رمضان فرمائشی پروگرام نہیں

آج کل ہر طرف ایک ہی چرچا ہے کہ خواتین رمضان سے قبل مہینہ بھر کا کچن کا کام ہلکا کرلیں، مثلا لہسن پیس کر رکھ لیں،پیاز کو براؤن کرکے  رکھ لیں،سموسے رول مہینہ بھر کے بنالیں،ٹماٹر پیس کر ابال کر فریز کر لیں۔۔ایک خاتون نے کہا چاول بھگوکر خشک کرکے تھیلیوں میں رکھ لیں،اک خاتون نے ٹی وی پر مشورہ دیا کہ فروٹس کاٹ کر زپ لاکس میں رکھ لیں، شیک اور چاٹ کے کام أئیں گے وقت بچے گا۔ مزید مشورے سفید سیاہ چھولے ابال کر پیکٹ بنالیں،دال کے بڑے تل کر پیکٹ بنا لیں،اک مشورہ تھا املی کی میٹھی چٹنی کیریوں کی کھٹی میٹھی چٹنیاں جار میں بھر کر رکھ لیں اور سبزیاں کچھ ابال کر کچھ بن ابلی فریز کرلیں،اک سگھڑ خاتون نے کہا پراٹھے ادھ کچے مہینہ بھر یاہفتہ بھر کے بنا کر فریز کر دیں۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کریں؟؟ گھر کے کام کاج کو دماغ پر سوار کیوں کرلیں؟؟ اگر ہم ملازمت پیشہ ہیں تو فکر دوسری طرح کی ہوگی وہ خواتین تو عام روٹین میں بھی یہ سب کچھ کرتی ہی ہونگی۔۔

مشورے ہیں کہ شعبان کے مڈ سے یہ تیاری شروع کردیں اور ہم سارے سر دھن رہے ہیں کہ واقعی میں عورت کتنی مجبور کہ خانگی امور کابوجھل پن اور رمضان کے تقاضے!!!!!

۔

کیا ہماری عبادتیں،ریاضتیں بہت بڑھ گئی ہیں یا وہ ناخواندہ تھے ہم اعلی تعلیم یافتہ، اس لیے اتنا فکر مند ہیں کہ کچن کا کیاہوگا رمضان میں۔۔ایساکچھ ہو جائے کہ بٹن دباؤں تو کھانے کی تھیلیاں لڑھک کر خود مائیکروویو میں چلی جائیں اور روبوٹ ٹیبل تک سموسے،دھی بھلے،فروٹ چاٹ،شیک اور بریانی کوفتہ سب سجا دے۔۔

کیاہم نہیں جانتے کہ گھر کے کام عبادت ہیں؟؟

جتنا بھرا ہوا فریزرہوتا ہے دماغ بوجھل ہوتاہے کہ کوئی چیز زیادہ پرانی نہ ہوجائے۔

ہم کتنی عبادت کرتے ہیں کہ گھر کے کام حائل ہوجائیں گے اور کھانا پکانا وقت کتنا لیتاہے ؟؟ بلکہ آپ کچن میں جاتی ہیں تو روزے کی قدر بڑھتی ہے ۔

سوال یہ ہے دسترخوان پر ہر روز سموسے،رول ،پکوڑے اور چھولے کیوں ہوں؟؟کیا افطار کے دسترخوان پر کوئی مشروب اور کھجور کافی نہیں؟؟ مشروب لسی بھی ہوسکتی ہے، سیب، چیکو یا کھجور کا شیک بھی،پھر کھانا تو تیارہی ہے فوری بعد نماز مغرب کھانا لگائیں، تراویح سے قبل کچھ سستانے اور کچن سمیٹنے کا بھی وقت مل جائیگا پھر تراویح کے بعد کچن کا جھنجٹ بھی ختم۔۔

کھانے میں سالن ہو یا چاول وغیرہ ۔۔خوب بھوک ہوتو دال چاول بھی سلاد کے ساتھ مزہ دے جاتے ہیں ۔افطاری سے بوجھل پیٹ بریانی اور کوفتوں کی بھی لذت محسوس نہیں کرتا۔۔

اصل میں امتحان کا وقت ہے عصر اور مغرب کے بیچ جب نفس کی خواہشیں ابھر ابھر کر سامنے آتی ہیں کہ کتنے بے چارے ہوتم ۔۔سارے دن کی بھوک پیاس کی مشقت کے بعد اب تو افطار سے بھرا دسترخوان تمھارا حق بنتاہے۔۔۔

امام غزالی ؒ  فرماتےہیں کہ آپ کے روزے کا اصل امتحان آپ کے افطار کے دسترخوان پرہوتا ہے کہ نفس کو مارنے کی کتنی تربیت ہوئی ہے ؟؟

سوچنے کی بات یہ ہے کہ دسترخوان کیسے ہلکاہوکہ معدہ  ہلکاہو اور عبادت کا لطف آئے۔۔

گیارہ مہینہ خوب کھایا ہے اب بھی صرف کھانے ہی کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ پیٹ خالی بھی ہے تو کیا فریزر تو ماشاءاللہ لبالب بھرا ہواہے کہ ایک چیز نکالنے میں بھی دس منٹ لگ جاتے ہیں۔

اب کھانے سے آگے سو چنا ہے۔۔

گھر کے کام خالصتاً عبادت ہیں۔۔کام کو ہلکا کریں خواہشوں پر ضرب لگا کر۔۔۔رمضان فرمائشی پروگرام نہیں ہے کہ ہر اک کی الگ فرمائش۔۔

گھر کے مرد بھی ہاتھ بٹائیں تو کوئی ذمہ داری بوجھل نہیں ہوتی۔۔

رمضان کو بوجھ نہ سمجھیں کہ ہلکان ہوجائیں کہ اور کیا رہ گیا رمضان سر پر آگیا!!!یہ رمضان کی تیاری نہیں ہے۔۔

رمضان کی تیاری تو۔۔۔

۔۔۔ تہجد کی بیداری،

۔۔۔ کم کھانے کی مشق

۔۔۔ اور

۔۔۔ قرآن سے تعلق کی استواری ہے۔

رمضان تو مشقت کا مہینہ ہے۔ غزوات اور فتح مکہ کا ماہ مبارک ہے۔۔بڑی بڑی فتوحات اس ماہ میں ہوئیں اسلامی تاریخ کی۔۔۔

ایک مسلمان عورت کے لیے خانگی ذمہ داری نہ بوجھ ہے نہ یہ ہلکان ہونے کے عنوانات۔۔

افطار کے بعد ایک روز بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خواہش ظاہر کی کہ زیتون کی چپڑی روٹی کے ساتھ کوئی سالن ہوتا توکتنا اچھاہوتا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔عائشہ کیا زیتون کے ساتھ بھی سالن کی گنجائش رہتی ہے؟

بس بچنا اسی لذت کام ودہن سے ہے اور خواہشوں کے سراب سے۔۔

لعلکم تتقون۔۔۔۔سب کا بچنا الگ الگ ہوگا اس لیے کہ سب کے نفس کے تقاضے الگ الگ ہیں۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں