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔اس سے بھارت پر انسانی جان کو نقصان پہنچانے اور اعضاء کو ناکارہ بنانے جیسے جرائم لگائے جا سکتے ہیں“۔ الجزائر نے بھارتی مظالم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا:”اگر عالمی برادری نے بھارت کے ان جرائم پر اپنے ضمیروں کو نہ جھنجھوڑا تویہ خاموشی بڑے سانحے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔کشمیری عوام کا احتجاج پھرعالمی برادری کے لیے امتحان ہوگا۔لہذا عالمی برادری کشمیر میں جاری بھارتی طاقت کا بیجا استعمال رکوائے۔ اور پیلٹ گن پر مکمل پابندی لگائی جائی“۔
کشمیر میں پیلٹ گن کے استعمال کی گونج برطانوی پارلیمنٹ میں بھی سنی گئی ہے۔2 سال قبل یورپی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہونے والے واجد خان نے برطانوی پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں کہا کہ کشمیر میں پیلٹ گن کے استعمال کا کوئی جواز نہیں۔ اس کے استعمال پر فی الفور پابندی لگائی جائے کیوں کہ یہ کھلم کھلا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔اور یہ کہ کشمیر میں بھارتی فوج کو کھلی چھوٹ دے دینا ناقابل برداشت ہے۔بھارتی فوج کا معصوم کشمیری بچوں، عورتوں، مردوں پر پیلٹ گن کا بہمانہ استعمال جنگی جرائم میں آتا ہے۔حیرت ہے کہ عالمی ادارے اس بات کو یکسر نظر انداز کرتے چلے آرہے ہیں۔بھارت کے اسی پرتشدد رویے سے کئی رہنماؤں کا خیال ہے کہ کشمیر میں اب نئے مستقبل کا سورج طلوع ہوتا نظر آرہا ہے۔ یقیناان صبر آزما امتحانات کے بعد کشمیر یوں کو ایک آزاد اور خوشحال کشمیر مل کر رہے گا۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں