معیشت کو لاحق خطرات 

ہم جب بھی قومی اسمبلی کے اجلا س کی روداد سنتے ہیں تو سر پیٹنے کا دل کرتا ہے۔ سیاست دان ذاتیات، پارٹی اور جاہ وحشم کے دفاع کیلیے زمین و آسمان ایک کیے ہوتے ہیں۔ اپوزیشن کی توپ کا رخ حکومت کی طرف اور حکومتی وزرا ء کے گولے اپوزیشن کے مورچوں پہ لگ رہے ہوتے ہیں۔ اسمبلی کے درودیوار سے صرف قوم کے رونے چیخنے کی آوازیں آرہی ہوتی ہیں۔خدا را اپنے مفادات کی جنگ ختم کرکے ملک کے لیے کچھ کرلو۔عوام سوچتے ہیں کہ کیا یہی وہ لوگ تھے جنہیں ہم نے ووٹ دے کر ملک کے اچھے فیصلوں کے لیے منتخب کیا تھا۔انہیں جواب نفی میں ملتا ہے۔حکومت کے ہونہار سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے درست کہا تھا کہ مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکلیں گی۔حکومت نے بہت تھوڑے عرصے میں عوام کی واقعی چیخیں نکال دی ہیں۔مہنگائی نے زندگی کے ہر شعبہ کو بری طرح متاثر کیا ہے اور حکومت میچ کے ابتدائی پاور پلے میں ناکامی سے دوچار ہوتی نظر آرہی ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کاجوفیصلہ ہوا تھااسے واپس لے کر عوام کو ریلیف دیاگیا اوریہ خوش آئند عمل ہے، لیکن اس کے ساتھ صحت کے اور کئی مسائل توجہ طلب ہیں۔ حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے صحت کا رڈ کا حق غریب عوام کا ہے، مگر ملک کا غریب طبقہ صحت کارڈ سے یکسر محروم اور سیاست دان بااثر لوگ اس پر قبضہ جمانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ لہذا حکومت سے خاص طور سے وزیر اعظم صاحب سے اپیل ہے کہ وہ محروم طبقے تک صحت کارڈ فی الفورپہنچانے کے لیے کوئی جامع صاف و شفاف حکمت عملی وضع کریں،تاکہ یہ کارڈ دوسرے پروگراموں کی طرح بااثر افراد سے بچ کر خالصتاََ عوامی کارڈ بنے اور کرپشن سے محفوظ رہے۔
دوسری طرف ملکی معیشت کی دگرگوں صورت حال سے غریب کے گھرکا چولہا ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور معیشت کوشدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے کم ہورہی ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کی زندگی بہت زیادہ متاثرہے۔ ملک کی معیشت اور عوام دونوں ہی مشکلات کا شکار ہیں۔بڑھتے ہوئے قرضے، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے اہم مسائل نے عوام کو بے حال کر دیا ہے۔ حکومت کو قائم ہوئے کچھ ماہ ہوئے لیکن حکومت ابھی تک یہی نوحہ لے کر بیٹھی ہوئی ہے کہ اسے یہ سب ورثے میں ملا تھا۔جب کے حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عالمی اداروں کا کہنا ہے اگلے سال بھی ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں ہوگی۔عالمی بنک کا کہنا ہے کہ اس سال ملک کی ترقی کی شرح 3.4 فیصد ہوگی، جب کہ اس میں مزید کمی آنے کا امکان ہے۔ اس سے حکومت کے ترقی کے کھوکھلے دعوؤں کی نفی ہو تی ہے۔ افراط زر 7.1 پرہے جس میں ممکنہ طور پر اگلے سال تک 6 فیصد تک اضافہ ہوگا۔ یعنی مہنگائی مزید بڑھے گی۔ حکومت کاکہنا تھا کہ احتساب ہوگا۔ لوٹی دولت واپس آئی گی۔ ملک کی معیشت درست پٹری پر چڑھ چکی ہے اگر ایسا ہے تو عالمی بنک تو کہتا ہے کہ تم نے سترہ سالوں میں جتنا قرضہ لیا،وہ ایک ریکارڈ ہے۔اور یہ ریکارڈتم خودہی توڑو گے۔ حکومت نے آٹھ ماہ میں عوام کو مہنگائی کے طوفان میں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ عوام کا کام ووٹ دینا تھا۔ عوام نے اپنا فرض پورا کرکے پی ٹی آئی کو اقتدار پر براجمان کیا۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان معاشی مسائل کو کنٹرول کرکے عوام پر لادے گئے عذاب کاخاتمہ کرے۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب کا دورہ چین حکومت سنبھالنے کے بعد دوسرا دورہ ہے۔ خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ چین کا تعاون اوراقتصادی راہ داری سے پاکستان کی قسمت بدل جائے گی۔لیکن اس دوران آٹھ ماہ کی ان کی حکومت نے عوام کوکن حالات کا شکار بنادیاہے اوروہ کیسے جی رہے ہیں اس کا ادراک وہ شاید نہیں کر پارہے۔
معیشت کے ساتھ اخلاقیات بھی وینٹی لیٹر پر ہے عوام کی طرف سے منتخب نمائندگان کا یہ حال ہے کہ ان کو احساس ہی نہیں کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟انہیں پتا ہی نہیں کہ کیوں عوام نے ان کو ووٹ دیا؟قومی اسمبلی کے بعد پنجاب اسمبلی میں ارکان کی دشنام درازی ہوئی اور جس طرح کے حالات پیدا ہوئے وہ پوری قوم نے دیکھا۔ ایوان میں سیاسی فضا کے مکدر ہونے سے عوام میں یہ تشویش پیدا ہوگئی ہے کہ کیا ہم نے ان کو ایک دوسرے کی حمایت و مخالفت کے لیے چنا تھا؟کیا یہ انسانیت کے تمام اخلاقی ضابطے بھول چکے ہیں؟اسمبلیاں، پارلیمان تو عوام کی ترجمان ہوتی ہیں۔ یہاں پر عوام کے لیے قانون سازی کرنے، فلاح و بہبود،خوشحالی کی باتیں کی جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں دہائیوں سے یہی روایت چلی آرہی ہے کہ ذاتیات پر حملے کرنے ہیں۔امید تھی کہ موجودہ حکومت اس میں بھی تبدیلی لائی گی لیکن لگتا ہے اس روش کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا۔عوا م کہتے ہیں کہ ایوان میں مثبت بحث و تنقید ہونی چاہیے۔مفاد عامہ کو لاحق خطرات پر نظر رکھنی چاہیے۔ ایسے بلوں پر کھل کر مخالفت ہونی چاہیے جو عوام کے فائدے سے میل نہ کھاتے ہوں، ان بلوں ں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے جن میں عوام کے لیے ریلیف ہو۔ اب یہ منتخب نمائندگانوں کا فرض ہے اور اس کا ان کو ادراک کرنا ہوگا۔ان کو سمجھنا ہو گا کہ ذاتیات پر حملوں سے اور ملفوف الفاظوں کے استعمال سے قوم کی خدمت نہیں ہوتی۔ اگر عوام کے لیے کچھ کرنا ہے تو خداراعملی طور پر کریں۔
عملی طور پر کرنے کا ضروری کام معیشت کو ٹھیک کرنا ہے۔ مالیاتی اداروں نے اس سال مہنگائی 7.1 بتائی ہے جو اگلے سال تک 13.5 فیصد تک بڑھے گی۔معیشت اگلے دوسالوں میں خطرناک لیول تک پہنچ جائے گی۔ایک سال کے دوران ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی۔اور یہ کہا جارہا ہے کہ ڈالر مزید مہنگا ہوکر150 تک جائے گا۔اگر ایسا چلتا رہا تو امیر پر تو کوئی خاص بوجھ نہیں پڑے گا، البتہ غریب عوام اور چھوٹے کاروبار کرنے والے مالی خسارے کے ڈر سے کاروبار بند کر دیں گے۔ یہ بات بھی حکومتی دعوؤں کے غباروں سے ہوانکالنے اورخواب غفلت سے جاگنے کے لیے کافی ہے کہ 2019 میں ملکی مجموعی پیداوار کے مقابلے میں قرضوں کا حجم 82.3 فیصد ہے، جو گزشتہ 17 سال کے دوران سب سے اونچی سطح ہے۔ 2018 کے آخیر تک یہ حجم 73.2 فیصد تھا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت اقتصادی بد عملی کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہے۔اوراسی کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے قابل ترین وزیر خزانہ کو عہدے سے ہٹا چکی ہے۔بین الاقوامی سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے حکومت کی غیر منظم اقتصادی پالیسیاں عیاں ہوتی ہیں۔
حکومت کے پہلے دن سے یہی ترجیح رہی کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جایا جائے۔لیکن اب لگتا یہی ہے کہ پیر سے شروع ہونے والے مذاکرات میں حکومت آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکج لینے کی کوشش کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا آئی ایم ایف کے اس پروگرام سے عوام کے مسائل کم ہوں گے؟اگر آئی ایم ایف اپنی شرائط منوا لیتا ہے(جس کی قوی امید ہے) تو عوام کے لیے مہنگائی کا سونامی آئے گا جس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کرنسی کی قدر میں کمی آئی ایم ایف کی ترجیح ہے۔ اگر ایسا ہوا تو روزمرہ کی اشیاء مزید مہنگی ہوجائیں گی۔شرح سود 10.75 فیصد سے بڑھے گا جو کہ پہلے ہی سرمایہ کاروں کے لیے درد سر بنا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے سرمایہ آنے کی بجائے نکل رہا ہے۔اگرسرمایہ کاری کی عمارت زمین بوس ہوئی تو شر ح نمو میں کمی ہوگی، جس سے روزگار کے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔حکومت کاکہنا ہے کہ ان حالات میں چین کا کردار بہت اہم ہے اس لیے وزیر اعظم عمران خان چین کے دورہ کررہے ہیں۔کیا ملک کی معیشت کو لگے مرض کی دوا صرف پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ ہے؟ کیا یہ منصوبہ بیمار معیشت کو صحت یاب کرے گا؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں