رمضان المبارک کی خصوصیات

رمضان المبارک ہجری سال کا نواں مہینہ ہے، اس مبارک مہینے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر روحانی اعتبار سے بے پناہ اور بے شمار رحمتوں کا نزول فرمایا ہے، جس کی کچھ تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
(1) یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام مقدس اپنے بندوں پر رحم فرماتے ہوئے ان کی ہدایت کی غرض سے دنیا میں جبرائیل امین کے ذریعے سے نبیﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمانے کی ابتدا فرمائی۔
(2) اس مہینے کو تین عشروں میں تقسیم فرماتے ہوئے یہ خوشخبری عنایت فرمائی گئی کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت کا ہوتا ہے، دوسرا عشرہ مغفرت کا ہوتا ہے اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی عطا فرمانے کا ہوتا ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 174)
(3) روایات کے مطابق اس مبارک مہینے میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے آزادی عطا فرما دی جاتی ہے جو اعمالِ بد کے حوالے سے جہنم کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں، نیز جب رمضان کا آخری دن ہوتا ہے تو یکم رمضان سے اس آخری دن جتنی تعداد جہنم سے آزاد کردی گئی ہوتی ہے اس تعداد کے برابر اس ایک دن میں ایمان والوں کو جہنم سے آزادی کے پروانے عطا کردیے جاتے ہیں۔(کنزالعمال جلد 8 صفحہ 268)
(4) اس مبارک مہینے میں دیگر مہینوں کے مقابلے میں اعمال کی قیمت میں اضافہ کردیا جاتا ہے، اس مبارک مہینے میں ادا کیا جانے والا ایک نفلی عمل اجر کے اعتبار سے ایک فرض کے اجر کے برابر قرار دیا جاتا ہے اور ایک فرض کے اجر کے عمل کو ستّر(70) فرائض کے اجور تک بڑھا دیا جاتا ہے۔(شعب الایمان جلد 3 صفحہ 305)
(5) اس مبارک مہینے میں امت مسلمہ کو نماز جیسے محبوب عمل میں روزانہ کی بنیاد پر باجماعت قرآن پڑھنے اور سُننے کی ترغیب دی گئی ہے جسے نماز تراویح کا نام دیا گیا ہے اور اس عمل کو نبی اکرمﷺ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔
(6) اس مبارک مہینے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو باعتبار حکم کے ایک عمل روزانہ کی بنیاد پر پورے مہینے کے لیے ایسا عطا فرمایا ہے جس کے متعلق نبی اکرمﷺ کے ذریعے سے ایک روایت کے مطابق یوں کہا گیا ہے کہ یہ عمل میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں خود دیتا ہوں۔
ایک اور روایت کے مطابق یہ عمل میرے لیے ہے اور اس کے بدلے میں، میں خود اپنے آپ کو دیتا ہوں۔ اصطلاح میں اس عمل کو روزہ کہتے ہیں۔(مسلم شریف جلد 1 صفحہ 363)
(7) اس مبارک مہینے میں اللہ تعالیٰ نے ایک رات ایسی بھی رکھی ہے جو عموماً اس کے آخری عشرے کی کسی طاق رات میں پائی جاتی ہے اور اس ایک رات میں عبادت کا ثواب ہزار مہینوں سے زیادہ وقت عبادت میں گزار کر ثواب حاصل کیے جانے سے بڑھ کر ہوتا ہے، اصطلاح میں اس رات کو شب قدر کہتے ہیں۔(مسند احمد جلد 2 صفحہ 425)
(8) اس مہینے کے آخری عشرے میں ایک اور مخصوص عمل امت مسلمہ کو عطا فرمایا گیا ہے جو سنّت مؤکدہ علی الکفایہ کے درجے میں ہے۔ اصطلاح میں اسے اعتکاف کہتے ہیں۔
(9) یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس کے متعلق یہ بات کہلوائی گئی ہے کہ اس کے آغاز سے ہی جنت کے تمام دروازے مستقل طور پر پورے ایک مہینے کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔(بخاری شریف جلد 1 صفحہ 255)
(10) یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس کی ابتدا ہوتے ہی جہنم کے تمام دروازوں کو پورے ایک مہینے کے لیے مستقل اور مکمل طور پر بند کردیا جاتا ہے۔(بخاری شریف جلد 1 صفحہ 255)
(11) یہی وہ مقدس اور عظیم مہینہ ہے جس میں سرکش شیاطین کو (پورے ایک مہینے کے لیے) اس طرح قید کردیا جاتا ہے کہ وہ امت مسلمہ کے روزے داروں کو ورغلانے، پھسلانے اور نافرمانی پر اکسانے کی غرض سے ان کے قریب تک نہیں جاپاتے۔(ترمذی شریف جلد 1 صفحہ 331)
(12) یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں سال کے گیارہ(11) مہینوں کے مقابلے میں ایمان والے کے رزق کو بڑھا دیا جاتا ہے جسے علمائے کرام برکت سے تعبیر فرماتے ہیں۔(شعب الایمان جلد 3 صفحہ 305)
(13) اسی ماہ مبارک میں نبیﷺ نے قیامت تک کے اپنے زمانوں میں پائے جانے والے اپنے عاشقین کو یہ خوشخبری بھی عطا فرمائی ہے کہ جس شخص نے بھی رمضان کے مہینے میں عمرہ کیا گویا اس نے میرے ساتھ حج کیا۔(بخاری شریف جلد 2 صفحہ251)
(14)نبیﷺ نے ہر اس شخص کو جس کے ماتحت نوکر، خادم یا غلام وغیرہ ہوں اس کے کاموں میں اس کے بوجھ کو ہلکا کردینے کی ترغیب دلاتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ہے: جو لوگ اس مہینے میں اپنے ماتحت کی ذمہ داریوں میں کچھ کمی کردیں اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرماتے ہوئے ان کو آگ (جہنم) سے آزادی عطا فرما دیتے ہیں۔(شعب الایمان جلد 5 صفحہ 223)
(15)نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس مبارک مہینے میں چار(4) چیزوں کی خوب کثرت کرو:
(۱) کلمہئ طیبہ (۲)استغفار (۳)جنت کی طلب (۴) جہنم سے پناہ.لہٰذا رمضان المبارک میں خصوصاً اس دعا کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے:
”لَااِلٰہَ اِلَّااللہ ُ، اَسْتَغْفِرُاللہ، اَسْءَلُکَ الْجَنَّۃَ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ النَّارِ“(کنزالعمال جلد 8 صفحہ 222)
نوٹ: ایک طویل حدیث میں ان شخصیتوں کے متعلق نشاندہی کی گئی ہے جن کی اس ماہ مبارک میں بھی مغفرت نہیں ہوتی،وہ درج ذیل ہیں:
(۱)شراب کا عادی (۲)والدین کا نافرمان (۳)قطع رحمی کرتے ہوئے رشتے کو توڑنے والا (۴)وہ شخص جو دل میں کینہ رکھتا ہو اور آپس کے تعلقات کو توڑنے والا ہوں۔(کنزالعمال جلد 2 صفحہ 268)
ایک موقع پر نبی اکرمﷺ سے منبر پر جاتے ہوئے تین مرتبہ بلند آواز سے آمین کہنا ثابت ہے، جس کے متعلق صحابہ کرام نے خطبے کے بعد استفسار کیا تو جواب میں نبی ﷺ نے فرمایا: جب میں نے منبر کے پہلے درجے پر قدم رکھا تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی میں نے کہا آمین۔ جب دوسرے درجے پر قدم رکھا تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر ہو اور وہ درود نہ بھیجے میں نے کہا آمین۔ جب میں نے تیسرے درجے پر قدم رکھا تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک اپنے بڑھاپے کی عمر میں موجود ہوں اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں (یعنی اس کی مستقل نافرمانیاں اور والدین کی خدمت نہ کرنا جنت میں جانے کے لیے رکاوٹ بن جائے) میں نے کہا آمین۔(مستدرک حاکم جلد 4صفحہ 170)
رمضان المبارک میں چار چیزوں کی کثرت رکھیے:(۱) لَااِلٰہَ اِلَّااللہ ُ (۲) استغفار (۳) جنت کی طلب (۴)دوزخ سے پناہ،یہ چاروں چیزیں اس دعا میں جمع ہیں: لَااِلٰہَ اِلَّااللہ ُ، اَسْتَغْفِرُاللہ َ،اَسْءَلُکَ الْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ النَّارِ۔
٭٭٭٭٭٭٭

حصہ
mm
مولانا محمد جہا ن یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے سینئر ریسرچ اسکالرہیں اور مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں