موجودہ حالات میں مسائل کا بنیادی حل

آج ہم اپنے کالم میں برادر مرحوم مرزا جاوید مرتضیٰ ایڈوکیٹ کی کتاب ’فکر و فہم ‘ پر گفتگو کر کے اپنا ایک قرض  دوبارہ ادا کرنا چاہتے ہیں ۔(بارہ سال قبل دوہزار سات میں  ) محترم قلم کار نے (جو اب  بد قسمتی سے ہمارے درمیان نہیں ہیں)ہم سے اس کتاب کا’ پیش لفظ ‘لکھنے کی فرمائش کی تھی جو نہ جانے  کیوں ہم  نہ لکھ  سکے اور مارچ دوہزار آٹھ میں کتاب بغیر کسی پیش لفظ اور دیباچے کے شایع ہو کر منظر عام پر آگئی۔ کتاب چھپنے کے بعد بغیر کسی شکایت کے انہوں نے ہم سے  اس پر تبصرہ کرنے کی خواہش کی ۔مگر اس میں بھی غیر معمولی تاخیر ہوئی اور جولائی دو ہزار آٹھ میں ہم یہ سطور قلم بند کر سکے اور سال بھر بعد ہی نومبر دو ہزار نو میں وہ اپنے سبھی مداحوں اور محبت کرنے والوں کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے ۔اگر یہ مضمون ان کی زندگی ہی میں ایک بار  شایع نہ ہوگیا ہو تا تو ہم خود کو کبھی معاف نہ کر سکتے ۔ہماری اس دعا پر آپ بھی آمین کہیے کہ اللہ ہم سب کو  اپنے کسی بھی دوست اور کسی خیر خواہ کے  ’آبگینے ‘ کو ٹھیس پہنچانے کے گناہ سے ہمیشہ  محفوظ رکھے ۔

کتاب ’فکر و فہم ‘ در اصل مصنف مرحوم کی پہلی کتاب ’دین فہمی ‘ کا دوسرا حصہ ہے۔ دونوں کتابوں میں شامل ایک سو پچاس مضامین انیس سو اٹھاسی سے انیس سو اکیانوے کےپانچ برسوں کے  دوران ہفتہ وار ’پیام ِ نَو ‘ لکھنؤ میں’دین فہمی‘ کے عنوان سے شایع  مضامین کا مجموعہ ہیں۔لیکن ربع صدی قبل لکھے گئے یہ مضامین آج اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کے اختتام کے زمانے میں بھی اسی طرح  ترو تازہ اور زندہ و تابندہ ہیں جیسے حیات افروزاور ولولہ انگیز وہ کل تھے ! سبب وہی کہ مسلمانوں کی اکثریت آج بھی شعوری ایمان کے بجائے تقلیدی ایمان پر عمل پیرا، رحمت خدا وندی سے بے گانہ ،اورعذاب الٰہی میں مبتلا ہے ۔مرزا جاوید مرتضیٰ کی تحریک دین فہمی کا مقصد مسلمانوں کو تقلید جامد سے نکال کر شعوری ایمان کے سیدھے اور آسان راستے پر گامزن کرنا تھا،تاکہ ہماری بندگی اللہ کے لیے خالص ہوجائے اور جب ہم ’’نَحنُ لھو مخلصون ‘‘کہیں تو فرشتے گواہی دیں کہ یہ بندہ سچ بول رہا ہے ۔اُن کا مؤقف کم و بیش وہی تھا جو مولانا ابوالکلام آزاد کا تھا کہ ’’۔۔یہ گروہ بندیاں تمہاری بنائی ہوئی ہیں ۔خدا کا ٹھہرایا ہوا دین ایک ہے ۔وہ دین حقیقی کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ ایک خدا کی پرستش اور نیک عمل کی زندگی ۔۔جو انسان بھی ایمان اور نیک عملی کی راہ اختیار کرے گا ،اُس کے لیے نجات ہے ،وہ تمہاری گروہ بندیوں میں داخل ہو یا نہ ہو ۔۔(ترجمان القرآن ص ۱۶۳)‘‘

اور ظ انصاری کے لفظوں میں ’ولا الضالین ‘  یعنی  گمراہوں کے زمرے میں مولانا (آزاد ) کے نزدیک وہ لوگ نہیں جو علمائے وقت کے سکہ بند عقیدوں سے منحرف ہیں ،رفض یا بدعت میں مبتلا ہیں بلکہ وہ (ہیں ) جو عمل غیر صالح کے سبب خداوندی نعمتوں سے محروم رہ گئے ہیں ۔۔(ابو الکلام آزاد کا ذہنی سفر،1990 ص ۲۶۔۲۷)‘‘

مرزا جاوید مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ شعوری ایمان انسان کے فکر و عمل میں تبدیلی لاتا ہے اور اس میں سماجی ذمہ داری کا احساس پیدا کرتا ہے ۔اس جگہ انہوں نے زُہراؓ بن عبد اللہ اور ربعیؓ بن عامر کی بات چیت کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے جو انہوں نے سن سترہ ہجری کی مشہور جنگ قادسیہ کے موقع پر ایرانیوں کے سپہ سالار رُستم فرُّخ زاد سے کی تھی ۔ یہ جنگ حضرت عمر ؓکے دور خلافت میں ہوئی تھی ۔جس میں لشکر اسلام نے ایرانی بادشاہ کو خاک چٹا دی تھی ۔جیتنے والے ایک دستے کی کمان زُہراؓ بن عبد اللہ کے ہاتھوں میں تھی۔ جنگ سے پہلے رستم کی پہلی گفتگو اُن ہی سے ہوئی ۔رُستم نے ایک رات انہیں بلایا اور ان الفاظ میں صلح کی پیشکش کی کہ’’ تم لوگ ہمارے پڑوسی تھے ہم نے تمہارے ساتھ نیکیاں کیں تم لوگ ہمارے انعامات سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔جب کبھی کسی سے تمہیں کوئی خطرہ لاحق ہوا تو ہم نے تمہاری حمایت کی اور تمہیں اس خطرے سے محفوظ رکھا ،تاریخ اس  کی گواہ  ہے ‘‘۔

زُہراؓ بن عبد اللہ نے جواب دیا ۔۔’’تم نے ماضی کی جو باتیں بیان کیں وہ سب صحیح لیکن تمہیں یہ حقیقت سمجھنا چاہیے کہ جو کل تھا وہ آج نہیں ہے ۔اب ہم ویسے نہیں رہ گئے کہ دنیا کی لالچ میں رہیں ۔ہمارا مقصدِ زندگی اَب دنیا نہیں، آخرت ہے ۔جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد مصطفیٰﷺکو ہمارے بیچ رسول بناکر بھیجا تو انہوں نے ہمیں ایک خدا کی طرف دعوت دی اور ہم نے اس دین کو قبول کیا ۔اللہ نے رسول کی طرف وحی فرمائی کہ اگر تمہارے پیرو اس بات پر قائم رہے جو ہم نے تمہیں وحی کی ہے تو ہم انہیں تمام اقوام اور مذاہب پر غلبہ عطا کریں گے ۔جو اس دین سے جڑے گا عزت پائے گا اور جو اس کی مخالفت کرے گا وہ ذلیل و رُسوا ہوگا ‘‘۔

رُستم فرخ زاد نے زہراؓ بن عبد اللہ سے دین اسلام کی وضاحت کرنے کے لیے کہا تو زُہر ؓنے جواب دیا کہ ۔۔’’اس دین کی بنیاد دو چیزیں ہیں۔ اللہ کی وحدانیت اور محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی اور یہ کہ جو کچھ آپ ﷺنے فرمایا وہ اللہ کی طرف سے ہے ‘‘۔رستم نے کہا کہ ۔’’اس میں تو کوئی حرج نہیں ،اچھی بات ہے۔ اور کیا ؟ ‘‘زہرؓنے جواب دیا ۔’’اپنے جیسے انسانوں کی بندگی سے تمام دوسرے بندگان خدا کو آزاد کرانا ‘‘۔رستم نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے ،اور بتاؤ!۔زُہرؓ نے کہا ’’تمام انسان ایک ماں باپ سے پیدا ہوئے ہیں ‘‘۔رُستم نے کہا یہ بھی اچھی بات ہے تو اگر ہم ان چیزوں کو قبول کر لیں تو کیا تم واپس چلے جاؤگے ؟ زُہر ؓنے جواب دیا ’’ہاں اللہ کی قسم ہم دوبارہ تمہاری سرزمین پر قدم نہ رکھیں گے علاوہ تجارت اور ایسے ہی کاموں کے لیے۔ ہم نے جو کچھ کہا اس کے علاوہ ہمارا اور کچھ مقصد نہیں ہے ۔رُستم نے کہا: ’’لیکن ایک رکاوٹ اب بھی باقی ہے ۔شہنشاہ اَرد شیر کے زمانے سے ہم ایرانیوں کے یہاں ایک رسم چلی آرہی ہے جو تمہارے دین سے میل نہیں کھاتی ۔وہ یہ کہ نچلے  طبقے کے لوگوں مثلاً مزدوروں اور کسانوں کو اِس بات کا حق نہیں ہے کہ اپنے پُرکھوں کے پیشوں کو چھوڑ کر کوئی دوسرا باعزت پیشہ اختیار کر سکیں ۔کیونکہ اگر پست طبقوں اور اُن کی اَولادوں کو اِس کا حق دےدیا جائے  کہ وہ اپنے آبائی پیشے کو بدل کر اپنے طبقے کی حیثیت  تبدیل کر لیں اور اَشراف کی صف میں آجائیں تو وہ اپنے پاؤں اور زیادہ پھیلانے لگیں گے اور اعلیٰ طبقے اور شریفوں کے مقابلے کے لیے کھڑے ہو جائیں گے ۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ ایک کسان کا بیٹا یہ جان لے کہ اُسے کسان ہی ہونا چاہیے اور لوہار کے بیٹے کو لوہار ہی رہنا چاہیے اِس کے علاوہ وہ اور کوئی طبقہء اعلیٰ والا کام یا پیشہ اختیار نہیں کر سکتے اور اسی طرح  سب کو ۔۔۔‘‘حضرت زُہرؓ نے  رستم کی بات کاٹتے کر کہا ۔۔’’لیکن ہم تمہاری طرح اپنے درمیان اِس طرح کی پیدائشی بلندی و پستی اور طبقہ بندی کے قائل نہیں ۔اس کے برخلاف ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا کے  تمام انسان  ایک ماں اور باپ سے پیدا ہوئے ہیں اور سب کے سب آپس میں بھائی اور برابر ہیں ۔ہم میں سے ہر ایک کو دوسرے سے نیک سلوک کا حکم دیا گیا ہے ۔اور ہمارے یہاں عزت اور بزرگی کامعیار صرف اللہ کا تقویٰ ہے  یعنی جو جتنا زیادہ ماللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارتا ہے وہی زیادہ قابل عزت اور لائق احترام ہے  ۔رُستم نے اسے قبول نہیں کیا اور بات ٹوٹ گئی ۔‘‘

جنگ سے پہلے صلح کی دوسری گفتگو میں حضرت ربعی ؓبن عامر نے جواب دیا کہ ۔۔’’اللہ نے ہمیں بھیجا ہے کہ اور اس بات پر مامور کیا ہے کہ اس کے بندوں کو ہر طرح کی سختی اور غلامی سے رہائی دلائیں اور ظلم و ستم کے شکار لوگوں کو  نجات دلاکر عدل اسلامی کے سائے میں لے آئیں۔ ہم اللہ کے اس دین کو جو تمام بَنی نوعِ انسانی کی برابری کی بنیاد پر قائم ہے دنیا کی تمام قوموں اور اہل مذاہب کے سامنے پیش کریں گے ،اگر انہوں نے قبول کر لیا تو اس دین کے سائے میں خوش و خرم رہ کر سعادت کی زندگی گزاریں گے اور ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں ہوگی اور اگر قبول نہیں کیا تو ہم ان سے جنگ کریں گے ۔اس صورت میں یا تو ہم قتل ہوکر جنت میں جائیں گے یا دشمن پر حاوی ہوں گے ۔‘‘

رستم نے کہا ’’۔۔کیا تم ہمیں کچھ مہلت دے سکتے ہو کہ ہم اس پر غور کر سکیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔‘‘ربعیؓ نے جواب دیا ۔۔’’ہاں ضرور ۔کتنے دنوں کی مہلت چاہیے ؟ایک دن یا دو دن ؟ ’[رستم نے کہا ۔۔’’دو ایک دن سے کام نہیں چلے گا ۔ہم آپس میں مشورہ کریں گے تاکہ کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے پھر ہم تمہیں بتائیں گے۔‘‘ ربعی ؓ بن عامر نے جو ان لوگوں کا مقصد سمجھ گئے تھے کہ یہ وقت گزاری کرنا چاہتے ہیں جبکہ پیغمبروں کی سنت اور رہبروں کے عمل کے مطابق ایسے مواقع پر تین دن سے زیادہ  دیر کرنا جائز نہیں ۔اس لیے رُستم کو جواب دیا کہ ’’میں تمہیں تین دن کی مہلت دیتا ہوں کہ تم تین باتوں میں سے کسی ایک چیز کو چُن لو : اسلام قبول کرلو اور مسلمان ہوجا ؤ ۔اس صورت میں ہم جس راستے سے آئے ہیں اُسی راستے سے واپس لوٹ جائیں گے تمہاری سرزمین تمام نعمتوں کے ساتھ تمہاری ہے ۔لیکن دوسری صورت میں ،یا  تو جزیہ دینا  قبول کرو ، یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ ۔‘‘

ربعیؓ بن عامر کی پُر اعتماد گفتگو سے حیرت زدہ ہوکر رُستم نے کہا  کہ:’’ معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں سپہ سالار ہو جو ہم سے اقرار لے رہے ہو‘‘ ۔ربعی ؓ نے جواب دیا کہ’’ نہیں، میں تو اپنے لشکر کا ایک معمولی سپاہی ہوں لیکن تمام مسلمان ایک جسم کے حصے ہیں اور سب ایک جیسے ہیں اگر ان میں ایک چھوٹے سے چھوٹا آدمی بھی کسی کو امان دے تو ایسا ہی ہے جیسے سب نے اسے پناہ دی ہو ۔سب ایک دوسرے کے وعدے اور زبان کا احترام کرتے ہیں ‘‘۔

رستم اس گفتگو سے متاثر تو بہت ہوا لیکن اسلام قبول کرلینے کا فیصلہ نہیں کر سکا۔ جنگ ہوئی اور ایران کی ایسی شکست فاش ہوئی کہ تاریخ میں یادگار رہ گئی ۔لیکن آپ یہ دیکھیے کہ ہوا کیا تھا ؟

در اصل ہوا یہ تھا کہ ایرانیوں نے اسلامی برابری کے اصول (ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ۔الحجرات ۱۳) کو ٹھکرا دیا تھا جبکہ مسلمان طبقاتی نابرابری کے نظام کو ظلم اور نا انصافی قرار دے رہے تھے ۔اس کے بر خلاف ہندستان میں کیا ہوا ؟

یہاں مسلمانوں نے پیدائشی بلندی و پستی کے اس غیر اسلامی ،انسان دشمن ظالمانہ طبقاتی نظام کو نہ صرف یہ کہ جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ خود بھی قرآن کریم کے ’اِنا اَکرَمَکُم عند اللہ اتقاکم ‘ کے اصول کو بھلا کر ذات پات کے طبقاتی نظام میں بٹ گئے ۔فرقوں اور مسلکوں میں وہ پہلے ہی سے منقسم تھے اب نام نہاد  اَشراف و اَجلاف کی غیر اسلامی تقسیم کے ساتھ انسان ساختہ سیاسی  نظریات کی بنیاد پر مزید گروہی عصبیتوں میں مبتلا ہوگئے ۔جبکہ امت مسلمہ اور امت وسط ہونے کی حیثیت سے  اُن پر دنیا و آخرت کے خسارے سے محفوظ رہنے کے لیے امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور ’ تواصو بالحق  و تواصو بالصبر ‘کی دوہری ذمہ داری تھی !

جنگ قادسیہ کے مندرجہ بالا واقعے کی بنیاد پر صاف ہے کہ زُہرؓ بن عبد اللہ اور ربعی ؓ بن عامر نے رُستم کے سامنے جن آسان اور واضح لفظوں میں دین کا تعارف پیش کیا تھا وہی اصل اور آسان ایمان اور صحیح اسلامی فکر کا ترجمان تھا ۔یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو پیغام اپنے بندہ ء خاص اور رسول محمد مصطفیٰ  ﷺکے ذریعے لوگوں تک پہنچایا وہ اپنے اندر دو پہلو رکھتا ہے ایک اپنے  مالک حقیقی کے سامنے مکمل خود سپردگی اختیار کرنا اور دوسرے ،بلا امتیاز ، دیگر تمام مظلوم بندگان ِالٰہی کو ہر طرح کے ظلم و ستم، ناانصافی اور غلامی سے رہائی دلا کر عدل اسلامی کے سائے لانا ۔

 مرزا جاوید مرتضیٰ مرحوم نے لکھا ہے کہ آسان دین اور شعوری ایمان بتاتا ہے کہ ظلم سے ٹکرانا ہر مسلمان کا پہلا فریضہ ہے ۔واضح رہے  کہ  از روئے قرآن ،انبیائے کرام علیہم السلام کا مقصد بعثت بھی دنیا میں نظام ِ عدل   کا قیام ہے ۔لیکن ہوا یہ کہ مسلمان اپنے اِسی بنیادی فریضے کو بھلا بیٹھے ۔

 پچھلے پانچ ساڑھے پانچ سو سال کے دوران  پیش آنے والی عالمی تبدیلیوں  نے مرے پر سو دُرے کا کام کیا اور ظلم کے استیصال اور عدل کے قیام کے فریضہ ء اصلی کی جانب  سے وہ مزید غفلت کا شکار ہوتے چلے گئے ۔نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔

نہ صرف دنیا کے ہر خطے میں آج مسلمان ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں بلکہ اُن کی زمینیں اور قدرتی وسائل،بیشتر ،  دشمنوں کے غاصبانہ قبضے اور تصرف میں ہیں اور ان کی جان ،مال عزت ،آبرو کچھ محفوظ نہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا حالات میں بہتری کی کوئی صورت ہے ؟مرزا جاوید مرتضیٰ نے اس کا جواب اثبات میں دیا ہے ۔

وہ لکھتے ہیں کہ یقیناً ذلت سے چھٹکارا حاصل کر کے اپنی عزت اور حیثیت بحال کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم رسمی اور تقلیدی مذہب کے بجائے  شعوری ایمان والی اپنی دوہری  ذمہ داریوں کو سمجھ لیں کہ ہم صرف  اپنے عقیدہ و ایمان ہی کے لیے نہیں ۔اپنے  اعمال ، اپنے ماحول  اور معاشرے کے لیے بھی جواب دہ ہیں ۔

ہم ذاتی طور پر  چاہیں جتنی عبادتیں کر لیں ،اگر ہم اپنے آس پاس کے دگرگوں حالات  سے بے توجہی برتتے ہیں  اور اپنے سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے   تو ایسی بے روح عبادت نہ ہمارے کام آئےگی نہ دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچا سکے گی ۔

 جاوید مرتضیٰ صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ ہمارے سامنے رسول کریم ﷺ کی سیرت ’اُسوہء حسنہ ‘ کے طور پر موجود ہے ۔آپﷺ کی بعثت کے وقت ،شرک اور بت پرستی کا دور دورہ تھا۔ سماجی تعلقات کی بنیادیں انصاف اور برابری کے نظامِ رحمت پر نہیں پیدائشی بلندی و پستی کے نظام ِظلم اور قبیلہ پرستی پر استوار تھیں۔تمام غیر اخلاقی باتیں  ،اوباشی ،عیاشی اور شراب نوشی وغیرہ کے تمام اعمال قبیحہ  ’شرفا ‘ سے وابستہ ہو کر فخریہ شاعرانہ اظہار کا نمونہ بن گئے تھے۔یعنی برائیاں بدنامی اور ذلت کے بجائے عزت اور فخر کا سبب سمجھی جاتی تھیں ۔

وہ لوگ جو جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی با برکت اولادوں کی نسل سے تھے ہر طرح کی اخلاقی اور شرکیہ برائیوں سے آلودہ تھے ۔جبکہ جناب ابراہیم ؑ تاریخ انسانی کے سب سے بڑے بت شکن اور توحید خالص کے سب سے بڑے داعی اور مبلغ تھے ۔لیکن اُن کی اُمت اُن کے بعد کفر و شرک و ظلم کی ضلالتوں میں جا پڑی تھی۔ حتٰی کہ مذہبی رسوم و ارکان بھی خرافات کا پلندہ بن چکے تھے ۔سنجیدگی اور شرافت کی جگہ شور شرابے ،ڈھول تاشے ،اور بیہودہ شاعری نے لے لی تھی ۔

مرزا جاوید مرتضیٰ لکھتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ نے ایسے ماحول میں لوگوں کو توحید کی دعوت دی  تھی ۔کلمہ ء لا الٰہ الا اللہ ،کوئی جادو منتر نہیں بلکہ لوگوں کے سوچنے کے ڈھنگ میں تبدیلی لانے کا ذریعہ ہے ۔یہ فکری انقلاب کی بنیاد ہے ۔یعنی ہماری زندگی کا مقصد نہ رسم پرستی ہے نہ باپ دادا کی تقلید بلکہ اللہ کی عطا کی ہوئی تمام صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے بس اُسی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خود کو ایسا بنا لینا ہے کہ  ہم اُس رب ذوالجلال کے سوا اور کسی   سے نہ  ڈریں اور اُس کے سوا ہر کسی کا خوف دل سے نکال دیں، تکلیفوں اور مصیبتوں میں بس اُسی پر بھروسہ رکھیں اور ثابت قدم رہیں ( کیونکہ ’فمن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ ‘)اور ہر حال میں مدد بھی  صرف اسی سے طلب کریں کہ (ہم ہر نماز میں اللہ یہ کہتے ہیں کہ’ہم تو بس تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور بس تجھی سے مدد چاہتے ہیں ’ایاک نعبد و ایاک نستعین ‘)  ،اور  ’ما شا ء اللہ و لاحول و لا قوت الا با للہ ‘ میں یقین رکھیں کہ اُس کے سوا اور کوئی صاحب ِ قوت واقتدار  نہیں(یعنی پوری کائنات میں حقیقی قوت ، طاقت  اور اقتدار اعلیٰ رکھنے والا کوئی ہے تو وہ اللہ اور صرف اللہ ہے )۔

یہی شعوری ایمان ہے جو تقلید آباء سے نہیں ،اللہ کی عطا کردہ فکرو فہم کی قوت کو استعمال کرنے سے حاصل ہوتا ہے اور انسان  کو سکون اور روح کو بلندی  عطا کرتا ہے۔ وہ صرف اور صرف اپنے خالق ،مالک اور پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ میں ایسی زندگی بسر کروں جس میں میرے مالک اور پالنہار کی رضا اور مرضی شامل ہو ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موجودہ طرز زندگی اور جن کاموں کو مذہبی ضرورت سمجھ کر انجام دے رہا ہے اُن کا تجزیہ کرے ۔وہ غور کرے کہ وہ اپنے لحاظ سے جن مذہبی اُمور کو انجام دے رہا ہے وہ اُس کی حقیقی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں معاون و مددگار ہیں یا فی الواقع ،رکاوٹ بنے ہوئے ہیں؟ اسے ہمیشہ یہ فکر رہنی چاہیے کہ آخرت میں جب وہ اپنے حقیقی مالک کے سامنے پیش ہوگا تو وہاں اسے اپنے اعمال کی جواب دہی میں کون سی باتیں مدد پہنچائیں گی!

ہم ذرا غور کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کے سامنے توحید کی دعوت پیش نہیں کی ۔ہم نے شرک کے خاتمے کے لیے کبھی کوئی کوشش نہیں کی ۔بلکہ ہم میں سے بیشتر لوگ ،ساری دنیا سے منھ موڑ کر صرف اللہ سے لَو لگانے کے بجائے ،اپنے اپنے انداز سے یا اپنے باپ داداؤں کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کچھ شخصیتوں کو اللہ کا ہمسر قرار دے کر ،بہ خیال ِخود اپنے اپنے انداز سے  اُن ہی شخصیات کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگے رہے اور سب سے بڑھ کر ستم یہ ہوا کہ ’شخصیتوں کے انتخاب کے اختلاف ‘کی وجہ سے پوری امت مختلف اور متضاد بلکہ ایک دوسرے سے متحارِب عقائد  کے حامل فرقوں اور مسلکوں میں بٹ گئی !

اسلام کے انسانی برابری (مساوات ) کے زرًیں اصول کا جنازہ یوں نکلا کہ دنیا والوں  تک رسول اکرمﷺ کے آخری خطبہ حجۃ الوداع  کا یہ پیغام پہنچایا ہی نہیں گیا کہ ۔۔’’لوگو ! تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے ۔تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔  اونچ نیچ کے سبھی جاہلی معیار آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں ۔تم میں اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو ۔کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ،سوائے تقویٰ کے۔‘‘

پیدائش کی بنیاد پر اونچ نیچ اور بلندی و پستی کے جاہلی نظریے کے مقابلے میں بھائی چارہ ، برابری اور مساوات  کے اِس آسمانی پیغام کو دنیا تک پہنچانے کے بجائے ہم نے خود  ہی آپس میں ذات برادری اور پیشے کی بنیاد پر سماجی اونچ نیچ کا جھوٹا معیار بنا لیا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی کھلی نافرمانی کے سوا اور کچھ نہیں ۔

مرزا جاوید مرتضیٰ نے اپنے سلسلہ ء مضامین میں موجودہ حالات کی روشنی میں لکھا ہے کہ اگر ہم واقعی فساد ،بد امنی ،دہشت گردی ،نا انصافی ،ظلم بد عنوانی اور کرپشن سے بچنا اور اپنے خاندان کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ،اگر ہم ذلت ،رسوائی ،پستی اور غربت کے چکر ویوہ سے نکلنا چاہتے ہیں  تو ہمیں اپنی فکر کو،اپنے سوچنے کے جاہلی  طریقے کو بدلنا ہوگا ۔ہم کو وراثت میں ملنے والے فاسد عقیدوں اور زندگی گزارنے کے غیر اسلامی طریقوں سے اوپر اٹھنا ہوگا ،دین کے معاملات میں تقلید کے اندھیروں سے نکلنا ہوگا ،خود اپنی عقل اور اللہ کی دی ہوئی  غور و فکر کی صلاحیتوں کو استعمال کر کے مسائل کو سمجھنا ہوگا ،اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی زندگی کو قرآن اور نبی کریمﷺ کے اُسوہء حسنہ کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔

قرآن کریم میں عقل کے استعمال کی متواتر دعوت دی گئی ہے اور یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ’ جو لوگ اپنی عقل کا استعمال نہیں کرتے ہم اُن پر کفر کی نجاست (رِجس) مسلط کر دیتے ہیں ۔‘اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ ’زمین پر حرکت کرنے والی تمام مخلوقات میں سب سے برے وہ گونگے اور بہرے ہیں جو اپنی عقل کا استعمال نہیں کرتے ‘۔

مصنف ھٰذا کا تجزیہ یہ ہے کہ آج جو مسلمان مختلف فرقوں اور مسلکوں میں بٹے ہوئے ہیں وہ در اصل ان کا ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہونا ہے ۔ذہنی اور فکری غلامی کی یہ زنجیریں ان کی فکروں کو قید کیے ہوئے ہیں جو انہیں نہ اپنے آس پاس کے حالات کا صحیح مشاہدہ کرنے دیتی ہیں اور نہ ہی انہیں اپنی حقیقی دینی ذمی داریوں کی طرف متوجہ ہونے دیتی ہیں ۔

جاوید مرتضیٰ صاحب نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دین کو اس کے بنیادی اصولوں سے سمجھیں جو قرآن اور نبی کریم ﷺ کے ’اُسوہء حسنہ ‘ سے ثابت ہے ۔فالتو اور غیر ضروری مسائل میں الجھنے کے بجائے (جن کا نہ ہماری عملی زندگی سے کوئی تعلق ہے اور نہ ان کے بارے میں قیامت میں ہم سے کچھ پوچھا جائے گا ) ہمیں چاہیے کہ ہم ہر طرح کے ظلم ( اور بے شک شرک سب سےبڑا ظلم ہے ۔اِن الشرک لظلم عظیم )ہر طرح کی نا انصافی اور (پیدائشی بلندی و پستی کے باطل اصولوں پر قائم ) ہر طرح کی سماجی نابرابری اور سماجی نا انصافی کو  جڑ سے ختم کرنے کی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اس سلسلے میں اپنی اپنی صلاحیت، قابلیت ،وقت اور حکمت عملی کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں ۔

مرزا جاوید مرتضیٰ نے اپنے بیش قیمت سلسلہء مضامین میں قرآن کریم کے اس حکم کہ ’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت میں  تبدیلی نہیں لاتا جب تک کہ اس کے افراد خود اپنے آپ میں تبدیلی نہ لائیں ( ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی ٰ یغیروا ما با نفسھِم  ْالرعد آیت تیرہ  )کی روشنی میں کئی عملی اور فکری تجاویز کے کے علاوہ درج ذیل تین نکاتی فارمولہ بھی پیش کیا ہے :

(۱)ہر قیمت پر مکمل اتحاد بین المسلمین  کو فروغ  دینا ۔وہ اتحاد جو وحدت ِکلمہ اور کلمہ ءِ وحدت کی بنیاد پر ہو ۔

(۲)ہندو مسلم منافرت نہ ہونے دینا ۔کیونکہ نفرت کا ماحول تبلیغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے ۔اور

(۳)توحید کی تبلیغ کرنا  اور ہر طرح کے شرک ا ور  بت پرستی کی مخالفت کرنا اور اس کے خاتمے کی عملی امکانی  کوشش کرنا۔

جاوید مرتضیٰ صاحب نے اس جگہ یہ وضاحت بھی کی ہے کہ وہ تمام عقائد و نظریات  جنہوں نے مسلمانوں کے درمیان دیواریں اٹھا دی ہیں چاہے وہ مسلک کی بنیاد پر ہو ں،یا رنگ ،نسل اور زبان کی بنیاد پر  ۔اُن کی اسلام راستین میں ، یعنی  اللہ کے پسندیدہ دین اسلام میں ہر گز کوئی گنجائش نہیں ۔اور یہ سب بھی ایک طرح کے بُت ہیں جن کو توڑے اور ڈھائے بغیر حقیقی اتحاد اور اُمت ِواحدہ کا قیام ممکن نہیں ۔

لہٰذا جب تک ہم اپنی فکر میں تبدیلی نہیں لائیں گے ، خود اپنے ہی   گڑھے ہوئے عقائد کے چکر ویوہ کو نہیں توڑیں گے اور خود اپنے قائم کیے ہوئے نظریات کے جال سے باہر نہیں آئیں گے ،نہ ہمارے عمل میں تبدیلی آئےگی اور نہ ہی ہمارے حالات بدلیں گے ۔

(ختم )

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں