وہی ہوا جس کا ڈر تھا

تازہ ترین خبروں کے مطابق سلامتی کونسل نے کالعدم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو دہشت گردقراردیتے ہوئے ان کا نام اقوام متحدہ کی پابندی فہرست میں شامل کرلیا۔ سلامتی کونسل ایک مدت سے حکومت پاکستان سے کہتی آئی ہے کہ مسعود اظہر کے خلاف کارروائی کی جائے۔مسعود اظہر کے خلاف کارروائی کئے جانے کے خلاف اگر کوئی ملک ایک عرصے تک رکاوٹ بنا رہا اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ویٹو کرتا رہا تھا تو وہ چین ہی تھا لیکن اس مرتبہ وہ بھی ہمت ہار بیٹھا اور اپنا ویٹو پاور استعمال نہ کر سکا۔ پاکستان اس بات سے خوب آگاہ تھا کہ چین ہی وہ واحد ملک ہے جومسعود اظہر کو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کئے جانے کی قرارداد کو ویٹو کرتا رہا ہے۔ اگر دنیا کے سارے ممالک کسی ایک بات پر متفق ہوں تو پھر یہ بات کسی حد تک ناممکن ہوجاتی ہے کہ اس سے انکار کیا جاسکے۔ اگر ایسے عالم میں بھی کوئی ملک آپ کی دوستی کی خاطر دنیا کے سامنے ڈٹ جائے تو اس کی دوستی اور حمایت کو ایک نعمت عظیم سمجھنا چاہیے تھا۔ ہم جب کسی بھی چیز کو دوست کی عنایت اور احسان سمجھ لیتے ہیں تو ہدیہ تشکر ہم پر لازم ہو جاتا ہے۔ چین اگر پوری دنیا کی رائے جاننے کے باوجود بھی پاکستان کی حمایت پر ڈٹا ہوا تھا تو کیا چین جن توقعات پر ہماری جنگ لڑرہا تھا وہ ہم نے پوری کیں؟۔

اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو اقوام عالم کے پاس یقیناً ایسے شوہد ہونگے جن کو بنیاد بنا کر وہ اظہر مسعود کو ناپسندیدہ عناصر میں شمار کر رہے ہونگے لہٰذا پاکستان کو بھی چاہیے تھا کہ وہ کوئی ایسی حکمت عملی تیار کرتا جس سے سانپ بھی مرجاتا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹتی۔ خاص طور سے اسے چین کا خیال ضرور کرنا چاہیے تھا۔ چین اگر ایک ہی قرارداد کو مسلسل ویٹو کر رہا تھا تو ایک طرح وہ پاکستان کو جیسے مہلت دیتا رہا تھا کہ یا تو لگائے گئے الزامات کو کسی طرح دھویا جائے یا پھر مسعود اظہر کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔ جن پابندیوں کو اب پاکستان لگانے پر مجبور ہوگا اگر ان کو پاکستان از خود لگا چکا ہوتا تو شاید چین کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

مسعود اظہر ہیں کون؟، اس سلسلے میں بی بی سی ڈاٹ کام کے رفاقت علی کچھ یوں رپورٹ کرتے ہیں۔ سلامتی کونسل سے جاری ہونے والی فہرست کے مطابق ان کا نمبر 422 ہے جس کا مطلب ہے کہ اب تک اس فہرست میں 421 افراد کے نام شامل تھے اور مسعود اظہر کا نام حال ہی میں شامل ہوا ہے۔ ان کا پورا نام محمد مسعود اظہر علوی ہے۔ وہ 10 جولائی 1968 کو بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق مسعود اظہر پر الزام ہے کہ ان کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات ہیں اور وہ جیشِ محمد کے لیے مالی امداد حاصل کرتے رہے ہیں، منصوبہ بندی کرتے رہے ہیں، سہولتیں فراہم کرتے رہے ہیں، ایسی کارروائیں کرتے رہے ہیں جن کے ذریعے انھوں نے اسلحہ اور دیگر متعلقہ مواد حاصل کیا، خریدا اور جیشِ محمد کو سپلائی کیا اور اس کے لیے بھرتیاں کیں۔

ان پر اور ان کی تنظیم پر پاکستان پہلے ہی پابندیاں لگا چکا تھا لیکن اب یہ لازم ہو جائے گا کہ  بین الاقوامی قانون کے مطابق مسعود اظہر کے تمام اثاثے منجمد کئے جائیں، ان کے سفر پر پابندی لگانی جائے اور وہ کسی قسم کا اسلحہ بھی حاصل نہیں کر سکیں۔ ظاہر ہے جب بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے خلاف ایک فیصلہ آیا ہے تو پھر ایسا ہی کرنا ہوگا کیونکہ دنیا اس بات کی لازماً مونیٹیرنگ کرے گی اسے لئے میری رائے کے مطابق از خود کوئی کارروائی کرلی جاتی تو شاید معاملہ اتنی پیچیدگی اختیار نہیں کرتا جتنا اب کر گیا ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ نے 17 اکتوبر سنہ 2001 کو القاعدہ اور طالبان کی مدد کرنے کی وجہ سے جیش محمد کو بھی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ ان کے متعلق یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ القاعدہ اور طالبان کے لیے مالی امداد جمع کرتے رہے ہیں اور انہیں اسلحہ فراہم کرتے رہے ہیں۔ فیصلہ سامنے آنے کے فوراً بعد دفتر خارجہ نے بیان دیا ہے کہ پاکستان فیصلے کے مطابق اظہر مسعود کے خلاف بین الاقوامی قوانین کے مطابق کارروائی کرے گا۔

فیصلہ آنے کے فوراً بعد ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے بتایا کہ پاکستان مسعود اظہر پراقوام متحدہ کی پابندیوں پر فوری طور پر اطلاق کرے گا۔ مسعود اظہر کی نقل و حمل پر پابندی لگائی جائے گی، بینک اکاؤنٹ اور اثاثے منجمد کئے جائیں گے اور ان پر یہ پابندی بھی ہوگی کہ وہ کسی بھی قسم کا اسلحہ ہمراہ لیکر نہیں چلیں۔

عموماً جب بھی پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر کوئی اہم اطلاع دی جاتی ہے، پاکستان اس سے انکار کردیا کرتا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ طالبان آپ کے ملک میں نہ صرف داخل ہو چکے ہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو منظم بھی کر رہے ہیں تو پاکستان نے ہمیشہ اس کی تردید کی۔ کچھ ہی عرصے بعد پاکستان ملک میں داخل ہوکر منظم ہوجانے والے گروہوں کے خلاف کارروائی پر نہ صرف مجبور ہوا بلکہ ان کو اپنے ملک سے نکالنے کیلئے زمینی اور فضائی طاقت کی مدد بھی لینا پڑی۔ اسی طرح القائدہ کے قائد اسامہ بن لادن کے متعلق بین الاقوامی سطح پر بھی بتایا جاتا رہا کہ اسامہ پاکستان میں ہی ہے لیکن اس بات کو مذاق تصور کیا گیا۔

اقوام متحدہ نے اپنے ممبر ممالک پر یہ بھی لازم کیا ہے کہ وہ مؤثر بیانیے کے ذریعے شدت پسندی سے چھٹکارا پانے کے اقدامات کریں گے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے اقدامات کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ پاکستانی علما کی طرف ‘پیغام پاکستان’ کےنام سے ایک جامع دستاویز جاری کی گئی ہے جس پر بڑے بڑے علما کے دستخط ہیں۔ اس دستاویز میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ غیر ریاستی عناصر کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ کسی دوسرے ملک میں جہاد یا خلافت کے نام پر کوئی ایسی کارروائی کریں جو دہشتگردی کے زمرے میں آتی ہو۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان ایک عرصہ دراز سے ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرتا آرہا ہے جو کسی بھی قسم کی غیر ریاستی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہوں۔ پاکستان کی ان کوششوں کو بین الاقوامی سطح پر سراہا بھی جارہا ہے لیکن ابھی مزید کارروائیاں کرنے کی ضرورت ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان بین الاقوامی دہشتگردوں کی آماج گاہ بن کر رہ گیا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک بھی ہم سے بہت مخلص نہیں چنانچہ بیشمار دہشتگرد ایسے بھی ہیں جن کا تعلق پاکستان سے نہیں ہوتا لیکن وہ پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔ ان کا پاکستان کی سرزمین استعمال کرنا ہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے دنیا یہی خیال کرتی ہے کہ ان کے ممالک میں جو کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ پاکستان کرارہا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اندرون ملک گہری نظر رکھے اور ان عناصر کو گرفت میں لے جو تخریب کاری تو دوسرے ملک میں کرتے ہیں لیکن استعمال پاکستان کی سر زمین کرتے ہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں