اخلاص کے ساتھ عبادت

“اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ” بچپن سے سکھایا جا تا ہے پھر اتنا کہنے میں سننے کو ملتا ہے کہ ہر بندہ مانوس نظر آتا ہے۔ صرف کہنے اور سننے کی حد تک عمل کی باری آئے تو ہم خود اپنے کئے پر پشیمان اور شرمندہ رہتے ہیں۔ واقعی اچھی نیت اور اخلا ص سے کیا جانے والا ہر کام اہمیت رکھتا ہے چا ہے کوئی بھی کام ہو۔ نوکری، تعلیم، صفائی ستھرائی گھریلو کام یا جوبھی کام اللہ اور اسکے رسولؐ کا حکم مان کر صرف اور اسی کی خاطر کرتے ہیں ضرور تسکین کا ہی باعث ہوتا ہے۔ زندگی واقعی جسم اور روح کا ملا پ ہے۔ جتنی محبت ہمیں اپنے جسم سے ہوتی ہے اسکی خوبصورتی اور تقاضوں کو پورا کرنے کا جتنا خیال ہمیں ہو تا ہے اس کی خاطر ہر طرح کی مشکلات اٹھاتے ہیں اس کو ہر وقت مضبوط اور توانا بنانے کیلئے تمام تر لوازمات پورے کرتے ہیں۔ کیا کھانا ہے؟ کب اور کیسے کھانا ہے کتنا کھانا ہے؟ کتنا سونا ہے؟ اگر خدانخواستہ ذرا بیمار ہوگئے تو ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے واکنگ جاگنگ یہاں تک کے مرغوب اشیاء خوردنی تک سے ہاتھ روک لیتے ہیں۔ ناپ تول کر کھاتے پیتے اور دوا دارو کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ حد ہی نہیں۔ یہ تو ہوا جسم کا معاملہ۔ اب اگر جان یعنی روح کی طرف آئیں تو وہ بے چاری لاغر ناتواں کیونکہ عبادات سے معاملات سے رویوں سے ہرطرح سے وہ مار کھائی ہو ئی ہوتی ہے۔ حدود اللہ کی تابع ہی نہیں،نیت خالص ہی نہیں، عبادات میں بھی دکھاوا اور ریا ہے۔ کہیں شہرت کیلئے کہیں دوسروں سے بڑا بننے اور عزت کمانے کیلئے اور کہیں نام اونچا کرنے یا عموماً دوسروں کو نیچے گرانا یا نیچا دکھانا مقصد زندگی بن جاتا ہے۔ حقوق العباد ہو یا حقوق اللہ اگر دکھا وا آگیا تو اسکا اثر کھو گیا اور اب یہ عمل ریا بن گیا کہ اخلاص ہی نہیں تو اس کا اثر کیا ہوگا وہ عمل محض جھوٹی تسلی ہے کیونکہ موثر ہر گز نہ ہوگا نہ اللہ کیلئے قابل قبول ہو گا۔ میری دوست کے میسج میں، میں نے پڑھا تھا کہ سوچیں پچھلے ہفتے یا مہینے سے اب تک آپ نے کیا کچھ کھا یا ہوگا۔ من پسند مرغن اور سادہ سیدھا کھانا بھی لیکن آپ کو یاد بھی نہیں ہو تا کہ کیا کیا کچھ کھا لیا مگر اس کی طاقت، قوت، انرجی کی شکل میں آپ کے اندر آجاتی ہے اور آپ کا جسم یوں توانا رہتا ہے بالکل اسی طرح اچھی نیت سے صرف اللہ اور رسولؐ کے احکامات کی پیروی تھوڑی ہی صحیح مگر خالص ہو تو روح اس سے توانائی پاتی ہے۔ یہی توانائی اسے مزید اچھا سننے سمجھنے پڑھنے اور آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ اسکی راہ متعین اور منور کرتی ہے۔ جب بیمار کا جسم تھوڑی غذا سے توانائی پا کر سنبھل جاتا ہے تو روح بھی اچھی نیت کے ساتھ مخلص ہوکر تھوڑے سے نیک عمل سے اتنی انرجی حاصل کرتی رہتی ہے کہ زندگی سکون کے ساتھ آگے بڑھنے لگتی ہے اور اگر یہی کیفیت ہم نے اپنا لی تو ہماری روحانی زندگی توانا اور منور رہتی ہے۔ گویا احکام خداواندی اور اتباع رسولؐ ہی وہ طاقت ہے جس کو اختیار کرنے کیلئے ہمیں ہر اچھی اور سچی بات تڑپ طلب اور لگن کے ساتھ سمجھنا سمجھانا، اپنا نا اور آگے بڑھانا ہو گی یہی اصل زندگی کا پورا مقصد ہے۔ جس طرح خراب کھانا، حرام کمائی، برا کام اور بری بات ہم سے ہضم نہیں ہوتی ہمیں توانائی نہیں دیتی ہماری زندگی آخرت سب تباہ کر دیتی ہے دوسرے معنوں میں روح کو مار دیتی ہے اور یوں بے حسی کی زندگی وبال جان ہے، بے سکون اور بے قرار ہے جبکہ اچھی سچی اور سیدھی بات حق بات ہے جو حق ہے وہی سچ ہے۔وہی ہماری روحانی غذا ہے۔ ہمارا کھویا ہوا اثاثہ ہے ہمیں جہاں سے بھی ملے تڑپ طلب اور لگن سے حا صل کرتے رہنا چاہئے تا کہ اس فانی جسم کی روح توانا رہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں