مہنگائی،پی ٹی آئی کی رسوائی 

میرے شہر کمالیہ کے معروف ڈیرہ رائے سلطان کا کرتا دھرتا چاچا لعب دین تھا ،غریب کے مسائل سے لے کر امرا کی خدمت تک تمام معاملات کا انچارجِ کل چاچا لعب دین ہم نوالہ و ہم پیالہ کے علاوہ سفر و حضر میں بھی رائے سلطان کے ہم رکاب ہی دکھائی دیتا تھا،میں نے ان کے بارے میں ایک روائت سن رکھی ہے جو موجودہ دورِ حکومت پر من و عن پوری اترتی ہے،کہانی کچھ اس طرح سے تھی کہ ایک روز چاچا لعب دین اور رائے سلطان نے اپنے چند ملازمین کے ساتھ شکار کے لئے کمالیہ جنگل کی طرف نکلنے کا قصد کیا،شہر سے باہر نکلتے ہی چاچا لعب دین کو چڑیوں کا ایک غول نظر آیا،لعب دین کی رگ شکار نے انگھڑائی لی اور انہوں نے آؤ دیکھا نا تاؤ فوراً رائفل میں کارتوس بھرا اور فائر کھول دیا،چونکہ چاچا لعب دین کوئی مستقل اور کہنہ مشق شکاری نہیں تھا اس لئے فائر عین نشانہ پر نہ بیٹھ سکا، رائے سلطان نے از راہ تفنن لعب دین کو ڈانٹے ہوئے کہا کہ ’’اوئے لبھیا تم نے میرا دس روپے کا کارتوس ضائع کردیا اور چڑی تم سے ایک بھی نہیں شکار ہوئی‘‘چاچا لعب دین نے نہائت معصومیت سے جواب دیا کہ’’رائے صاحب چھوڑیں کارتوس کی قیمت کو آپ ذرا اندازہ لگائیں کہ کارتوس کی آواز سے چڑیوں کی ایک بار تو ’’بیٹھ ‘‘نکل گئی ہوگی‘‘
ایسا ہی کچھ معاملہ موجودہ دورِ حکومت کا بھی ہے کہ نہ سنبھلنے اور رکنے والی مہنگائی کے جن نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جبکہ جعلی سقراط و ارسطو اس بات پہ نازاں ہیں کہ وزیر اعظم ہاؤس میں مہمانوں کی میزبانی چائے اور بسکٹ سے کی جاتی ہے جس سے حکومت ہر ماہ کروڑوں روپے بچا رہی ہے،ایسا ہی ہوتا ہوگامگر عوام کا رونا اس لئے بھی بجا ہے کہ ان کی پلیٹ خالی ہے۔پلس مائنس کرنے سے کاغذوں کا پیٹ تو بھرا جاسکتا ہے انسانوں کا نہیں،کہ بنی نوع انسان کی شکم سیری تو صرف غذا سے ہی ممکن ہو سکتی ہے جو عہد حاضر میں عوام کے پیٹ کیا ہاتھوں سے بھی کہیں دور دکھائی دیتی ہے۔مگر ہمارے وزرا کو کون سمجھائے کہ مہنگائی اور قیمتوں کی گرانی کا کبھی بھی فلسفیانہ یا منطقی حل نہیں پیش کیا جاتا بلکہ عملی ثبوت پیش کر کے عوام کے دلوں کو جیتا جاتا ہے۔وگرنہ ملکہ فرانس کی طرح کے بیانات اخبارات و سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہیں گے کہ کیا ہوا اگر آٹا مہنگا ہو گیا ہے عوام ڈبل روٹی پہ گزارا کر لے،قیصر وجدی کا خوبصورت شعر یاد آگیا کہ
بھوک بازار تک چلی آئی ہے
آپ خود داریوں میں بیٹھے ہیں
دور ایوب میں بیس روپے من آٹا ہوا تو ایک ریڑھی بان سے لے کر جالب جیسے شعرا نے پورے ملک میں ایک کہرام کی سی صورت پیدا کر دی کہ ایوان اقتدار میں مسند نشینوں کو یہ سوچنا پڑا کہ ان کا حل کیا نکالا جائے،فرانس کی ایک جیل باستیل میں چند قیدیوں نے ملک میں ہونے والی گرانی کے خلاف ایک پلان بنایا اور جیل سے باہر نکلتے ہی عوام کی سوچ ہی بدل ڈالی،بوسٹن کی بندرگاہ میں چائنہ کی چائے کے جہازوں کو اس لئے غرق سمندر کر دیا کہ ہم یہ چائے استعمال نہیں کریں گے مگر یہ سب تب ہی ممکن ہوا جب عوام کا احتجاج قصر اقتدار کی دیواروں کو گرانے کے در پے ہوا وگرنہ انہیں آٹے، دال اور چاول کی قیمت سے کیا لینا دینا۔میری طرح ہو سکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں بھی یہ بات نا آ رہی ہو کہ چلیں اسد عمر کے پاس چونکہ وزارت خزانہ کا قلمدان تھا تووہ اپنی وزارت کو بچانے کے چکروں میں عوام سے جھوٹ سچ بول کر انہیں دلاسہ و اطمینان دینے کو کوشش کرتا رہا ،لیکن مجھے شیخ رشید کے بیانات کی بالکل سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر مہنگائی ہو بھی گئی تو کوئی بات نہیں عوام بھوک سے مر نہیں جائیں گے،بھئی کوئی اس شیخ صاحب کو سمجھائے کہ انسان تو بھوک سے ہی مرا کرتے ہیں اور ’’ات خدا دا ویر ہندا اے‘‘
ایسے وزرا کو کون سمجھائے کہ ہر گزرتا لمحہ ان کی گرفت سے دور نکلتا جا رہا ہے کیونکہ ہر گزرتے لمحہ میں بجلی،گیس،پانی سمیت تمام قسم کی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ نے غریب اور متوسط طبقہ کی چیخیں نکال کے رکھ دی ہیں اور وقت کا ہیرو ہیٹو بانسری بجانے میں مگن ہے۔روپے کی قدر میں کمی ،تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں،انٹر بینک میں ڈالر کی قدر میں اضافہ اور حکومت کا چوری چوری سب سے چھپ کر ورلڈ بینک اور آ ئی ایم ایف کے چکر لگانا ہم سب کے لئے باعث تشویش ہے۔میں یہ بات سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ عمران خان کیا سوچ کر خاموشی کی بکل مارے بیٹھے ہیں ،انہیں عوام کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کاعملی حل پیش کرنا چاہئے کہ چائنہ حکومت نے دو ارب دس کروڑ فراہم کر دئے ہیں،قطر،سعودیہ،ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے بھی مالی معاونت و امداد کا شور ہر سو پھیلا ہوا ہے،اگر دیکھا جائے تو تقریباً دس ارب ڈالر مل چکے ہیں،علاوہ ازیں تارکین وطن کا ڈیم فنڈ میں دل کھول کر امداد دینا بھی اپنی جگہ شامل ہے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کہاں جا رہا ہے اور ملک میں کیا ہو رہا ہے اگر سابقہ حکمرانوں کے اللے تللے کو بہانہ بنا کر ہی حکومت چلانی تھی تو عوام کو خواب دکھانے کی ضرورت کیا تھی؟مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں،مایوسی پھیلتی جا رہی ہے،قیمتوں میں گرانی سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں،عمران خان کو اس طرف سوچنے کی انتہائی ضرورت ہے کہیں یہ مہنگائی اس کی حکومت کے لئے رسوائی نہ بن جائے کہ جس کا اختتام ایک انقلاب اور پھر دنیا میں دیگر انقلابات کے اختتام کی طرح حکومت کا خاتمہ ۔سوچو اس سے پہلے کہ تمہاری داستان نہ ہو داستانوں میں۔عملی اقدامات کی طرف بڑھو قبل اس کے کہ عوام کا انقلاب آپ کی حکومت کے پاؤں تلے سے اقتدار کی زمین نکال دے،کیونکہ عوام ہی اصل طاقت کا سرچشمہ ہیں۔حکومت اگر عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہیں کر سکتی تو عوام ان سے حکومت کرنے کا حق بھی چھین لیتی ہے۔مسند نشینی اگر اتنا ہی فعل سہل ہوتا تو اصحابِ رسول اپنی راتیں آنکھوں میں نہ گزارتے۔پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے لئے مدینہ والے کے نقش قدم پر چلنا ازحد ضروری ہے وگرنہ یہی مسندپھولوں کے گلستان کی بجائے کانٹوں کا بستر بن جایا کرتی ہے۔حکومت وقت کو اگر اپنی مسند نشینی کو کانٹوں کی بجائے گلابوں کا مسکن بنانا ہے تو عوام اور صرف عوام ہی ان کی پہلی ترجیح ہونا چاہئے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں