“مصیبتوں کا مقصد امتحان”

“تندھی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے “

زندگی میں ہر لمحہ ایک امتحان پیش نظر ہوتا ہے۔ آپ دیکھیے کہ اگر پینسل سے لکھا پڑھنانہ آئے ہلکی لکھائی سمجھ نہ آئے تو کتنا بڑا مسئلہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بہت ہی چھوٹا لکھا ہو یا چھوٹی لکھا ئی پڑھ نہ سکیں تو کتنا بڑا امتحان ہے ایک مصیبت ہے لیکن اس میں ہمارا امتحان ہے۔ اپنی غلطیوں کی اصلا ح اور کمزوریوں کو پہلے ماننے اور پھر اصلا ح کرنے کا۔ پڑھنے والے کا امتحان ہے۔ جس میں عقل و شعور کے ساتھ عمر کا بھی دخل ہے کہ یہ چراغ بجھ رہے ہیں۔ ان کی روشنی سے گویا بصارت کا شکر ادا کرتے ہوئے مزید شکر کریں کہ دھندلا ہی کچھ پڑھنے لکھنے کے قابل ہے پھر عقل سے کام لیکر علاج کرایا جا سکتا ہے لکھائی بڑی اور درست کی جاسکتی ہے اور اپنے وقت کی گو یا زندگی کی قد ر آجاتی ہے کہ باقی زندگی محتاط ہو کر سنبھل سنبھل کر گزارنی ہے۔ اسی طرح کوئی بھی مصیبت دراصل انسان کو بہتر بنانے کیلئے ہوتی ہے۔ گردشِ زمانہ حوادث سے دو چار کرکے افراد کو موثر بنانے کی تحریک ہوتی ہے نہ کہ وا ویلا کرنے اور خود کو بد نصیب بد بخت کہہ کر یا دوسروں کو الزام دے کر ہم مزید اپنے ہی اوپر ظلم کرتے ہیں۔ڈپریشن کا شکار ہو جا تے ہیں اور مزید صبر کے ہاتھ سے نکل جانے کے باعث بے صبری کی خاموشی اور شیطانی چنگل میں پھنستے جاتے ہیں۔بے روزگاری ہو یا حقوق یا بچوں کیلئے سالانہ امتحانات یا ناگہانی حادثات امتحان کی شکل میں ہی ہماری شخصیت کے نکھار، بڑھوتری اور یوں سمجھیں کہ ایک شخصیت کو مکمل بنانے کیلئے ہوتے ہیں۔ ہم ان کا علاج سگریٹ، سگار، بیڑی، سیل فون، پان، فلم ڈرامہ یا منفی جھگڑا لو رویوں یا تنہائی میں نہیں تلاش کر سکتے۔ نیند لانے والی ادویات بھی وقتی چیز ہے۔ ہم فطرت کے خلاف کام کرکے اپنے آپ کو اور نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ قرآن میں اللہ نے ہمیں صبرو صلوٰۃ کے ذریعے مصا ئب اور مسائل پر قابو پانے کی تلقین کی ہے کیونکہ رب کی عطا ہی امتحان کا خوبصورت قابل تسکین نتیجہ ہے۔ اللہ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔مصیبتوں کے کڑے امتحانات سے تو انبیاء علیہ السلام گزارے گئے ہم اور آپ کیا چیز ہیں؟ اسی لئے سیرت پاک ؐ پر چلنا ضروری ہے اور یوں بھی مصا ئب اور مسائل گزر کر یکسو ہو کر جس کسی بھی امتحان میں کامیابی ہوتی ہے وہ بڑی ہی دیرپا اور اصل خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ آج کے دور میں ماں باپ بڑی مشکلات کا شکار ہیں لیکن آفرین ہے ان کے والدین پر جو صبر سے سہہ جاتے ہیں اور اپنے بچوں کیلئے بہترین رول ماڈلز ہوتے ہیں معاشرے کا سکھ دراصل یہی والدین ہیں۔ کسی بھی قسم کی نقل جو بے صبری اور حیا سے خالی ہو سوا ئے تباہی کے کچھ نہیں دے سکتی۔ یہ بے ایمانی ہے دھوکہ ہے خود اپنے آپ سے اپنے معاشرے سے۔ ٹھوکریں تو انسان کو رلاتی کم اور سکھاتی سکھاتی زیادہ ہیں۔ فطرت کے فیصلوں پر یقین ہو نا چاہئے اور اپنے مثبت اور موثر کردار پر کامل بھروسہ تو مصیبتوں کا راہ میں آنا لا غری نہیں توانائی کا باعث بن جاتا ہے۔ سخت گرمیوں کی دوپہروں میں رات کا انتظار آدمی کو متحرک رکھے تو راحت کی نیند عطا ہوتی ہے ورنہ نیند تو نرم اور سردیوں کے گرم بستر پر بھی میسر نہیں ہوتی۔ سب سے مہنگا بستر مریض کاہوتا ہے اللہ ہمیں کسی مرض میں مبتلا نہ کرے (آمین)۔ اس امتحان سے سب کو بچائے۔ آج صلا حیتیں ہیں سننے سمجھنے اور لکھنے پڑھنے اور بولنے کی تو انکا صحیح استعمال کرکے ان کا حق ادا کرنا لا شعوری نہیں شعوری امتحان ہے۔ قر آن میں جگہ جگہ فرمایا گیا ہے کہ کیا تم شعور نہیں رکھتے؟ تو کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ کیا تمہیں علم نہیں؟ کیا تم انجام کو نہیں دیکھتے؟ لفظ قیامت کتنے ہی ناموں اور چالوں سے سامنے لائی جارہی ہے تو کیا ہم خود سمجھتے نہیں یا سمجھنا چاہتے نہیں؟ تدبر اور تفکر نہیں کرتے؟ یہی تو ہمارا آپکا امتحان ہے۔ اللہ کا شکر ہے ہم مسلمان ہیں اس امتحان سے گزر کر مومن اور پھر محسن بننے تک کے امتحان میں کامیابی دراصل ہماری زندگی کے ہر لمحے کا امتحان ہے۔ اس کو شعوری بنانا اور احساس رکھنا میرے مسائل مصائب کا نتیجہ ہوگا۔ کیا خیال ہے! یہ بات درست نہیں؟ تو پھر امتحان سے کیا گھبرانا۔ کیا ٹینشن اور ڈپریشن لینا۔ میری دوست کی دوست کہتی تھیں دو چیزیں ساتھ نہیں ہو سکتیں توکل اور ڈپریشن۔ واقعی صحیح کہتی تھیں۔ میں نے جب اس طرح تجربہ کیا تو میرے لئے مشکلات پر قابو پانا آسان ہوگیا بشرطیکہ نیت خالص ہو خالق کے نتیجے پر نظر ہو تو پھر ہر بات معمول بن جاتی ہے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کسی کے رتی بھر کام کو ضائع نہیں کرتا تو گویا کیا کرنا ہے؟
“سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں