تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو

ہر سال ۲۲ اپریل کو پاکستان میں کتابوں کا قومی دن منایا جاتا ہے.یہ الگ بات ہے کہ اس بات کا علم آجکل کم ہی لوگوں کو ہوتا ہے.ہر ملک میں اس حوالے سے الگ الگ دن مختص ہیں جن میں کتابوں کی اہمیت بتائی جاتی ہے اور کتابیں پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے.
کسی بھی زبان میں اچھی اور معیاری کتابیں اس قوم کا سرمایہ ہوتی ہیں.یہ کتابیں ہی ہیں جو کسی قوم کو اُس کی اصلیت سے جوڑے رکھتی ہیں اور اس کو زندگی کے مقصد سے روشناس کراتی ہیں.جو قومیں کتابوں سے رشتہ قائم رکھتی ہیں،انہیں آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا.اس کے علاوہ ہمارے دین میں تو ویسے بھی علم حاصل کرنے کی کافی اہمیت بیان کی گئی ہے.حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی میں پہلا حکم ہی علم حاصل کرنے کے متعلق ہے.
کتابوں کے حوالے سے مسلمانوں کی تاریخ کافی پرانی ہے.کسی زمانے میں بغداد علوم و فنون کا گڑھ سمجھا جاتا تھا.ہر جگہ سے مسلمان قافلے علم حاصل کرنے کیلئے بغداد کا رُخ کرتے تھے.بڑے بڑے کُتب خانے نادر و نایاب کتابوں سے بھرے ہوتے تھے.لیکن جب مسلمانوں نے علم کی قدر کرنا چھوڑ دی تو تاریخ نے وہ وقت بھی دیکھا جب بغداد کے کتب خانے آگ میں جل رہے تھے اور دریا کتابوں کی سیاہی سے کالے..
صرف یہی نہیں بلکہ چند دہائیوں پہلے کراچی کا اردو بازار اور لائبریریاں پُر رونق ہوتی تھیں.”آنہ لائبریری” اور “گشتی لائبریری” اُسی وقت کی ایجاد تھیں.اور کچھ نہیں تو لوگ  اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے کتب کا تبادلہ کرلیا کرتے تھے.لیکن اب یہ روایت بھی ختم ہوتی جارہی ہے.اب اگر پڑھی جاتی ہیں تو کورس کی کتابیں وہ بھی بہ مجبوری.اسی لئے ہمارے ذہن یک محدود سوچ کے عادی ہوگئے ہیں.غوروفکر اور تدبّر ہماری سرشت میں نہیں رہا.شاید علامہ اقبال نے اسی موقع کے لئے کہا تھا:
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کرے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو

  کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں
اجتماعی طور پر ہماری قوم کا مقصدِزندگی تعیّش اور برانڈڈ اشیاء کا حصول ہی رہ گیا ہے.بہت ہی کم لوگ ہیں جو ادب سے وابستہ ہیں  اور اس کی ترقی کیلئے کوشاں ہیں.میرے ایک استاد صاحب جب اس بارے میں بات کرتے تھے تو کہتے تھے کہ:
“وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جو  کتابیں  ٹھیلوں میں اور جوتے دکانوں کے شوکیس میں سجا کے بیچتی ہو.”

حصہ

1 تبصرہ

  1. بہت خوب۔۔۔کتاب سے رشتہ توڑ کر کتاب چہرہ لیے تکتے رہتے ہیں۔۔۔سوچتے کم اور دیکھتے زیادہ ہیں۔ پھر جو دیکھتے ہیں وہی سوچ بن جاتی ہے۔۔۔علم اور تعلیم میں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ ہم ڈگری یافتہ جاہل ہی ہو گٸے۔

جواب چھوڑ دیں